گزشتہ شب ڈاکٹر معید پیرزادہ کے پروگرام میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا کہ معرکہ کرگل کو ناکامی میں میاں نواز شریف کی سول حکومت نے بدلا‘ جبکہ میاں نواز شریف اور اُن کے قریبی ساتھی ہمیشہ اس بات پر مُصر رہے کہ منتخب وزیر اعظم مئی‘ جون تک اس معاملے سے لاعلم تھے۔ حقیقت حال جاننے کے لیے مجھے میاں نواز شریف اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے بعض قریبی ساتھیوں کی معلومات‘ شہادتوں اور تجزیے کا سہارا لینا پڑا تاکہ سچ کی تلاش میں مدد ملے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید کی کتاب ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ جنرل صاحب معرکہ کرگل کے وقت میاں صاحب کی کابینہ میں کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے وزیر تھے۔ گوہر ایوب خان میاں نواز شریف کے دو ادوار حکمرانی میں وزیر خارجہ‘ سپیکر قومی اسمبلی اور وزیر پانی و بجلی رہے اور اب بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہیں۔ ''ایوان اقتدار کے مشاہدات‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب 2007ء میں شائع ہوئی تھی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ''یہ خاموشی کہاں تک۔ ایک سپاہی کی داستان عشق و جنون‘‘ 2012ء میں آئی تو خوب ہنگامہ ہوا۔
عبدالمجید ملک صاحب کی کتاب پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ضعیف العمری کے سبب وہ بعض واقعات کو درست طور پر بیان نہ کر سکے مثلاً جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ سے قبل نئے آرمی چیف کے تقرر کے سلسلے میں انہوں نے جو واقعات بیان کئے ہیں‘ ان میں کافی تضاد ہے۔ لکھتے ہیں ''1975ء کے آخر میں چھوٹی موٹی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اگلا آرمی چیف کون بنے گا۔ اس عرصہ میں ایک دن ذوالفقار علی بھٹو نے مجھے غلام مصطفی کھر (اس وقت گورنر پنجاب) کے سامنے بلایا اور کہا کہ میں آرمی کی کمان آپ کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔ جب بھٹو نے کھر کے سامنے مجھے چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری دینے کا عندیہ دیا تو میں نے کہا‘ مجھے ایک انٹرویو کا وقت دیں۔ بھٹو نے مجھے دوسرے دن بلایا۔ یہ ملاقات خفیہ طور پر منعقد ہوئی۔ میں نے بھٹو سے کہا کہ مجھ سے پانچ جنرل سینئر ہیں... میری رائے یہ ہے کہ سب سے سینئر جرنیل محمد شریف کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کا عہدہ دیا جائے اور جنرل محمد اکبر خان کو آرمی چیف بنایا جائے مگر بھٹو نے کہا کہ میں یہ فیصلہ آرمی کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے پاک آرمی اور ملک کے بہتر مفاد میں کر رہا ہوں‘‘۔
جنرل صاحب آگے چل کرلکھتے ہیں''جوں جوں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب پہنچ رہا تھا‘ مختلف ادارے اور ایجنسیاں اگلے چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر میں دلچسپی لے رہی تھیں... اگرچہ اس وقت تک آرمی چیف کی تقرری کے متعلق کسی قسم کا اعلان نہیں کیا گیا تھا مگر آرمی سرکل میں ایک افواہ یہ بھی تھی کہ بھٹو جنرل مجید ملک کو آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں ... جب ایجنسیوں کے علم میں آیا کہ جنرل مجید ملک کو آرمی چیف بنایا جا رہا ہے تو انہوں نے باقاعدہ ایک محاذ بنا کر بھٹو کو رپورٹیں بھیجنا شروع کیں اور میرے خلاف یہ موقف اختیار کیا کہ یہ بہت سٹرانگ آدمی ہے۔ صرف آئی ایس آئی نے (جس کے سربراہ جنرل غلام جیلانی تھے) ابتدائی طور پر ایسی کوئی رپورٹ نہ بھیجی‘‘۔
''ان ہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو اور غلام مصطفی کھر کی ناراضگی اور (گورنری کے منصب سے) علیحدگی کا واقعہ پیش آیا۔ لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں کھر نے اپنے پائوں تلے سانپ کو کچل کر کہا کہ اس طرح سانپوں کو کچلوں گا۔ جلسہ کے اختتام پر ایف آئی اے (غالباً ملک صاحب کا اشارہ ایف ایس ایف کی طرف ہے جو بھٹو صاحب کی بدنام زمانہ فورس تھی) نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو کھر نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جی ٹی روڈ کا رخ کیا۔ کھر کی روپوشی کے بعد حکومتی اداروں نے تلاش شروع کی اور یہ قیاس کیا جانے لگا کہ اس نے کور کمانڈر جنرل مجید ملک کے پاس پشاور میں پناہ لے رکھی ہے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ اٹک پل پار کر کے کھر حیات محمد خان شیر پائو کے گھر روپوش ہو گئے جو پیپلز پارٹی کے جانے پہچانے رہنما تھے‘‘۔
مزید لکھتے ہیں ''1975ء کے آخر میں اس وقت کے صدر فضل الٰہی چودھری کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں میرے سمیت بہت سے لوگ مدعو تھے۔ غلام مصطفی کھر بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ مختلف لوگوں سے ملاقات کے بعد میں کھر سے ملا اور کچھ رسمی باتیں شروع ہوئیں۔ یہ وقت تھا جب غلام مصطفی کھر اور ذوالفقار علی بھٹو کی دشمنی عروج پر تھی۔ اسی لمحے بہت سارے بلند آواز ہوٹرز کی آواز آنا شروع ہوئی جس سے یہ عندیہ ملا کہ وزیر اعظم بھٹو تشریف لا رہے ہیں۔ وزیر اعظم جب مختلف لوگوں سے مل کر ہمارے پاس پہنچے تو کھر صاحب سے بھی ہاتھ ملایا اور جب مجھ سے ہاتھ ملایا تو ان کے چہرے کے تاثرات قدرے متغیر نظر آئے‘‘۔
امر واقعہ یہ ہے کہ غلام مصطفی کھر 1975ء میں 14مارچ سے 31جولائی تک پنجاب کے گورنر رہے جبکہ حیات محمد خان شیر پائو مرحوم کھر کے گورنر بننے سے ایک ماہ دس دن قبل 5فروری1975ء کو بم دھماکے میں جاں بحق ہو چکے تھے۔ جنرل ٹکا خان 31مارچ 1976ء کو ریٹائر ہوئے اور جنرل ضیاء الحق نے یکم اپریل کو بطور آرمی چیف اپنا منصب سنبھالا ۔ ظاہر ہے کہ مجید ملک کو آرمی چیف بنانے کی بات 31جولائی 1975ء سے قبل چلی ہو گی جب کھر صاحب گورنر پنجاب تھے مگر سوال یہ ہے کہ بھٹو صاحب دس گیارہ ماہ قبل ہی اپنے ایک دیانتدار‘ لائق ‘ قابل احترام اور پیشہ ور آرمی چیف جنرل ٹکا خاں سے بالا بالا کسی جرنیل کو آرمی چیف بنانے کے لیے تگ و دو کیوں کرنے لگے تھے؟ مجید ملک سے کہیں نہ کہیں بھول ہوئی ہے۔ وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فیِ الْخَلْقِ ط
کرگل کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر حالیہ دنوں میں اخبارات کی زینت بن چکا ہے ۔ جنرل شاہد عزیز ان سے متفق ہیں اور گوہر ایوب خان بھی اس منصوبے کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پرامید نہ تھے۔ تاہم میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے اس موقف سے ان تینوں کو اتفاق نہیں کہ جنرل پرویز مشرف‘ جنرل (ر) محمود‘ جنرل (ر) عزیز‘ جنرل (ر) توقیر ضیاء اورجنرل (ر) جاوید حسن نے منصوبے کی وزیر اعظم سے منظوری نہ لی یا انہیں مکمل طور پر بے خبر رکھا۔ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) ضیاء الدین خواجہ کی بے خبری تو سوالیہ نشان ہے۔ اگر فروری1999ء میں کرگل کی پہاڑیوں پر قبضے کے وقت آئی ایس آئی اور اس کے چیف اتنے بڑے آپریشن سے مکمل لاعلم رہے اور انہوں نے وزیر اعظم کو بروقت آگاہ نہ کیا تو ایسے شخص کی بعدازاں آرمی چیف کے طور پر نامزدگی کس طرح مناسب قرار دی جا سکتی ہے۔
گوہر ایوب خان نے تو کھل کر یہ کہا ہے کہ وزیر عظم نواز شریف اس منصوبے سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ وہ لکھتے ہیں'' وزیر اعظم کو کرگل میں فوجی کارروائی شروع کرنے سے قبل اس بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔ اس بریفنگ میں وزیر اعظم کے علاوہ وفاقی وزراء جنرل (ر) مجید ملک‘ سرتاج عزیز ‘ چودھری شجاعت حسین ‘ مشاہد حسین‘ سید راجہ ظفر الحق اورجنرل (ر) افتخار علی خان موجود تھے۔ دوسری بریفنگ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئی‘‘۔
''3جون 1999ء کو کابینہ کے اجلاس میں کرگل تنازع پر بحث ہوئی۔ وزیر اعظم نے امریکی صدر بل کلنٹن کی طرف سے بھیجا گیا خط پڑھ کر بحث کا آغاز کیا جس میں کرگل‘ دراس اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے مجاہدین کو واپس بلانے کو کہا گیا تھا۔ چودھری نثار علی خان نے سوال کیا کہ کرگل آپریشن کے احکامات کس نے دیئے تھے؟ وزیر اعظم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور خط پڑھناشروع کر دیا۔......
''3جون1999ء کو کابینہ کے اجلاس میں ہی وزیر اعظم کے تاثرات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کرگل جنگ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے لیکن بریفنگ کے دوران انہوں نے جنگ کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہا‘ جو حیران کن امر ہے۔ شایدوہ اس امید پر خاموش رہے کہ پاکستان کرگل محاذ پرعسکری اہمیت کی پوسٹوں پر کنٹرول حاصل کرلے گا‘ اور جنگ میں کامیابی کی صورت میں وہ خود کو کریڈٹ سے محروم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہی طرز عمل انہوں نے جوہری دھماکوں کے وقت اختیار کیا تھا‘‘۔ (جاری)