تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     29-05-2015

بجٹ اور ناگزیر ٹیکس اصلاحات

پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار، بدعنوان اور فرسودہ خطوط پر استوار ہے۔ اگر معیشت کو آگے لے کر بڑھنا ہے تو پھر اس میں بڑے پیمانے پر فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام طاقتور طبقے کو ٹیکس دائرے سے باہر رکھنے میں مددگار ، دھوکے بازوں کا ساتھی اور ایماندار ٹیکس گزاروں کو سزا دیتا ہے۔ معیشت کے بڑے حصے کا ٹیکس کے دائرے سے باہر نکل جانا ، ٹیکس اصلاحات کی نیم دلی سے کوششیں کرنا، عوام کو بنیادی سہولیات کی ناقص فراہمی اور طاقتور سیاسی اور معاشی لابیزکو نوازنے اور اُنہیں ٹیکس کے دائرے سے بچ نکلنے کا موقع فراہم کرنے کی پالیسی کو جاری رکھنا ٹیکس نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ متواتر کئی حکومتیں قومی آمدنی میں اضافہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں کیونکہ ان کی حمایت یافتہ اشرافیہ ٹیکسوں کی مخالفت کرتے ہوئے مختلف حیلوں بہانوں کی مدد سے اس سے بچ نکلتی ہیں۔
بجٹ اور محصولات کے موجودہ نظام میں بامعنی تبدیلیوں کے لیے تجاویز پیش کرنے کے سلسلے کی یہ آخری کڑی ہے۔ ٹیکس اصلاحات کے لیے تجاویز پیش کرنے کے دوران یہ بات بارہا مرتبہ کہی گئی کہ ہمیں اپنی معیشت کوڈاکومنٹ کرتے ہوئے ٹیکس فائل جمع کرانے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنا اور سرکل سسٹم کو بحال کرنا ہے۔ موجودہ فنکشنل سسٹم نہ صرف بری طرح ناکام ہوچکا بلکہ اس کی وجہ سے ایف بی آر بھی غیر فعال اور غیر موثر دکھائی دیتا ہے۔اس ضمن میں سب سے اہم مسئلہ فرضی ٹیکس، کم از کم ٹیکسز، غیر منصفانہ محصولات کی وجہ سے براہ ِ راست ٹیکسیشن کی کمی ہے ۔ ہر سال بجٹ کے موقع پر ماہرین کی جانب سے پیش کردہ مثبت اور قابل ِعمل تجاویز کومنسٹری آف فنانس اور ایف بی آر میں بیٹھے ہوئے نام نہاد دانشور، جو غریب اور کم آمدنی والے افراد پر بالواسطہ ٹیکس لگا کر اُن کی زندگی اجیرن بناتے ہیں، بلاتردد نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تمام تراحتجاج اور مخالفت کے باوجود انکم ٹیکس کے حوالے سے طاقتور حلقوں کو خوش رکھنے کی پالیسی جاری ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے ضابطے 111(4) کے تحت ٹیکس چوروںکو دیا گیا فری ہینڈانکم ٹیکس کے حصول میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ان کالموں کے ذریعے آنے والے بجٹ کو بہتر بنانے کے لیے پیش کی گئی تجاویز پر غور کرنے کی زحمت نہ کی جائے لیکن یہ سب لکھنا ہمارا قومی فرض تھا جو ہم نے پورا کردیا۔ میں نے اپنے عزیز دوست، سابق گورنر اسٹیٹ بنک، شاہد کاردار کی قابل ِقدر تجاویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی تجاویز پیش کرتے ہوئے یہ امید نہیں رکھتے کہ ایف بی آر یا منسٹر ی آف فنانس کے افسران ان پر توجہ دیں گے لیکن ایسا کرنے سے ہمارے سینے پر پڑا بوجھ ہٹ جاتا ہے کہ ہم نے اپنا قومی فرض ادا کردیا، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ان سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سرکل سسٹم کی بحالی کے حوالے سے کافی حمایت حاصل ہے کیونکہ فنکشنل سسٹم کی ناکامی کے بعد ایف بی آر ، ٹیکس بار اور تاجرتنظیمیں اس پر راضی ہوگئیں، چنانچہ ٹی آرسی(ٹیکس ریفارم کمیشن)کو چاہیے کہ اپنی فائنل رپورٹ میں اس ایشو کو بھرپور توجہ دے۔
ٹیکس نظام کو حقیقت پسندانہ اور سہل بنانے کی کوئی کوشش بھی اُس وقت تک ٹیکس کے نفاذ کو موثر نہیں بنا سکتی جب تک اس کی مہارت، اہلیت، دیانت داری اور ٹیکس حکام کی طرف سے کسی بھی سیاسی دبائو کو قبول کیے بغیر ٹیکس چوروں کا تعاقب کرنے کی لگن اس شعبے کے بارے میں پائے جانے والے منفی عوامی تاثر کو تبدیل نہیں کردیتی۔ موجودہ فنکشنل سسٹم ان مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہاہے۔ایف بی آر کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلانے کی بات بھی ہوتی لیکن اس کے سٹاف اور افسران کی مہارت کو بڑھانے کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ اگر آپ کسی ٹیکس افسر کے پاس جائیں تو آپ کو اُس کی طرف سے توہین آمیز سلوک کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ کیا ٹیکس گزاروں کے لیے شائستہ اور نرم الفاظ استعمال کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ یا تربیت درکار ہے؟دراصل ٹیکس اصلاحات کوئی جزوقتی سرگرمی نہیں اور نہ ہی کچھ قوانین کو تبدیل کرنے اور بظاہر معاملات کو خوشنما بنادینے سے یہ مرحلہ طے پاسکتا ہے۔ اصلاحات صرف اُس وقت ہی کامیابی سے ہمکنار ہوں گی جب ٹیکس کے ڈھانچے، انتظامیہ، معیشت کی حالت، ٹیکس گزاروں کے رویے اور ٹیکس کے مصرف میں تبدیلی لائی جائے گی اور جب حکمران عوام کو اپنے طرزِ عمل سے یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ ملک کو ان کی طرف سے ادا کردہ محصولات کی ضرورت ہے۔
انکم ٹیکس کے موجودہ قوانین بلاضرورت ہیں۔ براہ ِ راست ٹیکس سسٹم کا مقصدمحصولات میں اضافے کے علاوہ سماجی انصاف کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے، لیکن ہمارا نظام ان میں سے کسی مقصد کو بھی پورا نہیں کرتا۔ ایف بی آر کی کوشش کا محور درمیانے اور غریب طبقے کو کھینچ تان کر ٹیکس کے دائرے میں لانا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کے پاس کاراور ٹیلی فون ہے ، اُسے ٹیکس فائل جمع کرانی پڑے گی چاہے اُس کی آمدنی اس قابل ہے یا نہیں۔ ایسی کارروائیوں سے صرف ادارے کے کام میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سے محصولات میں ا ضافہ نہیں ہوتا۔ اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ چونکہ حکومت ٹیکس چوروںسے نمٹنے کے قابل نہیں اس لیے وہ تنخواہ اور مزدور پیشہ افراد پر ضرورت سے زیادہ سختی کرنے جارہی ہے۔ اس لیے ایسے افراد ٹیکس کا مرکزی بوجھ اٹھائیں گے، لیکن تاثر ہے کہ وہ بھی ٹیکس چوروں کو دیکھ کر اپنی جان چھڑانے کے حربے سیکھ جائیں گے۔
پروگریسو ٹیکسیشن سماجی فلاح پر مبنی جمہوریت کی روحِ رواں ہے، اور ہمارے ہاں اسی کی کمی ہے۔ پیچیدہ قوانین اور ٹیکس حکام کو حاصل لامحدود اختیارات کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ منتخب شدہ نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ مالیاتی قوانین کوحقیقت پسندانہ بنائیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے عوامی نمائندوں کو ایسی قانون سازی میں مطلق دلچسپی نہیں جس کے ذریعے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا ہوجائے۔ عوام سے کیا گلہ، عوامی نمائندے خودبھی ٹیکس قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کاارتکاب کرتے ہیں۔ اُن میںسے اکثر کی شاہانہ زندگی اور اداکردہ معمولی ٹیکس کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ وہ کس بھی قیمت پر اپنی بھاری بھرکم دولت پر واجب ٹیکس ادا کرنے اور اپنے قومی فریضے سے سبکدوش ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔ ایسے میں ٹیکس نظام کی بہتری کی کیا توقع کی جائے جب ارکان ِپارلیمنٹ خود ہی ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved