تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     30-05-2015

ڈگری پر عملدرآمد کا انتظار

مشی گن کی ایک خاتون ان تیس ہزار امریکیوں میں شامل ہے جو ایک پاکستانی فرم کے خلاف بیس ملین ڈالر ہرجانے کی ڈگری پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ ایک امریکی عدالت نے یہ ڈگری‘ ایگزیکٹ کراچی کے خلاف اس دعوے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے صادر کی تھی جو ان لوگوں نے ایک کلاس ایکشن (اجتماعی اقدام) کی صورت میں دائر کیا تھا۔ شہر کی عمارت پر ایگزیکٹ کے جو انگریزی حروف Axact کندہ ہیں‘ ان میں ادارے کو دنیا کی سرکردہ آئی ٹی کمپنی ظاہر کیا گیا ہے اور وہ یہ جرمانہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے سربراہ نے گزشتہ دو برس میں پچاس روپے سے زیادہ انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ آئی ٹی مخفف ہے انفرمیشن ٹیکنالوجی کا‘ جس کی برآمدات پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔
امریکی خاتون نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ اس ملک میں ہائی سکول بارہ سال کا ہے‘ جو لازم ہے مگر حکام بعض معاملات میں ''ہوم سکولنگ‘‘ کی اجازت دیتے ہیں۔ خاتون نے جو تعلیم پائی وہ اسے ہائی سکول کے برابر خیال کرتی تھی اور کالج میں داخل ہونے کے لئے ایک ڈپلوما چاہتی تھی۔ اس نے یکے بعد دیگرے دو کالجوں میں درخواست دی جو رد کر دی گئی کیونکہ اس کا ہائی سکول ڈپلوما جعلی تھا اور بعد میں پتہ چلا کہ ''بالفرڈ یونیورسٹی‘‘ کا ڈپلوما دراصل ایگزیکٹ نے جاری کیا تھا۔ نیو یارک ٹائمز کے بقول‘ جس نے سب سے پہلے یہ خبر شائع کی‘ امریکہ مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں ایگزیکٹ ایسے ہی گاہکوں کی تلاش میں رہتی تھی۔
امریکہ میں جعلی ڈپلوما‘ ڈگریوں اور پیشہ ورانہ اسناد کی فروخت کا دھندہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ یہ ملک۔ جب سے تعلیم نے کاروبار کی شکل اختیار کی ہے یہ دھندہ چمک اٹھا ہے اور شہر شہر ایسے ادارے قائم ہیں جنہیں '' ڈپلوما ملز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ایسے ادارے خلاف قانون ہیں اور پولیس ان کی تلاش میں رہتی ہے مگر دوسرے مجرموں کی طرح وہ بھی مصروف کار ہیں۔ انٹرنیٹ کی آمد سے اس دھندے کو اور بڑھاوا ملا اور کچھ یونیورسٹیاں اپنے بعض تعلیمی پروگرام‘ ویب پر بھی پیش کر رہی ہیں ہے۔ ہماری ایک بچی نے جارج میسن یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد ایک غیر سرکاری دفاعی ادارے میں نوکری کر لی اور ایم بی اے کرنے کے لئے ایسے ایک پروگرام میں داخلہ لیا۔ وہ کالج سے زیادہ مصروف نظر آتی ہے۔ پاکستان میں صوبائی اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لئے گریجوایشن لازمی قرار دی گئی تو اس ڈگری کی قدر میں جو پچاس ڈالر میں بھی مل جاتی تھی اضافہ ہوا مگر ایسا لگتا ہے کہ ایگزیکٹ نے کسی پاکستانی کو اپنی ڈگری سے نہیں نوازا۔
تعلیم و تدریس کی بجائے‘ تجربے کی بنا پر ڈگری دینے کا رواج امریکی ہے۔ آئن سٹائن نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی مگر امریکی یونیورسٹیوں نے اس پر ڈگریوں کی بوچھاڑ کر دی۔ بل گیٹس بھی‘ جس کی پیروی کا عزم ایگزیکٹ کے بانی نے کیا‘ تعلیم نامکمل ہونے کے باوجود اپنے سافٹ ویئر کی بدولت دنیا کا امیر ترین آدمی ہے۔ افسانوی شہرت کے مالک سٹیو جابز بھی ایسے ہی تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ شعیب شیخ نے انٹرنیٹ کے قانونی خلاؤں کا بغور مطالعہ کیا۔ اس نے بڑی امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ناموں سے ملتے جلتے نام ویب سائٹس پر ڈالے اور جعلسازی کا وسیع کاروبار کیا۔ اس کی ایک مثال یوں دی جا سکتی ہے۔ Barkley اور ذوالفقار علی بھٹو کی مادر علمی The University of California, Berkeley جو ایک کالج بھی ہے‘ فرق صرف جگہ کے ہجے کا ہے۔ ایک امریکی بھی بارکلے کا نام دیکھ کر دھوکہ کھا سکتا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کو کولمبین کرنے کے سوا شعیب نے آئوی لیگ کی باقی سات یونیورسٹیوں کو نہیں چھیڑا۔ اسی طرح سٹین فرڈ‘ رٹگرز‘ ڈیوک‘ ورجینیا ٹیک اور واشنگٹن کے علاقے کی چھ مشہور یونیورسٹیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایف بی آئی کے ریٹائرڈ ایجنٹ ایلن ایزل کے بقول‘ جو ڈپلوما ملز پر ایک کتاب کے مصنف ہیں، ''ایگزیکٹ غالباً ہماری نظر سے گزرنے والے آپریشنز میں سب سے بڑا ہے۔ یہ ایک دم بخود کر دینے والا منصوبہ ہے۔‘‘ پاکستان نے شعیب شیخ اور اس کے کئی ساتھیوں کو تو گرفتار کر لیا‘ ان لاکھوں لوگوں کے خلاف مقدمے کون چلائے گا‘ جنہوں نے پاکستان سے باہر اپنی ملازمت یا تعلیم کے امکانات کو بہتر بنانے کے لئے جان بوجھ کر ایگزیکٹ سے فرضی ڈگریاں خریدیں مگر جو ایگزیکٹ کے وجود سے واقف بھی نہیں تھے۔
اردو ٹیلی وژن پر ایف آئی اے (پولیس) کو کمپنی کے دفتر سے جو چیزیں قبضے میں لیتے دکھایا گیا‘ ان میں امریکی کالجوں کے خالی ڈپلومے نمایاں ہیں۔ گرانٹ ٹاؤن‘ بے ٹاؤن‘ نکسن‘ کیمبیل‘ کولمبین‘ بارکلے‘ نیو فورڈ اور راک ویل جیسے نام تو معروف تعلیمی اداروں کے ناموں سے ملتے جلتے ہیں مگر وہ تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ ایگزیکٹ دنیا بھر میں ایسی سات سو سے زیادہ ویب سائٹس پر اپنا سافٹ ویئر فروخت کرتی تھی مگر وہ یونیورسٹی نہیں تھی۔ ایگزیکٹ کے صدر دفتر سے ان کالجوں کی لاکھوں خالی ڈگریوں اور چھاپنے والی جدید ترین مشینوں کے علاوہ ایسے خالی تصدیق نامے بھی ملے جن پر سیکرٹری آف سٹیٹ ہلری راڈم کلنٹن اور ان کے جانشین جان کیری کے دستخط بنائے گئے تھے۔ تصدیق عام طور پر غیرملکی اسناد کی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا فرضی ڈگریاں اور فرضی تصدیق نامے قبضے میں رکھنا جرم ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ ایگزیکٹ نے باوقار سکولوں اور کالجوں کے ناموں سے ملتے جلتے ناموں کے تعلیمی ادارے قائم کئے۔ ان کے طلبا اور اساتذہ پیدا کئے اور ان کی عمارات تعمیر کیں مگر یہ سب کچھ ویب پر تھا۔ ہنستے نوجوان اور مسکراتے پروفیسروں کی موجودگی سے پتہ چلا کہ امریکہ میں ہالی وڈ سے باہر بھی اداکاروں کی ایک فوج موجود ہے جسے آپ نوکر رکھ سکتے ہیں اور ایک دو مہینہ کے بعد فارغ بھی کر سکتے ہیں۔ ایگزیکٹ دس پندرہ سال سے یہ دھندا کر رہی تھی حکومت کہاں سوئی رہی؟ وہ اس وقت حرکت میں آئی جب ایک امریکی اخبار نے اسے طشت از بام کیا اور امریکی روزنامے نے بھی یہ سٹوری اس وقت شائع کی جب ایگزیکٹ کا ٹیلی وژن آنے والا تھا۔ یہ سوال غیر متعلق ہیں۔ ایگزیکٹ والے کہہ سکتے ہیں کہ ان ویب سائٹس سے ہمارا کیا تعلق؟ ہم تو انہیں سافٹ ویئر فروخت کرتے تھے اور وہ ہم سے خریدتے تھے۔ پاکستان‘ دھوکہ دہی‘ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں ایگزیکٹ کو پکڑ سکتا ہے مگر سافٹ ویئر کی دلیل اسے مہنگی پڑے گی۔ امتحانات میں وسیع پیمانے پر نقل کی خرید و فروخت اور اب ڈگری سکینڈل کا انکشاف‘ ملک کے مسقبل کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش ہے۔
ڈگری ڈگری ہوتی ہے خواہ وہ اصلی ہو یا نقلی۔ بلوچستان کے ایک سیاستدان کا یہ مقولہ تو اب ایک لطیفہ بن چکا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ پکے یار ہیں مگر وہ ایک دوسرے کی ڈگری تسلیم نہیں کرتے۔ ایگزیکٹ کی ڈگری جو اس کے سربراہ کے بقول وہ جاری ہی نہیں کرتا‘ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ وہ سمندر پار کمپنیوں (کالج اور یونیورسٹی) سے ڈیل کرتا ہے جن پر پاکستان کی رٹ نہیں چلتی۔ ایگزیکٹ دبئی میں رجسٹرڈ ہے‘ جو اب تک بولا ہی نہیں۔ ان حالات میں جعلی ڈگری کے اجرا پر ایگزیکٹ کے خلاف کوئی صحیح فرد جرم indictment حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ ایف بی آئی نے شکایات کے لئے ایک ویب سائٹ قائم کی ہے‘ مگر وہ اس پر درج کی جانے والی شکایات کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ ان میں پیسے بٹورنے کی کوششیں‘ غیر ضروری ڈاک روکنے‘ آئے دن ذاتی اور حکومتوں کی معلومات (ڈیٹا) کی چوری اور ماہوار فیس کے عوض اردو ٹیلی وژن دیکھنے کی رکاوٹ تک بہت سے سائبر کرائم شامل ہیں۔ تازہ ترین واقعہ ٹیکس گزاروں سے تعلق رکھتا ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے والے سرکاری محکمے آئی آر ایس نے اطلاع دی ہے کہ اس کی ویب سائٹ سے ایک لاکھ سے زیادہ گاہکوں کی ذاتی معلومات چرا لی گئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ‘ جس کی امداد پاکستان نے طلب کی ہے‘ ایگزیکٹ کے خلاف تفتیش میں تعاون کر سکتا ہے‘ مگر سائبر کرائم کے ضمن میں وہ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔ اس نے تقریباً ایسے ہی جرائم کی بنا پر دو عشروں کے بعد فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کے چودہ عہدیداروں کے خلاف فرد جرم عائد کی ہے‘ جن میں اکثریت غیرملکیوں کی ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ ایگزیکٹ کی زیادہ نظر کرم امریکیوں پر ہی تھی اس لئے وہ شعیب اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلا سکتا ہے مگر اس مقدمے کا انجام کیا ہو گا؟ اس کی پیشگوئی کرنا دشوار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved