اس ملک کے عوام جس ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اسے حکمران طبقے کے لبرل اور قدامت پرست دانشور ''بدنصیبی‘‘ قرار دے کر مزید مایوسی اور بدگمانی پھیلاتے ہیں۔ عوام کی یہ حالت زار کوئی آفاقی فرمان نہیں بلکہ مٹھی بھر حکمران طبقے اور اس کے دم چھلے درمیانے طبقے کا جرم ہے جو اپنے نظام کو طوالت دینے کے لیے محنت کشوں کے آنسو اور لہو کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ سامراج کے یہ گماشتے منافع کی ہوس میں آبادی کی وسیع اکثریت کو زندہ درگور کرنے کے درپے ہیں اور اس جبر و استحصال کو ''تقدیر کا لکھا‘‘ قرار دے کر عوام کو مطیع اور بے بس رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری طرف خود حکمران طبقے کے سنجیدہ حلقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ملک کا جو حال کر دیا گیا ہے اس کے پیش نظر بغاوت کا آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ جس ''وطن‘‘ کی عظمت کے ترانے عوام کو سنائے جاتے ہیں، حکمرانوں نے اپنا ''بندوبست‘‘ اس سے بہت دورکر رکھا ہے۔ اس ملک کے نظاروں اور موسموں کے گن گانے والے دبئی کے ریگستانوں میں اپنے محلات خریدنے یا تعمیر کروانے میں تیزی سے سرگرم ہیں۔ یہاں کے امیروں نے اس سال کے صرف پہلے تین ماہ میں 379 ملین ڈالر کی جائدادیں دبئی میں خریدی ہیں جبکہ پچھلے دو برسوں میں 4.3 ارب ڈالر (تقریباً 430 ارب روپے) کی جائداد خریدی گئی ۔ ویسے تو مذہب اور لسانی منافرت کی سیاست کرنے والے تمام فرقوں اور قوموں کے حکمران بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں رہتے ہیں۔ فارم ہائوس، حویلیاں، ڈیرے اور آستانے اس کے علاوہ ہیں لیکن اپنے حتمی تحفظ کے لیے انہوں نے ''آخری ٹھکانہ‘‘ دبئی کو ہی بنایا ہے۔
سرحد پار کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ دبئی میں جائداد بنانے کی اس دوڑ میں 953 پاکستانی امرا کے علاوہ ایک ہزار ہندوستانی بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ 'حکمران بیچارے‘ بھی کیا کریں؟ اس خطے کے ماحول، قدرتی حسن، تاریخی شہروں اور دیہاتوں کا جو حشر ان کے نظام اور ریاست نے کر دیا ہے اس کے پیش نظر زندگی میں تعفن بھر گیا ہے۔ جھیل سیف الملوک سے چولستان کے سفید صحرائوں اور مکران کے ساحلوں تک، انسانوں سے زیادہ پلاسٹک کے لفافے نظر آتے ہیں۔ ہر طرح کی آلودگی اور غلاظت کے ڈھیر صرف گنجان علاقوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دور دراز کے پرفضا مقامات کا سکون اور دلکشی بھی مسخ ہو گئی ہے۔غربت، مہنگائی اور محرومی کا سماجی کہرام اس کے علاوہ ہے۔
نظام صحت کے جو حالات ہیں اس کے پیش نظر بیمار ہونا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ بڑے شہروں میں پانی کی قلت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور غلیظ پانی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔ ناخواندگی بڑھ رہی ہے۔ صفائی سمیت سماجی خدمات کا پورا انفرا سٹرکچر زمین بوس ہو چکا ہے۔ ٹیکس چور سرمایہ داروں کی اس ریاست کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ بنیادی سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری کی جاسکے۔ دو تہائی معیشت ویسے ہی کالے دھن پر مبنی ہے جس کا ریکارڈ ہی ریاست کے پاس نہیں ہے۔
حکمران طبقے نے اپنے لیے تو غربت کے سمندر میں امارت اور عیاشی کے جزیرے تعمیر کر رکھے ہیں۔ ان کی اپنی ہائوسنگ سوسائٹیاں ہیں جن کی بلند دیواروں کے پار کوئی غریب جھانک بھی نہیں سکتا۔ سکیورٹی گارڈوں کے جتھے ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ بجلی ان کے محلات میں جاتی نہیں، بیمار ہو جائیں تو فائیو سٹار ہسپتال اور کلینک ہیں، بچے ان کے سیون سٹار سکولوں میں ابتدائی تعلیم کے بعد حکمرانی کی ''اعلیٰ تعلیم‘‘ کے لیے مغرب چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی کرنے والے بھی یہ خود ہیں اور اس کا فائدہ بھی خوب اٹھاتے ہیں۔ سفر کے لیے ان کے پاس کروڑوں روپوں کی گاڑیاں اور نجی جیٹ طیارے ہیں۔ ''جمہوریت‘‘ ان کی باندی ہے اور آمریتوں میں بھی وہ قابل احترام ہیں۔ ریاست ویسے ہی حکمران طبقے کے جبر کا آلہ کار ہوتی ہے لیکن اندر ہی اندر پھر بھی کانپ رہے ہیں اور ''بیک اپ‘‘ پلان بنا رہے ہیں۔
ان کا ڈر بھی بے سبب نہیں ہے۔ ان کی معیشت تمام دعووں کے باوجود بیٹھ رہی ہے۔
80 فیصد آبادی تو کلی یا جزوی طور پر سفید معیشت کے سائیکل سے باہر ہو چکی ہے۔ کالی معیشت کی اذیت یہ رعایا بھلا کب تک برداشت کر سکتی ہے؟ نہ ختم ہونے والی اس اذیت سے نجات کے لیے بغاوت درکار ہے جس کا شعور کوئی بڑا واقعہ یا یکلخت معاشی و سماجی تبدیلی برق رفتاری سے اجاگر کر سکتی ہے۔ حکمرانوں کے سنجیدہ پالیسی ساز اس خطرے سے بے خبر نہیں ہیں۔ یہی ان کے خوف کی وجہ ہے۔
معاشرے پر جو عمومی منطق اس عہد میں مسلط ہے اس کی رُو سے تو اسلامی بنیادی پرستی، داعش یا کسی دوسرے عفریت کی شکل میں بربریت بن کر نازل ہوگی۔ مذہبی لیڈر حضرات بھی تصویر کے اس ایک رخ کو مبالغہ آرائی سے پیش کر رہے ہیں۔ طاہرالقادری صاحب نے چند ماہ میں ہی 25کتابیں مذہبی دہشت گردی پر لکھ ڈالی ہیں۔ جرائم پر مبنی کالے دھن کی اس ناگزیر پیداوار میں ایسی کون سے پیچیدگی ہے کہ انہیں اتنے صفحات تحریر کرنا پڑے؟ دوسری طرف ''لبرل‘‘ اور سیکولر دانش ور ہیں جن کا ''آمریت، جمہوریت‘‘ کا منجن اب بک نہیں رہا اور وہ بنیاد پرستی کے خوف کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ عوام کو ''روشن خیالی‘‘ کا درس آج فیشن ایبل برانڈ ہے۔ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا ناسور کیا عوام نے پیدا کیا تھا؟ یہ دانشور انہیں بنیادی پرستی کے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں جنہوں نے اس بربریت کا ہر زخم اپنے جسم پر سہا ہے۔ پھر انہی حکمرانوں کا قدامت پرست دھڑا ہے جس کی جڑیں سماج میں کبھی تھیں ہی نہیں۔ مذہبی جماعتوں کو کبھی پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ آج ان کی حالت اور بھی پتلی ہے اور نان ایشو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ لیکن لبرل دانش اگر سرمایہ داری کو حتمی و آخری نظام سمجھتی ہے تو مذہبی بنیاد پرستی کون سی اس نظام کی باغی ہے؟ بعض مولانا حضرات کیا نجی ملکیت، منڈی اور منافع کے نظام کو مقدس نہیں سمجھتے؟ امریکہ اور یورپ سمیت، پوری دنیا میں لبرل ازم اور قدامت پرستی، ایک ہی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس نظام کو چلانے کے طریقہ کار پر ان دھڑوں کا اختلاف بھی پرانی بات ہو گئی ہے۔ اس عہد میں سرمایہ داری کو صرف اسی طریقے سے چلایا جاسکتا ہے جو اس کا تقاضا ہے: نجکاری، ڈائون سائزنگ، عوام کے معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ، اجرتوں میں کمی، ریاستی سہولیات کا خاتمہ اور محنت کشوں پر متواتر معاشی حملے۔ جمہوریت اور آمریت کی طرح لبرل ازم اور قدامت پرستی بھی ''اختلاف رائے‘‘ کا تاثر دینے کی واردات ہے تاکہ جعلی تضادات کو ابھار کر حقیقی طبقاتی تضاد کو دبائے رکھا جائے۔ عوام جب استحصالی طبقے کے ایک دھڑے سے تنگ آ جاتے ہیں تو دوسرے کو ''متبادل‘‘ بنا کر آگے کر دیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کے ان ہتھکنڈوں کا مقصد اس نظام سے باہر متبادل تلاش کرنے کی جستجو کو زائل کرنا ہے۔
لوٹ مار کے گرد جنم لینے والے ثانوی نوعیت کے اختلافات سے قطع نظر، ان حکمرانوں کو ایک دوسرے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ انہیں خطرہ ہے تو محنت کش طبقے سے۔ اگر یہ محنت کش عوام جاگ اٹھے، اپنا مقدر بدلنے کے لیے تاریخ کے میدان میں آگئے تو حکمران طبقہ اس کی تاب نہیں لا سکے گا۔ محنت کشوں کی انقلابی تحریک کو اگر انقلابی قیادت میسر آ گئی تو دبئی اور یورپ بھاگنے کے راستے بھی مسدود ہو جائیں گے۔ پھر یہ ای سی ایل نہیں ہو گی جسے کرپٹ افسر شاہی کنٹرول کرتی ہے۔ کوئی جہاز اڑے گا نہ کوئی راستہ کھلے گا۔ پیشگی فرار ہو جانے والوں کوبھی پاتال سے نکال کر حساب لیا جائے گا۔ اپنے مظالم کو عوام کی ''بدنصیبی‘‘ اور ''مقدر‘‘ قرار دینے والوں کے مقدر کا فیصلہ عوام کے انقلابی ٹربیونل کریں گے۔ حکمرانوں کی بدنصیبی اس دن شروع ہو گی!