تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     30-05-2015

کچھ بھی ہو سکتا ہے

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے دکان اپنی چمکائی
جب ہمیں آزادی ملی‘ تو ساتھ ہی ایک بنا بنایا بلاک بھی مل گیا۔ جسے مغربی بلاک کہا جاتا تھا۔ قیادت امریکہ کے ہاتھ میں تھی کیونکہ یورپ کی بڑی بڑی طاقتیں دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں نڈھال ہو کے‘ تازہ دم امریکہ کے سہارے کی محتاج تھیں۔ اس نے مارشل پلان بنایا۔ جنگ میں جیتے ہوئے یورپی ملکوں کی تباہ حال معیشتوں اور صنعتوں کو طاقت کے انجیکشن دے کر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔ جواز تھا سوویت یونین‘ جس نے ایک اتحادی کی حیثیت میں دوسری جنگ عظیم میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کر کے‘ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو فتح کے نعرے لگانے کے مواقع مہیا کئے۔ ہم متحدہ ہندوستان کے پسماندہ علاقوں پر مشتمل ایک نیا وطن حاصل کر کے‘ ہڑبڑائی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے کہ دنیا میں اپنے لئے کیا مقام حاصل کریں؟ ہم نے روس کے ساتھ بھی آنکھ مچولی کی اور یورپی ملکوں سے بھی۔ اور پھر اونگھتے اونگھتے امریکہ جا نکلے۔ اس نے ہمارے احساسِ ضعیفی کو دور کرنے کے لئے تھوڑے سے ڈالر اور تھوڑا سا اسلحہ دے کر‘ ہمیں سردجنگ کا چوکیدار رکھ لیا۔ تھوڑے سے ڈالر اور تھوڑی سی بندوقیں لے کر‘ ہم نے بھارت کو ایسے للکارنا شروع کیا ‘ جیسے ہندو حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ ہمارے رہنمائوں کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ تھوڑی سی بندوقیں اور ڈالر دے کر‘ ہمیں بھارت کے خلاف نہیں‘ یورپ میں ابھرتے ہوئے کمیونسٹ بلاک سے مقابلہ کرنے کی خاطر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ امریکی ڈالروں اور اسلحہ کے زور پہ بھارت کے ساتھ جنگ کے لئے نہیں۔اس وقت ہماری حالت اس چوہے کی تھی‘ جوہتھنی کی تھوڑی سی مدد کر کے‘ اس کی گردن پر جا بیٹھا۔ راستے میں ایک پل آیا‘ تو وہ ہتھنی کے وزن سے ہلنے لگا۔ چوہا دوڑ کے ہتھنی کے کان میں گھس گیا اور بولا ''جانی!دیکھا؟ اتنا بھاری بھرکم پل میرے اور تمہارے بوجھ سے کتنی بری طرح ہل رہا ہے؟‘‘ تاریخ کا لمبا سفر طے کرتے کرتے‘ اب ہم یہاں آ گئے ہیں کہ اپنے آپ کو چین کے ساتھ نتھی کر لیا اور عادتیں وہی پرانی ہیں۔ امریکہ کی جگہ چین نے لے لی ہے اور اب اسی طرح پل پار کرتے ہوئے‘ وہی بات چین سے کہتے ہیں''جانو! دیکھو‘ تمہارے اور میرے بوجھ سے پل کیسے لرز رہا ہے؟‘‘
جب تک چینیوں نے ''جارحانہ معیشت‘‘ کی نئی اصطلاح کے تحت اپنے تجارتی مفادات کو بیرونی منڈیوںتک پھیلانے کی نئی پالیسی اختیار نہیں کی تھی‘ وہ صرف برآمدات پر انحصار کر کے اپنی معیشت کو مضبوط کرتے گئے اور جب معیشت ترقی یافتہ ممالک سے ٹکر لینے کے قابل ہوئی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری آنے سے‘ پیداواری اخراجات حد سے بڑھ گئے‘ تو چین نے جو نئی پالیسی اختیار کی‘ وہ سرمایہ دار بلاک کے معاشی فلسفے سے مختلف تھی۔ چین نے گردونواح کے ترقی پذیر ملکوںکی پیداواری صلاحیتوں کی خامیاں دور کر کے‘ نئی دنیا آباد کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کیا‘ تو اپنے سب سے قریبی اور نزدیکی پڑوسی ‘پاکستان کی طرف توجہ مبذول کی۔ دیرینہ اور گہرے سیاسی تعلقات ہونے کے باوجود چین اور پاکستان کے مابین تجارت برائے نام تھی‘ لیکن پاکستان کو خدا نے جو جغرافیائی مقام عطا کیا ہے‘ یہ ہماری آخری پونجی تھی‘ جسے ہم نے دائو پر لگا دیا ہے۔ابھی دنیا کے کسی دوسرے ملک کو چین کی نئی جارحانہ معاشی پالیسی کے اثرات و نتائج کا کوئی تجربہ نہیں۔ چین اپنی دولت سے ان پسماندہ ملکوں میں نیا انفراسٹرکچر تیار کرے گا اور وہاں پر اپنی ٹیکنالوجی اور سرمائے کے بل بوتے پر سستا مال تیار کر کے‘ عالمی مارکیٹوں میں خریدار ڈھونڈے گا۔ آج سے پہلے جتنی بھی بڑی معیشتیں ‘ کمزور معیشتوں پر حاوی ہو کر استحصال کا تانا بانا بنا کرتی تھیں‘ ان کے لئے اب راستے تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔ جنگوں اور ہتھیاروں سے غلبہ حاصل کر کے‘ محکوم منڈیوں کا استحصال کرنا سامراجی طاقتوں کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق میں عالمی طاقت کا دبدبہ استعمال کر کے‘ لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب طاقت کے بل بوتے پر پرانے طور طریقوں سے استحصال کا سلسلہ برقرار رکھنا دشوار ہو گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے پاس طاقت کے سوا دوسرا کوئی ہتھیار نہیں‘ جسے استعمال کر کے وہ استحصال کا سلسلہ برقرار رکھ سکے۔
آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ چین نے بیرونی منڈیوں میں زرمبادلہ کمانے کے لئے انتہائی مہذب اور شائستہ پالیسی اختیار کی‘ خصوصاً سرمایہ دار ملکوں کے ساتھ۔ اس پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدار کی قوت خرید کے پیش نظر اس کے لئے وہی مال تیار کیا جائے‘ جسے خریدنے کی اس میں طاقت ہو۔ مغربی منڈیوں کے لئے اس نے اعلیٰ ترین کوالٹی کا مال تیار کیا‘ تو بھارت جیسے ترقی پذیر ملکوں کو بیچنے کی خاطر ‘انہی کی قوت خرید کے معیار کا مال بھیجا اور پسماندہ افریقی اور ایشیائی ملکوں کے لئے انتہائی کم نرخوں پر‘ تھوڑے خرچ سے سستا مال بھیجا۔ یہ پالیسی انتہائی کامیاب رہی۔ چین نے یورپ اور امریکہ کے لئے اتنے اعلیٰ معیار کی اشیاء کم نرخوں پر فروخت کے لئے پیش کیں ‘ جو ان کے اپنے صنعت کار نہیں دے سکتے تھے۔ اس طرح وہ سستی مزدوری اور وافر خام مال کے ساتھ مقابلے کی منڈی میں آگے بڑھتا گیا اور اب حال یہ ہے کہ چین ‘ امریکہ کے ساتھ تجارت میں یہ پوزیشن اختیار کر چکا ہے کہ توازنِ تجارت ہر نئے سال کے ساتھ چین کے حق میں ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی ڈالروں کے خزانوں میں کمی آ رہی ہے اور چین کے پاس ڈالروں کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ اتنی دولت آنے کے بعد جہاں چینی ہنرمندوں اور محنت کشوں کا معیار زندگی تیزی سے بلند ہونے لگا‘ وہاں تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اور پیداواری اخراجات بھی بڑھتے گئے۔ اب چین ڈھیروں کی صورت میں جمع شدہ خام مال اور جدید ہنرمندیوں کی مہارتیں رکھنے والی افرادی قوت کا استعمال کر کے‘ نفع حاصل کرنے کی نئی نئی راہیں ڈھونڈنے نکلا ہے۔ اس کام کے لئے پاکستان موزوں ترین امیدوار ہے۔ جنوب مغرب کی جانب دنیا کی سب سے زیادہ قوت خرید رکھنے والی مارکیٹیں ہیں اور اس خطے کے ساتھ تجارت کے لئے نزدیکی اور آسان ترین راستہ پاکستان فراہم کر سکتا ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ چین نے جارحانہ تجارت کے لئے جو نیا تجارتی ڈھانچہ کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس کا پہلا حصہ پاکستان میں تعمیر کیا جائے گا۔ ہمارے جو وزراء تعلقات کے اس نئے موڑ کو اقتصادی کوریڈور کہہ کے ممکنات کا دائرہ تنگ کر کے دکھا رہے ہیں‘ انہیں شاید پتہ ہی نہیں کہ موجودہ صدی کا سب سے بڑا اقتصادی دھماکہ کرنے کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہاں صرف سڑکیں نہیں بنیں گی۔ بندرگاہیں بھی تعمیر ہوں گی۔ ہوائی اڈے بنیں گے۔ ترقی یافتہ ٹرانسپورٹ سسٹم آئے گا۔ پاکستان کی خام پیداوار کے استعمال سے ارزاں اشیائے صرف تیار کی جائیں گی۔ مثلاً جس دودھ اور گوشت سے تیار شدہ خوراک تیار کی جائے گی اور اسے دنیا بھر کی منڈیوں میں پھیلایا جائے گا‘ وہ باقی دنیا کے مقابلے میں انتہائی ارزاں ہوگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نئی پیداواری مارکیٹ میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کیا چاہے گا؟ ہماری موجودہ قیادت نجی مفاد کے سوا اور کچھ حاصل کرنا ہی نہیں جانتی اور جتنے بڑے پیمانے کی اقتصادی سرگرمیاں چین شروع کرنے جا رہا ہے‘ اتنے بڑے ‘وسیع اور معیاری تجارتی نظام میں یہ اپنے لئے کوئی گنجائش نہیں ڈھونڈ پائے گی۔ ابھی تک جس طرح کے کارخانے ہمارے حکمران طبقے چلا رہے ہیں اور مقبوضہ پیداواری مراکز کے کاشتکاروں کو مقروض اور محکوم رکھتے ہوئے‘ دونوں ہاتھوں سے اندھا دھند لوٹ رہے ہیں‘ اس شکنجے کو تو چینی پہلے ہی جھٹکے میں توڑ دیں گے۔ جب چینی سرمایہ دار ہر فصل کا بیمہ کرائے گا اور چین کی اپنی بیمہ کمپنیاں پیداوار کرنے والوں کو پورے دام اور نفع منتقل کریں گی‘ تو یہ ایک اور ہی طرح کی دنیا ہو گی‘ جس کا ہم صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔محنت اور پیداوار کے قدیم رشتے کو نئے نئے سانچوں میں ڈھال کر چین نے عالمی سرمایہ داروں کو جو پٹخنی دی ہے‘ اس کے مقابلے میں پاکستان کے ڈاکہ زنی کے عادی حکمران طبقوں کی بساط ہی کیا ہے؟ آج سے 10سال پہلے میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ترقی کا عہد پاکستان میں براستہ چین داخل ہو گا۔ ایک مرتبہ پاکستان میں چینی سرمائے کی کارفرمائی ہونے دیں‘ وہاں کی سستی ٹیکنالوجی کے ذریعے محنت کشوں کی زندگی میں تبدیلیوں کا عمل شروع ہونے دیں اور ایک نئی طرز کے انقلاب کا آغاز ہونے دیں تو ہو سکتا ہے‘ ہم خون کے ان دریائوں سے گزرے بغیر ہی ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکیں‘جو ترقی یافتہ دنیا کے محنت کشوں کو نصیب ہوئے۔ابھی مذہب کے نام پر ظلم اور جہالت کے ہتھیار استعمال کرنے والے بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ ہو سکتا ہے میری توقعات اور امیدیں تاریخی عمل کی کسوٹی پر پوری نہ اتریں۔ یہ صرف قیمت کا مسئلہ ہے۔ کچھ قوموں کو بھاری قیمتیں ادا کرکے‘ اچھے مستقبل کا راستہ نصیب ہوتا ہے اور کچھ قومیں شارٹ کٹ ڈھونڈ لیتی ہیں۔ قدرت نے ہمارے جغرافیے میں ان گنت شارٹ کٹس محفوظ کر رکھے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے یہ راستے ‘ ہمارے لئے قربانیوں کی قیمتیںکم کر دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved