کاشغر سے گوادر تک جو تجارتی راہداری تعمیر کی جا رہی ہے، جسے وزیراعظم نواز شریف اس خطے کے لئے گیم چینجر قرار دیتے ہیں اور چین سے آنے والا ہر شخص چینی قیادت کی اس میں دلچسپی کا ذکر کیے بغیر نہیں رہتا، اس کے روٹ پر پاکستان میںبحث کا بازار گرم تھا۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بضد تھے کہ اس بارے میں جھگڑا جان بوجھ کر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ راہ داری کسی ایک سڑک کا نام نہیں، بلکہ کئی سڑکوں کی تعمیر مقصود ہے، ہر ایک کی منزل کاشغر ہو گی یا گوادر۔ لیکن برادر عزیز سلیم صافی اس پر مطمئن نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ راستہ بدلا جا رہا ہے، اس سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں محرومی کا احساس پیدا ہو گا۔ کئی سیاسی رہنما بھی ان کی آواز میں آواز ملا رہے تھے، یہاں تک کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کہا جانے لگا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ اس منصوبے کو سبوتاژ کرانے اور اس پر اختلاف رائے کو ہَوا دینے میں لگی ہوئی ہے، عبدالقادر بلوچ نے تو اس کی طرف سے 500 ملین ڈالر مختص کرنے کا ''راز‘‘ بھی فاش کر ڈالا۔ فریقین اپنی اپنی جگہ ڈٹے رہے، یہاں تک کہ وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی، پہلے اجلاس کا انعقاد ہوا تو کراچی میں سانحہ ٔ صفورا چورنگی پیش آ چکا تھا، جس میں اسماعیلی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایک بس میں سفر کے دوران چُن چُن کر قتل کر دیا گیا۔ یہ واردات اس قدر روح فرسا تھی کہ وزیراعظم کو اپنی مصروفیات سمیٹ کر کراچی روانہ ہونا پڑا۔ اُن سے پہلے آرمی چیف بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ اے پی سی میں احسن اقبال کی تقریر دلپذیر تو ہوئی لیکن معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کا دوسرا اجلاس جمعرات28مئی کو طلب کیا گیا۔ 17سال پہلے اِسی تاریخ کو پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کر کے اقوام عالم میں ایک نیا مقام حاصل کر لیا تھا۔اِسی دن ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں پاک چین تجارتی راہداری کے مغربی روٹ پر اتفاق کر کے،اسے سب سے پہلے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تمام سیاسی رہنما خوش و خرم برآمد ہوئے اور ٹیلی ویژن کیمرے ان کی کھلی ہوئی باچھیں محفوظ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ برادر عزیز سلیم صافی کا دعویٰ ہے کہ جیت ان کی ہوئی ہے، ان کی بات مان لی گئی ہے۔ اس پر انہیں بغلیں بجانے کا حق حاصل ہے، بلکہ ہمارے جیسے ان کے مداح بھی ان کی بغلوں میں اپنی بغلیں شامل کر سکتے ہیں۔ بحریہ ٹائون کے ملک ریاض حسین کے ساتھ عظیم الشان ''مکالمے‘‘ کے بعد یہ دوسری کامیابی ہے، جو ایک ہفتے کے دوران ان کے حصے میں آئی ہے۔ برادرم احسن اقبال سے ہماری گزارش ہو گی کہ وہ کسی وضاحت میں نہ الجھیں، اور سلیم صافی صاحب کی خوشی کو اپنی خوشی بنا لیں کہ مقصد تو آم کھانا ہے، پیڑ گننا نہیں۔
بہرحال ... اس اتفاق رائے سے ہر ایک کو سکون ملا۔ اب چین کے ساتھ طے شدہ معاملات پر عمل کی رفتار کو تیز کرنا چاہئے۔کئی مبصرین کہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں بھی چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود بات ڈیڑھ ارب ڈالر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ پاکستان میںہم46ارب ڈالر کی جس سرمایہ کاری کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، اگر کمرِ ہمت نہ کسی گئی تو اس میں سے بھی کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ ایک ٹیلی ویژن کی معصوم سی اینکر نے حکومت ِ پاکستان کے ایک معاشی ترجمان سے سوال کیا کہ چین جو پیسہ پاکستان میں لگائے گا، اس سے اُس کو تو منافع ملے گا، لیکن ہم پاکستانیوں کے ہاتھ کیا آئے گا؟ ترنت جواب آیا کہ بجلی...لیکن اینکر صاحبہ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اُن کی تشفی نہیں ہوئی، گویا وہ بجلی کے ذریعے اطمینان حاصل کرنے پر تیار نہیں تھیں۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے کسی افلاطونی دماغ کی ضرورت نہیں کہ کسی مُلک میں جب بھی کوئی (ملکی یا غیر ملکی) سرمایہ کاری ہو گی، تو اس کا بڑا مقصد نفع کمانا ہی ہو گا۔ آج تک دُنیا میں کسی شخص یا ادارے نے محض ثواب کمانے کے لئے کوئی کارخانہ نہیں لگایا۔ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، ان میں غیر ملکی تو کیا کوئی ملکی کمپنی بھی سرمایہ کاری سے پہلے سو بار سوچے گی۔ اگر چین پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے ایک بڑی رقم مختص کرتا ہے، اپنی کمپنیوں کو یہاں کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے یا حکومت کے ساتھ مل کر کسی بڑے منصوبے کی بنیاد رکھتا ہے، تو اسے مروَت اور محبت کا خصوصی مظاہرہ ہی سمجھا جائے گا۔ چینی سرمایہ کاری سے نکتے برآمد کرنے والے اگر کسی دوسرے مُلک سے کوئی سرمایہ نسبتاً آسان شرائط پر منگوا سکتے ہیں، تو چشم ما روشن دِل ما شاد۔ ان کو آگے بڑھ کر یہ اقدام کر گزرنا چاہئے، ان کا راستہ کسی نے روکا نہیں۔ جب دُنیا میں کوئی چند قدم بھی ہماری طرف بڑھنے کو تیار نہ ہو تو بڑی چھلانگ لگانے والوں کے لئے تو بانہیں کشادہ کرنا پڑیں گی، اور اظہارِ تشکر بھی واجب ہو گا۔
اس وقت پاکستان کو بجلی کا شدید بحران درپیش ہے، اسے پیدا کرنے کی ہر کوشش پاکستانی معیشت کے لئے نئی زندگی کا سامان ہو گی کہ بجلی ہو گی تو نئے کارخانے لگیں گے،صنعتی ترقی کا پہیہ تیز ہو گا۔ اسی کے ذریعے بیروز گاری ختم ہو گی، قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا، اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ تجارتی راہداری بذات خود کوئی مقصد نہیں، یہ ایک ذریعہ ہے۔ اگر دوسرے لوازمات موجود نہیں ہوں گے، تو ویرانی مُنہ چڑاتی رہے گی۔ چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے جو رقم مختص کی اور اپنے ایگزم بینک کو جو ہدایات جاری کی ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا اہل ِ پاکستان کے لئے ایک چیلنج ہے۔ اگر تیز رفتاری سے فیصلے نہیں کئے جائیں گے اور چینی کمپنیوں کو مطلوب مقامی معاونت حاصل نہ ہو گی تو پھر خواب محض خواب ہی رہ جائیں گے۔ پاکستانی بیورو کریسی معاملات کو آگے بڑھانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی رہی ہے، اسے لگام اور مہمیز دونوں کی ضرورت ہے کہ کوئی کارخانہ خودبخود لگ اور چل سکتا ہے نہ کوئی پودا اپنے آپ تناور درخت بن سکتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار (خواہ وہ چینی ہی کیوں نہ ہوں) اگر بددل ہو گئے تو پھر چڑیاں کھیت چُگ جائیں گی۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)