پاکستان کی محافظ قوتیں متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ حکام سے ان660 پاکستانیوں کے متعلق تفصیلات حاصل کرنے میں مصروف ہیں جنہوں نے پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستان سے اربوں ڈالر خلیج کی ان ریاستوں میں غیر قانونی طریقے سے منتقل کئے۔ ماڈل گرل ایان علی تو صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے جو اپنے ساتھ پانچ لاکھ ڈالر لے کر دوبئی جا رہی تھی کہ بے نظیر بھٹو ایئرپورٹ پر دھر لی گئی اور اب تک کے جو تفتیشی حقائق سامنے آ رہے ہیںان کے مطابق چند ماہ میں لڑکیوں کے ذریعے ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ پاکستان سے دوبئی پہنچائے جا چکے ہیں۔ ایف ایم یو نے کئی ماہ بیشتر نیب کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ ان کی معلومات کے مطابق سینکڑوں پاکستانیوں نے کھربوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے بعض عرب ممالک میں منتقل کر دیئے ہیں اور اس سلسلے میں وہ امارات اور سعودیہ کی ٹیکس اتھارٹیوں سے رابطہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب تک کی معلومات کے مطابق کراچی سے265، لاہور سے182، راولپنڈی اور اسلام آباد سے106پشاورسے15 اور92 افراد کا تعلق پاکستان کے دوسرے مختلف شہروں سے بتایا گیا ہے ۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے دو ماہ قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ تین چار ماہ میں چار ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان سے دوبئی پہنچادیا گیا ہے ۔ کیا یہ بلیک منی پاکستان سے صرف دوبئی اور سعودیہ بھجوانے تک ہی محدود ہے ؟ اس کا جواب نفی میں ہو گا کیونکہ
اوور سیز پاکستانی گلہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ہمیں تو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے کہا جاتا ہے جبکہ یورپ، برطانیہ، سپین اور امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں پاکستان سے نا جائز طور پر کمایا گیا پیسہ اکٹھا کیا جا رہا ہے اور بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ دھڑلے سے دنیا کے ہر مشہور اور با اثر کونے میں مختلف ناموں سے خریداریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ عمران خان ایک ماہ قبل جب دوبئی میں خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کیلئے پہنچے تو اس کانفرنس میں ان سے یہی سوال کیا گیا کہ آپ کے ملک کا سارا سرمایہ تو دوبئی اور یورپ پہنچ رہا ہے اور آپ ہمیں خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے آ گئے ہیں۔
آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ آئس لینڈ کے ایک سب سے بڑے گروسری چین '' ہیگ کاپ ‘‘ کے49 فیصد حصص پاکستان کی ایک اہم سیا سی شخصیت کے بہت ہی جانے پہچانے فرنٹ مین نے کوئی سات سال قبل اکتوبر 2014ء میں 90 ملین ڈالر میں خرید لیے تھے اور آئس لینڈ کی یہ چین خریدنے کے بعد ان صاحب نے سب سے پہلا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا '' پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام ملازمین کو پندرہ دنوں کا نوٹس دینے کے بعد یکم اکتوبر 2014ء سے ان کی ملازمتوں سے فارغ کر دیا جائے‘‘۔وہ 35 پاکستانی جن کی ملازمتیں ختم کر دی گئی ہیں ابھی تک پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ ان کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے کئی ایشیائی‘ جن میں بھارتی شہری بھی ہیں‘ ان کی ملازمتوں کو تو قائم رکھا گیا اور سارا نزلہ غریب پاکستانیوں پر گرا دیا گیا ۔
90 ملین ڈالر کی اس قدر بھاری رقم کی ادائیگی پاکستان کی اس شخصیت نے کیسے کی؟ یہ پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟ یہ معاملہ وہاں کے رہنے والے پاکستانیوں کیلئے سوالیہ نشان بن چکا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے ملک کے ہسپتالوں کی حالت زار یہ ہے کہ صرف ایک سال میں تھر، سرگودھا اور بہاولنگر میں478 نوزائیدہ بچے اب تک کسی بھی قسم کی میڈیکل سہولت اور آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ کیسی گڈ گورننس ہے؟ لاہور کے علاقہ کوٹ خواجہ سعید میں چھ بچے صرف اس لئے جلتی آگ میں شہید ہو گئے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑی خریدنے کیلئے پنجاب حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے۔ تھر کا حال سب کے سامنے ہے جہاں مرنے والے بچوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ پینے کا صاف پانی اس ملک کے پندرہ کروڑ سے زائد افراد کے نصیب میں نہیں۔ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ نہ استاد ہیں اور نہ ہی سکول۔ کبھی بجلی غائب تو کبھی گیس اور ان کی قیمتیں اس طرح بڑھائی جا رہی ہیں جیسے ملک بھر میں ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں۔ جس مزدور کی کل تنخواہ دس ہزار روپے ہے‘ اسے دس ہزار روپے ہی بجلی کا بل بھیجا جا رہا ہے۔ ایک جا نب پاکستان کے خزانوں سے لوٹے ہوئے 90 ملین ڈالر کی آئس لینڈ میں نئی انویسٹمنٹ ہے اور دوسری جانب غربت کے ہاتھوں فاقہ کشی سے بچنے کے لیے والدین اپنے ہی بچوں کے گلے کاٹ کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اسلام آباد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پنڈ دادن خان میں جانور اور انسان ایک ساتھ پانی پی کر زندگیاںگذار نے پر مجبور ہیں۔ اگر کسی نے مشاہدہ کرنا ہو تو خود جا کر ملاحظہ کر سکتا ہے کہ پاکستان کے دل لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال میں دل کا دورہ پڑنے پر آنے والے مریضوں کے علاج اور سہولتوں کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ایک بیڈ پر دو دو مریض لیٹے ہوتے ہیں‘ اور اسی پر بس نہیں حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ وہیل چیئر کو اب اسٹریچر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مریضوں کو اسی پر ڈرپ لگا دی جاتی ہے اور لواحقین باری باری اس ڈرپ کے اسٹینڈ کو تھامے ہوئے ہسپتالوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔اگر کبھی کسی کو اتفاق ہو تو کسی سرکاری ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈوں کا ایک سر سری سا چکر ہی لگا آئے تو ان وارڈوں کی ابتر حالت زار سے اسے قے آنا شروع ہو جائے گی حالانکہ ایمر جنسی وارڈ وہ ہوتا ہے‘ جہاں کسی بھی مریض کو فوری طبی امداد کیلئے سب سے پہلے لے کر آیا جاتا ہے۔
اگر کسی کو90 ملین ڈالر کی حقیقت کا علم نہیں تو وہ صرف یہ بات سامنے رکھ لے کہ پاکستان میں اگر کسی کے پاس اس وقت ایک ڈالر ہو تو اسے اس کے بدلے میں بازار سے پاکستانی کرنسی کے 102 روپے ملیں گے۔جس ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں خورشید شاہ اور اچکزئی فرماتے ہیں کہ اس کے آئین کے ایک ایک صفحے کی حفاظت کیلئے ہم اپنی جانیں دے دیں گے‘ اس کو جلانے یا مٹانے کی کسی نے کوشش کی تو اس کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے۔ کاش کہ وہ اس آئین میں عوام کو دیئے جانے والے حقوق کا کچھ حصہ اپنے آبائی شہر سکھر سے ذرا پرے تھر کے صحرا میں ہی دکھا دیں۔ غریب کو روٹی دو ،غریب کو مکان دو، غریب کو کپڑا دو ، غریب کو انصاف دو اسے پانی اور بجلی دو کیونکہ ان سب کے بغیر سارے وعدے اور بیانات بے معنی ہیں۔ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جو تھر، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے غریبوں کو ان کے بنیادی حقوق، پانی، انصاف اور خوراک سے ہی محروم کر دے!!