تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     31-05-2015

معرکہ کرگل… 2

کرگل آپریشن پر میاں نوازشریف کا اپنا مؤقف معروف صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب ''غدار کون۔ نوازشریف کی کہانی۔ ان کی اپنی زبانی‘‘ میں بیان ہوا ''مجھے تو بحیثیت وزیراعظم کرگل کے مسئلہ پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور جب چار ماہ بعد تھوڑا بہت بتایا گیا تو یہ کہا گیا کہ اس حملہ سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا‘ کوئی جانی نقصان نہیں ہوگا‘‘۔ 
''مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ فوج خود حملے میں شریک نہیں ہوگی‘ صرف مجاہدین کا حملہ کافی ہوگا‘ لیکن جب کرگل کا معاملہ شروع ہوا تو پوری کی پوری ناردرن انفنٹری اُڑ گئی۔ 2700 جوان شہید ہوئے۔ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ شہدا کی یہ تعداد 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے شہدا سے زیادہ تھی۔ اس قدر نقصانات ہوئے تو میں نے جنرل پرویز مشرف سے پوچھا‘ آپ کہتے تھے کہ فوج کا نقصان نہیں ہوگا تو کہنے لگے انڈین فوج کارپٹ بمبنگ کر رہی ہے۔ میں نے کہا آپ کو علم نہیں تھا کہ اس طرح بمباری ہوگی؟ کہنے لگے‘ صاحب ہمیں یہ علم نہیں تھا‘‘۔ 
''پاکستان کی مسلح افواج کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ وزیراعظم یا وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بغیر کوئی مہم جوئی کرے یا کسی مہم کے لیے تیاری کرے۔ انہیں پہلے وزیراعظم یا وفاقی حکومت سے کلیئرنس لینا پڑتی ہے۔ آرمی یہ تاثر قائم کر رہی تھی کہ ہم تو پتہ نہیں کیا فتح کرنے والے تھے‘ وزیراعظم نے ہمیں کچھ نہیں کرنے دیا۔ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ جنرل پرویز مشرف میرے پاس بھاگے آئے کہ ہمیں بچائیں... مجھے پاکستان سے محبت ہے‘ اپنی مسلح افواج سے محبت ہے اور میں نے اس محبت کی خاطر سارا کچھ اپنے کندھوں پر لے لیا اور اپنی فوج کو اس سے بچا لیا‘‘۔ 
''میں نے سب کچھ اپنے دل سے نکال دیا لیکن اس وقت سے ان کے دل میں یعنی مشرف اینڈ کمپنی کے دل میں چور تھا‘ وہ سمجھتے تھے کہ اس نے ہمیں بڑی شرمندگی سے بچایا ہے پھر انہوں نے فوج کے اندر عجیب پیغام دینا شروع کردیا کہ ہم تو کشمیر لینے گئے تھے اور شاید نوازشریف نے ان کو روک دیا حالانکہ سارا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ میں نے کھلے دل کے ساتھ ان سے معاملات شروع کیے لیکن انہوں نے دل میں بغض رکھا اور اس بغض کو پھیلایا اور اتنا بڑھایا کہ معاملہ مجھے اقتدار سے باہر نکالنے تک پہنچا‘‘۔ 
جنرل شاہد عزیز کرگل آپریشن کے حوالے سے میاں صاحب کی سوچ سے متفق ہیں‘ لکھتے ہیں ''کچھ عرصہ بعد جب فوجی حکومت آ چکی تھی‘ کسی کور کمانڈر نے کرگل کا حوالہ دیتے ہوئے اسے قطعی ناکامی (Debacle) کہا۔ جنرل پرویز مشرف پھٹ پڑے۔ غصے میں کہنے لگے ڈبیکل‘ کیسا ڈبیکل؟ تمہیں پتہ ہے کشمیر کاز کو کتنا فائدہ پہنچا ہے؟ کرگل کی وجہ سے دنیا کی توجہ اس پر مرکوز ہوئی ہے‘ اب دنیا کو پتا ہے کہ کشمیر کے لیے ہم کہاں تک جا سکتے ہیں‘ یہ ہماری فتح ہے‘‘۔ 
''سب جانتے ہیں کہ صرف کشمیر کاز ہی نہیں ہماری کن کن چیزوں کو کرگل کے شوشے سے دھچکا لگا۔ پورا ملک ہل کر رہ گیا‘ ہزاروں فوجیوں کا بے سود خون بہایا گیا‘ کشمیر وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ پھر مشرف اسے بیچنے ہندوستان بھی چلے گئے۔ آج ہم اس کی بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ کرگل کی تصویر مجھ پر کھلی۔ جنگ میں شامل اور اس سے منسلک رہنے والے حلقوں کی زبان سے بہت سی حقیقتیں بھی منظرعام پر آئیں‘ اوپر سے نیچے تک کے افسران نے ایک ہی تصویر پیش کی‘‘۔ 
''جب لڑائی شروع ہوئی تو ہندوستان کے ہوائی جہازوں سے لے کر توپ خانے کی ایک بڑی تعداد تک‘ وہاں جمع ہو گئی۔ ہم نے پاکستان ایئرفورس کو لڑائی سے باہر رکھا کیونکہ ہندوستان کا ردعمل دیکھ کر ہم گھبرا گئے اور بات بڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ لگاتار حملے شروع ہو گئے‘ ایک کے پیچھے ایک لہر آتی۔ لوگ پتھروں کے پیچھے ہی چھپتے رہے... ہماری سپاہ کے تمام راستے کٹ گئے‘ لوگ پوسٹوں پر کئی دن بھوکے رہے‘ زخمیوں کے خون رستے رہے مگر یہ باہمت جوان‘ پاک فوج کے سپاہی اور ان کے شیر دل کمانڈر ہمارے میجر اور کیپٹن آخری سانس تک لڑتے رہے۔ ہم نے بلامقصد انہیں جنگ میں جھونک دیا۔ پھر کہا‘ اب واپس آ جائو غلطی ہو گئی۔ یہ ہمارے منہ سے نکلے ہر حکم پر جان دیتے ہیں۔ کسی نے نہ سوچا کہ اس مخلص جوان کے خون کی کیا قیمت ہے؟ اس نایاب لہو کو مٹی میں ملا کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہوں‘ کسی نے انہیں اپنا بیٹا نہ سمجھا‘‘۔ 
جنرل شاہد عزیز نے کرگل کے حوالے سے مختلف میٹنگوں کی روداد بھی بیان کی ہے۔ جنرل ضیاء الدین نے انہیں 3یا 4مئی کو کرگل آپریشن کی کامیابی کی نوید سنائی تھی۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید کے ساتھ ایک ملاقات سے نواز حکومت کی حکمت عملی کا اندازہ ہوتا ہے۔
لکھتے ہیں ''جب مشاہد حسین سے پوچھا کہ ہندوستان کا میڈیا تو اس بات کو اس قدر بڑھا کر لکھ رہا ہے اورپوری قوم کو جنگ کے لیے تیار کررہا ہے‘ ہم اس پر اتنے خاموش کیوں ہیں؟ میں نے ان سے کہا کہ اسلام آباد میں سفارتی حلقوں کا تجزیہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اس لڑائی میں کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔ اس پر مشاہد صاحب نے بتایا کہ میاں صاحب کے احکامات ہیں کہ اس بات کو زیادہ نہ اچھالا جائے۔ اس وجہ سے میڈیا کو Low Keyمیں رکھا جا رہا ہے‘‘۔ 
بزرگ صحافی اور شریف خاندان کے سرپرست مجید نظامی صاحب مرحوم کرگل کے حوالے سے ایک واقعہ اکثر بیان کیا کرتے تھے ''کرگل سے پسپائی کے بعد جب وزیر اعظم نواز شریف اورآرمی چیف پرویز مشرف میں محاذ آرائی عروج پر پہنچی تو میں (نظامی صاحب) آرمی چیف سے ملا اور گلہ کیا کہ انہوں نے کرگل آپریشن پر وزیر اعظم کو اندھیرے میں رکھا اور پاکستان کے لیے رسوائی کا سامان کیا۔ آرمی چیف نے اپنی ڈائری منگوا کر ان تاریخوں سے مجھے آگاہ کیا جن میں وزیر اعظم سے تبادلۂ خیال کی نشستیں ہوئیں اور ایک نشست کے اختتام پر وزیر اعظم نے کشمیر کی فتح کے لیے دعا کرائی۔ میں (نظامی صاحب) نے کہا ''وزیر اعظم اس سے انکار کرتے ہیں‘‘ پرویز مشرف بولے ''اگر وزیر اعظم یہ بات میرے منہ پر کہہ دیں تو پھر مجھے اپنے منصب پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔ میں نے کہا ''اگر وزیر اعظم آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ دیں تو‘‘؟ ''میں استعفیٰ دینے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کروں گا‘‘۔ آرمی چیف نے جواب دیا‘‘۔ مجید نظامی صاحب نے میاں صاحب کو ایک مشترکہ میٹنگ کی پیشکش کی جس میں دونوں فریق اپنا مؤقف ایک دوسرے کے سامنے بیان کریں اور سچ جھوٹ کے نتارے کے بعد حکومت اور فوجی قیادت ایک ساتھ مل کر ملکی معاملات یکسوئی سے چلائے۔ مگر بقول نظامی صاحب‘ میاں صاحب نے اُن کی بات سن کر پہلے اِدھر اُدھر دیکھا پھر چھت کو گھورا اور کہا ''چھوڑیں نظامی صاحب‘ یہ شخص جھوٹا ہے‘‘۔ 
اگر میاں صاحب واشنگٹن سے واپسی اور امریکہ کے علاوہ سعودی عرب سے (بقول بروس ریڈل) اپنی جان اور حکومت کے تحفظ کی ضمانت حاصل کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بغیر جنگ شروع کرنے‘ پاکستان کی رسوائی اور ایٹمی جنگ کی راہ ہموار کرنے کے الزام میں جبری ریٹائر کردیتے یا کرگل پر اعلیٰ سطحی کمشن کا قیام عمل میں لاتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی اور کوئی جھوٹ‘ سچ میں ملاوٹ کی جرأت نہ کرتا۔ جنرل پرویز مشرف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنی بہادری و کامرانی اور میاں نوازشریف کی بزدلی اور ناکامی کا ڈھنڈورا نہ پیٹ رہے ہوتے مگر میاں صاحب مصلحتوں کا شکار ہو گئے اور جنرل پرویز مشرف کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کا منصب دے کر انہیں ہر معاملے سے بری الذمہ قرار دے دیا۔ 
آرمی چیف کو منصب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا بھی تو اس وقت جب فوج میں یہ تاثر پختہ ہو چکا تھا کہ نوازشریف نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی۔ فوج کو وہ پولیٹیسائز کرنا چاہتے ہیں اور ایک سال میں دوسرے آرمی چیف کو نکال کر دراصل فوج کو دوسرے سرکاری محکموں کی طرح وفادار اور تابعدار ادارہ بنانے کے در پے ہیں تاکہ حکومت جو بھی فیصلہ کرے فوج اس کا ساتھ دے۔ لوٹ مار پر چپ رہے۔ ایک چیف کو نکال چکے‘ دوسرے کو نکال کر پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس طرح تو یہ فوج کو تباہ کردیں گے وغیرہ وغیرہ۔ بھٹو صاحب کی طرح میاں صاحب کو ہر شاخ پہ اپنے اُلّو بٹھانے کا شوق ہے لہٰذا پروپیگنڈا کارگر رہا۔ پرویز مشرف کو برطرف کرنے کا طریقہ کار بھی اس قدر بھونڈا تھا کہ جناب مجید نظامی کو کہنا پڑا ''بھلا آرمی چیف اس طرح ریٹائر ہوتے ہیں‘‘ جنرل راحیل شریف کو اعتماد میں لے کر کرگل کمشن اب بھی بن سکتا ہے مگر پھر احتساب کا ہتھوڑا دیگر شعبوں میں بھی چلانا پڑے گا۔ قوم‘ ملک اور اس کے مفادات‘ وسائل اور اثاثوں کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہر شخص کو قانون کے شکنجے میں کسنے کا حوصلہ ہے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved