پاکستان کو وجود میں آئے چھ ماہ ہوئے تھے‘ فروری کی چودہ تاریخ تھی جب میں نے اس فانی مگر پیچیدہ دنیا میں آنکھ کھولی۔ تاریخ کے اندراج میں غلطی کا امکان اس لیے نہیں کہ دادا جان روزانہ ڈائری لکھتے تھے اور واقعات فوراً قلم بند ہو جاتے تھے۔
نہیں معلوم پیدائش کی یہ ساعت سعید تھی یا اُس وقت ستارے نحوست کا اشارہ دے رہے تھے۔ یوں تو ان چیزوں پر یقین ہی نہیں! بلکہ یہ کہہ کر تمسخر اڑایا ہے کہ ؎
ستارے دیکھتا ہوں، زائچے بناتا ہوں
میں وہم بیچتا ہوں، وسوسے بناتا ہوں
مگر لگتا ہے کہ ملک سے باہر خصوصاً اہلِ مغرب نے اپنے علم و دانش سے اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے معلوم کر لیا کہ ایک جوہرِ قابل پیدا ہوا ہے۔ مجھے خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے انہوں نے چودہ فروری کے دن کو محبت کا عالمی دن قرار دے دیا۔ تاہم وطن میں اس موتی کی قدر نہ ہوئی۔ اندازہ لگایئے‘ جس شخص کا یوم پیدائش پوری دنیا میں پھولوں‘ گلدستوں اور تہنیتی کارڈوں کے تبادلے سے منایا جاتا ہے‘ رقص و سرود اور مے نوشی کی محفلیں برپا کی جاتی ہیں‘ اپنے وطن میں اُس کی پیدائش سے ہی حالات نے وہ رُخ اختیار کرلیا کہ کسی زاویے سے انہیں خوش آئند نہیں قرار دیا جا سکتا۔ نظیری نیشاپوری نے تو کئی سو سال پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی ؎
یک فالِ خوب راست نہ شد بر زبانِ ما
شوئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط
الو کی نحوست واضح ہو گئی‘ ہما کی خوش بختی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کوئی نیک فال درست نہ ثابت ہوئی۔
جب سے ہوش سنبھالا‘ مجھے بتایا گیا کہ تمہاری پیدائش کے دن ہی سے یہ ملک خطرے میں ہے بلکہ اکثر و بیشتر یہ کہا گیا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ کل بھی پورا دن ٹیلی ویژن چینلوں پر اشتہار بازی کی صورت میں اعلانات ہوتے رہے‘ ملک خطرے میں ہے۔ ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا مگر یہ خطرہ ٹل نہیں رہا۔ حالتِ جنگ مسلسل جاری ہے۔ دلاور فگار یہ کہتے کہتے دنیا ہی سے رخصت ہو گئے کہ ع
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
اس خطرے کے دوران بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ خطرے سے نمٹنے کے لیے آمروں کی اولاد نے فوج کی ملازمت ہی چھوڑ دی اور توجہ کاروبار پر مبذول کردی۔ الطاف گوہر جیسے نابغوں نے بُوری گنگا اور میگنا میں ڈگمگاتی ہچکولے کھاتی کشتیوں پر ''عشرۂ ترقی‘‘ یعنی Decade of development کے پھڑپھڑاتے بینر لگوا دیے۔ پھر ہم نے آدھا ملک کاٹ کر پرے پھینک دیا تاکہ خطرہ بھی آدھا رہ جائے۔ اس خطرے کے دوران ہی سرکاری ملازموں کے بچے چوٹی کے صنعت کار بن گئے۔ جدہ سے لے کر نیویارک تک اور پیرس کے مضافات سے لے کر لندن کے گراں بہا محلوں تک جائدادیں‘ کارخانے محلات اور کاروبار کھڑے ہو گئے۔ خطرے سے نمٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے اجلاس اور آئی ایم ایف سے مذاکرات دبئی میں کیے جانے لگے‘ میں نہیں سمجھتا کہ میری زندگی میں یہ ملک خطرے سے باہر آ سکتا ہے اور حالتِ جنگ ختم ہو سکتی ہے۔
میں جب بھی سرکاری دفتروں سے ایڈوانس لے کر‘ یا بیوی کے زیور بیچ کر یا اس کی کمیٹی کمیٹی جوڑے ہوئے پیسے اٹھائے پراپرٹی ڈیلروں کے پاس گیا کہ سر چھپانے کے لیے کوئی پلاٹ خرید لوں تو ہمیشہ کہا گیا کہ حضور! مہنگائی بہت ہے‘ جب سے آپ پیدا ہوئے ہیں‘ کاروبار میں تیزی ہے‘ قیمتیں آسمان پر ہیں‘ جو رقم آپ کے پاس ہے اس میں ڈھنگ کا کوئی مکان‘ کوئی قطعۂ زمین نہیں مل سکتا۔ اگر میں نے جوں توں کر کے کوئی قطعۂ زمین خرید بھی لیا اور کسی بچے کی شادی کے موقع پر اسے فروخت کرنے گیا تو معلوم ہوا جب سے پیدا ہوا ہوں‘ بازار میں مندا ہے۔ خریدوفروخت ہو ہی نہیں رہی۔ قیمتیں گر گئی ہیں۔ جو قیمت میں مانگ رہا ہوں‘ وہ ناممکن ہے۔ ساڑھے چھ دہائیوں سے یہ کسادبازاری‘ یہ Slump ملک پر طاری ہے اور اس سے نجات کی میری زندگی میں کوئی امید نہیں!
میری پیدائش پر ایک اور نحوست یوں ظاہر ہوئی کہ پوری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئی۔ نصرانیوں‘ ہندوئوں‘ یہودیوں‘ اشتراکیوں‘ ملحدوں‘ زندیقوں‘ کالوں‘ گوروں نے سارے کام چھوڑ دیے۔ نہ اپنے اپنے ملک پر توجہ دی‘ نہ عوام پر‘ نہ اپنے اہل و عیال پر۔ سارا زور‘ سارا وقت‘ سارے وسائل ہمارے خلاف سازشیں بُننے میں جھونک دیے۔ ان بدبختوں نے ایسی ایسی سازشیں کیں کہ ہمارے امرا نے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا۔ تاجروں کا طبقہ ریاست کی رٹ ماننے سے منکر ہو گیا۔ حکومتوں نے زرعی اصلاحات نافذ کرنے سے انکار کردیا۔ سیاسی جماعتوں نے ساری توجہ اقتدار حاصل کرنے پر مرکوز کر دی۔ یہودو ہنود کی سازشیں اتنی قوت پکڑ گئیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں پر خاندانوں نے قبضے کر لیے۔ اقتدار بھائیوں‘ بھتیجوں‘ بیٹیوں‘ بہنوں میں یوں بٹنے لگا جیسے جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ ظلم کی انتہا ان دشمنوں نے یہ کی کہ آج تک کوئی سازشی پکڑا نہیں گیا۔ پتہ نہیں ان کمپنیوں کے پاس کون سی سلیمانی ٹوپی ہے کہ یہ آج تک کسی کو دکھائی ہی نہیں دیے۔ میں اب ناامید ہو چکا ہوں اور یقین ہو چلا ہے کہ میری زندگی میں شاید ہی کسی سازشی کا اتہ پتہ‘ حدود اربعہ‘ محل وقوع‘ ایڈریس معلوم ہو سکے۔
دوسرے ملکوں کے لیے میری پیدائش عید کا چاند ثابت ہوئی۔ برکتوں کے باب وا ہو گئے۔ ترقی کے دریچے کھل گئے۔ عطر بیز ہوائیں چل پڑیں۔ پھول کھل اٹھے۔ باغوں سے مہکار اٹھی اور سارے میں پھیل گئی۔ چین نے انگڑائی لی اور پوری دنیا کو اپنی مصنوعات کا قیدی بنا لیا۔ ملائیشیا نے آئی ایم ایف کو چلتا کردیا اور جاپان کے صنعت کاروں کو اپنے ہاں لا بٹھایا۔ مچھیروں کی گندی‘ بدبودار بستی سنگاپور بن گئی۔ جنوبی کوریا ٹائیگر بن گیا۔ ننھا منا تائیوان سیاحوں کے لیے بہشت کی صورت اختیار کر گیا۔ ہانگ کانگ نے پوری دنیا کو حیران کردیا۔ ہمارے وطن کے پاس ہی‘ ریگستانوں کے چرواہوں نے فلک بوس بُرج بنائے اور پوری دنیا کے تاجر‘ کمپنیاں ہر شعبے کے ماہرین‘ مکھیوں کی طرح ان کے اردگرد بھنبھنانے لگے۔ دبئی میں شاہی خاندان کے چشم و چراغ کی گاڑی کا چالان ہو سکتا ہے مگر میرے ملک میں اگر پولیس شاہی خاندان کے نوکر پر بھی قانون نافذ کرنا چاہے تو بھونچال آ جاتا ہے۔ درجنوں معطل ہو جاتے ہیں۔ پھر معافیاں مانگنا پڑتی ہیں۔ کچھ گردنیں جھک جاتی ہیں۔ کچھ تن جاتی ہیں۔ پھر پولیس کے سپاہی اور تھانیدار بے عزتی اور یاس کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے‘ اپنی قسمت کو کوستے‘ اُس خاکروب پر پل پڑتے ہیں جو چوری کے الزام میں پکڑا‘ تھانے میں بند ہے اور جس کا والی وارث کوئی نہیں!
ہے کوئی منجم‘ کوئی زائچہ بنانے والا‘ کوئی فال نکالنے والا‘ کوئی علم الاعداد کا ماہر‘ کوئی دست شناس‘ جو بتائے کہ کیا میری آنکھ بند ہونے سے پہلے یہ نحوستیں ختم ہو سکتی ہیں۔ اگر کوئی بنگالی بابا ہے تو میں کالے بکرے کا کلیجہ‘ سفید مرغ کی سری‘ الو کا دل‘ بندر کا خون اور شکستہ قبر کی مٹھی بھر مٹی بھی پیش کر سکتا ہوں! ہے کوئی؟