ہمارے بعض قارئین اور دوستوں کو ہم سے شکایت رہتی ہے کہ ہم اپنے قلم کی توانائی کا بڑا حصہ خواتین کی ''عظمت‘‘ اور ''کمالات‘‘ بیان کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ بعض احباب تو ہم پر خواتین سے بلاجواز بغض رکھنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں، بالخصوص بیویوں کے ''اوصافِ حمیدہ‘‘ گِنوانے کے حوالے سے!
ہم ایک بار پھر باضابطہ یعنی ''آفیشل‘‘ طور پر یہ وضاحتی اعلان کرتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہم خواتین سے بغض رکھتے ہیں‘ نہ ان کے مخالفین میں ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم پر خواتین کی مخالفت محض الزام نہیں بلکہ ہمیں خواتین کی دنیا میں متنازع، مشکوک اور غیرمقبول بلکہ ناقابل قبول بنانے کی سازش ہے!
ایک ہمارے لیے کیا، کسی بھی مرد کے لیے خواتین کے خلاف جانا ممکن ہی نہیں۔ ممکن ہو بھی کیسے؟ ہم اِس دنیا میں ایک عورت کے ذریعے آئے اور ایک عورت ہی کے ذریعے اِس دنیا میں اپنا وجود (جیسے تیسے) برقرار رکھے ہوئے ہیں! اب آپ ہی بتائیے سمندر میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر لینا کوئی دانش مندی ہے؟
اِس مرحلے پر ہمیں ایک ڈرامے کا منظر یاد آرہا ہے جو معروف کامیڈین سفیراللہ عرف لہری مرحوم نے سُنایا تھا۔ منظر کچھ یوں ہے کہ ایک شخص ہسپتال میں داخل ہوا تو زنانہ وارڈ کے ایک بیڈ پر دراز ہوگیا۔ نرس آئی تو برہم ہوگئی اور بولی زنانہ وارڈ میں لیٹتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ اِس پر وہ شخص بولا، ''شرم کیسی؟ ہم تو پیدا ہی زنانہ وارڈ میں ہوئے تھے!‘‘
جب مَردوں کو گھوم پھر کر خواتین کی طرف آنا ہی پڑتا ہے تو اُن سے بغض چہ معنی دارد؟ ہم تو اپنے کالموں کے ذریعے خواتین کی ''ہنرمندی‘‘ کے نمونے بیان کرتے رہتے ہیں تاکہ کچھ لوگ تحریک پائیں اور جو تحریک نہ پانا چاہیں وہ عبرت پکڑیں!
کبھی کبھی تو ہمیں سخت حیرت ہوتی ہے کہ یاروں نے ہمارے نام کے کیسے کیسے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ بعض بدخواہ یہ بے پَر کی بھی اڑاتے رہتے ہیں کہ کسی بیرونی طاقت نے ہمیں بیویوں کے حوالے سے بدگمانیاں پھیلانے کا ایجنڈا سونپ رکھا ہے! ہم کہاں اور کوئی بیرونی ایجنڈا کہاں؟
یقین جانیے ہم اِتنے بے وقوف نہیں کہ کسی بیرونی قوت کے ذرا سے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنے گھر کا سکون برباد کر لیں۔ یہ وتیرہ اُنہیں مبارک جو ملک و قوم کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ بیویوں کے بارے میں کچھ بھی لکھتے وقت ہمیں اچھی طرح یاد رہتا ہے کہ ہمارے گھر میں بھی ایک عدد اہلیہ ہیں اور ہمیں گھر واپس جاکر اُنہیں (اپنا سا) منہ دکھانا ہے!
خواتین کے بارے میں لکھتے وقت قلم کی جَولانی قابل دید ہوتی ہے‘ اور کیوں نہ ہو؟ جس طور خواتین فیشن کے معاملے میں ورائٹی پر یقین رکھتی ہیں اُسی طور طرز عمل اختیار کرنے میں بھی اُنہیں ورائٹی کا غیر معمولی پاس رہتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ اپنی مرضی کے آگے کسی کی رضا یا ناراضی کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ کبھی کبھی وہ محض اپنی مرضی کے مطابق جینے کے چکر میں ایسا بہت کچھ کر گزرتی ہیں جو خود انہیں بھی پسند نہیں ہوتا۔ یہ بالکل گدھے اور کمہار والا معاملہ ہے۔ کمہار کے ساتھ گدھا ہوتا ہے جس پر وہ سامان بھی لادتا ہے اور سوار بھی ہوتا ہے۔ یہ اُس کا یومیہ معمول ہے۔ بھلے ہی دن بھر گدھے پر سوار رہا ہو مگر آپ کے کہنے پر کمہار کبھی گدھے پر سوار نہیں ہوگا!
خواتین کھانے پینے کے معاملے میں بہت محتاط رہتی ہیں۔ فٹنس کا خیال رکھنے کے چکر میں کم کم کھاتی ہیں۔ کوئی بہت ضد بھی کرے تو نہیں مانتیں‘ یعنی تھوڑے کو اُسی طرح بہت سمجھتی ہیں جس طرح کسی زمانے میں خط کو تار سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب سَر میں مرضی کا سَودا سمائے تب؟ پھر تو منظر نامہ یہ ہوتا ہے کہ تو کون اور میں کون! یعنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کھانا اور پینا جائز ہے۔ جاپان کی کینو شیتا نے یہی ثابت کیا ہے۔ اُس نے کھانے کے معاملے میں کچھ ایسا کیا ہے کہ ہم کالم لکھنے پر مجبور ہوگئے۔ کینو شیتا نے چند منٹوں میں تین کلو نوڈلز کھاکر دنیا کو حیران کردیا۔ ایک خاتون اور چند منٹوں میں تین کلو نوڈلز!
اور مزے کی بات یہ ہے کہ محترمہ خاصی دُبلی ہیں۔ کہاں تو یہ عالم ہے کہ کسی خاتون سے قیمے کا ایک اضافی سموسہ کھانے پر اِصرار کیجیے تو فٹنس اور ڈائٹنگ کا رونا روکر معذرت کی جاتی ہے۔ اور کہاں تین کلو نوڈلز! ع
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے!
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ خواتین کی اپنی دنیا ہوتی ہے اور اِس کے اُصول بھی وہ خود ہی مرتب کرتی ہیں۔ مرزا چونکہ شادی شدہ ہیں اِس لیے اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ خواتین کیا ہوتی ہیں اور کن کن مشکلات سے دوچار کرتی ہیں! ہم نے مرزا سے کئی بار خواتین کی نفسیات پر بحث کی ہے اور اُن کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی مزید نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا پایا ہے! بار بار ناکامی سے دوچار ہونے پر بھی ہم باز نہیں آتے۔ خواتین کے موضوع پر مرزا سے کچھ دیر بحث کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسا ویسا کہہ جائیں اور ہم کالم کے ذریعے خواتین کے بارے میں چند نئی اور چونکانے والی باتیں بیان کرکے داد پائیں!
مرزا ہمیشہ بہت حسرت بھرے لہجے میں اِس بات کی شکایت اکثر کرتے ہیں کہ بیشتر خواتین ذہن بروئے کار لاتی دکھائی نہیں دیتیں مگر جب وہ کسی معاملے میں مردوں کو خاک چٹا دیتی ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سیدھی ضرور ہوتی ہیں مگر جلیبی کی طرح! مرزا کہتے ہیں، ''کبھی کبھی کھانا شوہر کی مرضی کا بھی پکتا ہے۔ شوہر کی مرضی کا خیال کس انداز سے رکھا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔ اہلیہ پوچھتی ہیں کیا پکاؤں؟ دال، قیمہ یا کریلے؟ شوہر نامدار خوش کہتے ہیں کہ کریلے پکالو۔ جواب ملتا ہے گھر میں کریلے نہیں اور آج سبزی والا بھی نہیں آیا۔ میاں جی کہتے ہیں ٹھیک ہے، قیمہ بنالو۔ سامنے سے جواب آتا ہے قیمہ تو لانا پڑے گا۔ مگر ہاں ، آج تو ناغہ ہے۔ تو پھر دال ہی بنالیتی ہوں۔ یعنی دال ہی پکانی تھی کیونکہ اِس کے سوا کوئی آپشن نہ تھا مگر شوہر کی 'پسند‘ کا بھی خیال رکھا یعنی اُسے بھی بے وقوف بنا ڈالا!‘‘
اِس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے، مرزا نے تھوڑا سانس لیا اور بات آگے بڑھائی، ''ویسے تو خواتین کو کسی بھی معاملے میں روکا نہیں جاسکتا مگر یہ بہرحال ان کی مہربانی ہے کہ نہ رکنے کے معاملے میں اپنے آپ کو چند ہی معاملات تک محدود رکھا ہے تاکہ مردوں کو زیادہ تکلیف نہ پہنچے۔ مثلاً شاپنگ کیلئے یا سُسرال جانا، کسی تقریب کیلئے تیار ہونا، گھنٹہ پیکیج پر باتیں کرنا، گھریلو جھگڑوں کی تھیم والے گرما گرم ڈرامے دیکھنا وغیرہ۔ ان چند معاملات میں کوئی روک سکتا ہے تو روک کر دکھائے۔ اور ہاں، اگر شوہر دن بھر محنت کرکے تین بسیں بدل کر شام کو تھکا ہارا گھر آئے اور بیگم صاحبہ پیار سے ایک نظر بھی نہ دیکھنا چاہیں تو کس میں دم ہے کہ اُنہیں ایسا کرنے سے روک لے!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بیوی اپنی مرضی ترک کرکے شوہر کی خواہش کے سانچے میں ڈھل کر زندگی بسر کرے۔ مرزا نے مسکراتے ہوئے کہا، ''ایسا تو اکثر ہوتا ہے۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر پوچھا وہ کیسے۔
مرزا نے مزید مسکراتے ہوئے جواب دیا، ''وہ ایسے کہ جب بھی کسی خاتون سے پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں آپ کی مرضی چلتی ہے یا آپ کے خاوند کی تو وہ بہت 'پیار‘ سے خاوند کی طرف دیکھتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ تو اپنے سرتاج کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اور جب وہ سرتاج کو تصدیق کی زحمت دیتی ہیں تو وہ بے چارا تصدیقی انداز میں سَر ہلانے کے سِوا کچھ بھی نہیں کر پاتا۔ اس موقع پر ہمیں 'مغل اعظم‘ کا ایک جملہ یاد آتا ہے جو شہزادہ سلیم نے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے مقابل ادا کیا تھا۔ جملہ یہ تھا کہ ایک عظیم الشان شہنشاہ کے سامنے کوئی کر بھی کیا سکتا ہے!‘‘
مرزا نے ایک عالمگیر اور آفاقی حقیقت انتہائی خوبصورت فلمی جملے کی صورت میں بیان کردی۔ ایسی ہی کیفیت بیان کرتے ہوئے کسی نے خوب کہا ہے ؎
کچھ اِس ادا سے یار نے پوچھا مِرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا!