تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-05-2015

تیرے امیر مال مست‘ تیرے فقیر حال مست

تاریخ کا سبق واضح ہے مگر آصف علی زرداری‘ میاں محمد نوازشریف اور عمران خان کو تاریخ سے کیا؟ اقبال نے کہا تھا ع 
تیرے امیر مال مست‘ تیرے فقیر حال مست 
بلوچستان میں ہر اس شخص سے رابطہ کرنے کی کوشش کی‘ جو رہنمائی کر سکتا۔ ہر کوشش ناکام رہی۔ تنی ہوئی رسی پر چلتے ہوئے‘ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک دل شکستہ آدمی ہیں۔ منتظم وہ اچھے ہیں۔ ذاتی شہرت بھی اچھی مگر قیادت کی نوعیت اجتماعی ہے۔ جنوبی کمان کے سربراہ جنرل ناصر جنجوعہ‘ آئی جی ایف سی جنرل شیرافگن‘ انسپکٹر جنرل پولیس عملش خان اور صوبے کے چیف سیکرٹری۔ ٹیم اچھی ہے کہ انتخاب احتیاط کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ 
جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مذمت میں زبانیں دراز ہیں‘ وگرنہ وہی تھے جنہوں نے پاک فوج میں بلوچستان کی نمائندگی بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اب تک غالباً بیس ہزار جوان بری فوج کا حصہ بن چکے۔ صدیوں سے چلی آتی‘ بعض پابندیاں نرم کردی گئیں۔ 
سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے کہا تھا: تمام دانائی کا نصف یہ ہے کہ لوگوں میں گھل مل کر رہا جائے۔ سیاست کی دنیا میں اس سے بڑا سنہری اصول کوئی اور نہیں۔ مگر مزاج کو سانچے میں ڈھالنا سہل نہیں۔ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ تمام تر خیرہ کن فضائل کے باوجود سرکارؐ نے ایک عام آدمی کی زندگی گزاری۔ اسی طرح کے مکان میں رہے‘ وہی پہنا‘ وہی کھایا۔ گلیوں میں پیدل چلتے۔ ہفتے میں ایک بار تین کلو میٹر دور‘ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے ہاں تشریف لے جاتے اور اکثر پیدل چل کر۔ حکمران خلق خدا سے جب الگ ہو جاتے ہیں‘ اپنے عافیت کدے جب وہ آباد کرتے ہیں تو رفتہ رفتہ آسودہ رہنے کی آرزو ان پر غالب آتی اور شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ جن وجوہ سے مغرب کو آج برتری حاصل ہے‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض اعتبار سے ان کے حکمران عامیوں کی مانند ہیں۔ ان کے لیے محلات تعمیر نہیں کیے جاتے۔ احتساب ان کا ہمیشہ ہو سکتا ہے۔ قوموں کے مزاج صدیوں میں بنتے اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ ملوکیت کی ان گنت صدیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ بظاہر ایک جمہوری نظام تشکیل دینے کے باوجود‘ تمیز بندۂ و آقا وہی ہے۔ قانون کی نہیں‘ یہ افراد کی حکمرانی ہے۔ Oligarchy۔ اجارہ داری‘ ایک ٹولے کی حکومت۔ 
ڈاکٹر مالک ذرا مختلف ہیں۔ نچلے درمیانے طبقے سے ابھرنے والے۔ محمود خان اچکزئی کے اصرار پر میاں محمد نوازشریف نے انہیں وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا تو بہت اچھا کیا وگرنہ حالات اور بھی بدتر ہوتے۔ اتفاق سے جنرل بھی ایک ایسا شخص ہے‘ جس میں ''جرنیلی‘‘ نہیں پائی جاتی۔ حکم چلانے کی بجائے‘ جو دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس کی شہرت بھی اچھی ہے۔ یہ فہرست مگر یہیں تمام ہوتی ہے۔ 
پے در پے حادثات کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ کئی عشروں کی کمائی ہے۔ ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں‘ دانتوں سے کھولنا ہوں گی۔ بلوچستان کی حد تک وفاقی حکومت کا کردار مثبت ہے اور عسکری قیادت کا بھی۔ بے روزگار نوجوانوں کے لیے فوج نے درجنوں ادارے قائم کیے مگر یہ ناکافی ہیں۔ شہر کے قلب میں بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سر اٹھائے کھڑا ہے۔ اس کی عمارت ایسی جمیل اور ماحول اس قدر شگفتہ ہے کہ دل شاد ہو جاتا ہے۔ صوبے کے لیے یہ بھی جنرل کیانی کا تحفہ ہے۔ فوجی بیرکیں تھیں۔ میڈیکل کالج بنانے کا فیصلہ کیا تو چند ماہ 
میں اس کی شکل و صورت ہی بدل ڈالی۔ جنرل کیانی ڈرائنگ میں درک رکھتے ہیں۔ اپنا گھر بنایا تو صوفے اور الماریاں تک خود ڈیزائن کیں۔ قصور ان کا یہ ہے کہ شریف آدمی ہیں اور شریف آدمی اگر جنرل بھی ہو تو بدزبانی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ 
صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی استعدادِ کار بہت معمولی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس قدر صدمات سہنے کے باوجود اچھی حکمرانی کی آرزو بھی کم ہے۔ بحران ہمیشہ سے تھا کہ بلوچستان کو خود پر کم ہی حکومت کرنے دی گئی مگر 2006ء میں سردار بگتی کے قتل سے صورت حال اور بھی سنگین ہو گئی۔ صوبے کی فضا ہی بدل گئی۔ علیحدگی پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہوئے اور بھارت ایسے دشمنوں کے لیے ماحول سازگار ہو گیا‘ جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا... جانے بھی کیوں دے؟ دشمن کیا معاف کیا کرتا ہے۔ اپنے گھر کی حفاظت خود ہی کرنا پڑتی ہے۔ 
2008ء کی منتخب حکومت قائم ہونے کے بعد بلوچستان کے لیے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرنا چاہیے تھا‘ جس پر وہ لوگ بھی اعتماد کر سکتے‘ جن سے مذاکرات مطلوب تھے۔ صدر آصف علی زرداری نے مگر معافی مانگنے پر اکتفا کیا۔ اگر کسی کو زخمی کردیا جائے تو معافی مانگنے سے کیا اس کے زخم مندمل ہو سکتے ہیں؟ سب سے اہم یہ کہ صوبے میں سول سروس‘ پولیس اور سیاست دانوں کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج میں بلوچستان کا تناسب بڑھانے کا جو فیصلہ کیا‘ اس طرح کے اور بہت سے فیصلے کرنے کی ضرورت تھی۔ بجٹ میں صوبے کا حصہ صرف 6 فیصد تھا۔ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم وزیراعلیٰ پنجاب کے صوابدیدی فنڈ سے بھی کم۔ برسوں کی چیخ و پکار کے بعد اس میں اضافہ کردیا گیا مگر کیا یہ روپیہ عام آدمی پہ خرچ ہوتا ہے؟ جی نہیں‘ ایک چیز میں بلوچستانی اشرافیہ کی استعداد غیر معمولی ہے۔ مل بانٹ کر وہ تمام سرمایہ ہضم کرلیتے ہیں۔ اگرچہ صورت حال اب بہتر ہے مگر ایسی بھی بہتر نہیں۔ 2001ء میں صوبے کے 95 فیصد حصے کو ''اے‘‘ ایریا قرار دے کر‘ لیویز کی تربیت کا جو عمل شروع ہوا تھا‘ 2002ء کی صوبائی اسمبلی نے اسے منسوخ کردیا۔ جمعیت علماء اسلام اس وقت سب سے بڑی پارٹی تھی۔ قبائلی سرداروں پر انحصار کرنے والا لیویز کا صدیوں پرانا نظام فرسودہ ہو چکا۔ طے یہ ہوا تھا کہ ملازمتیں برقرار رکھی جائیں گی۔ تربیت اور تعلیم کے ساتھ بتدریج استعدادِ کار میں اضافہ کیا جائے گا۔ دس ارب روپے منصوبے پہ صرف ہو چکے تھے‘ جب اس کی بساط لپیٹ دی گئی۔ بلوچستان کے قبائلی سرداروں‘ علماء کرام اور سب سے بڑھ کر ملک کے فوجی حکمران کو یہی سازگار تھا۔ 
1990ء کے عشرے میں دیوار برلن گری تو ہیلمٹ کول نام کا ایک شخص مغربی جرمنی کا حکمران تھا۔ ظاہر ہے کہ گورا رنگ مگر ڈیل ڈول میں وہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم چودھری عبدالمجید سے مشابہت رکھتا تھا‘ پہاڑ چٹان سا آدمی۔ مزاحاً اسے گھوڑا کہا جاتا تھا اور کبھی تو گدھا بھی۔ مشرقی جرمنی کے جرمنوں نے سفاک سوشلزم سے نجات پائی تو ان کا حال بہت برا تھا۔ منڈی کی معیشت خوں آشام ہے‘ مگر سوشلزم تو قوتِ کار ہی برباد کر ڈالتا ہے۔ مشرقی جرمنی کو مغرب کے برابر لانے کا ہیلمٹ کول نے منصوبہ بنایا اور چند برس میں اس کی کایا پلٹ دی۔ 
دشمن کی سازش اپنی جگہ مگر خود ہم نے بلوچستان کے لیے کیا کیا؟ 
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں 
تم نے تو خیر بے وفائی کی 
بلوچستان صدیوں کی غربت اور افلاس کا مارا ہے۔ قبائلی سردار مسلط ہیں یا قبائلی دور کے علماء کرام۔ اس کا انتظامی ڈھانچہ کمزور اور کرپٹ ہے۔ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کی بنیادی سمت اگرچہ درست ہے مگر اس کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں۔ آصف علی زرداری یا میاں محمد نوازشریف‘ حکمرانوں کو فرصت ہی نہیں کہ بلوچستان تشریف لے جائیں۔ جائیں تو اس طرح جاتے ہیں جیسے کسی ولیمے یا جنازے میں۔ 
جب یہ عرض کرتا ہوں کہ ملک کو ایک نئی اور جدید‘ جدید اور منظم سیاسی جماعت کی ضرورت ہے تو یہ شاعری نہیں‘ محض کوئی نادر خیال نہیں۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ کیا آج تک کسی پارٹی نے کوئی مکمل منصوبہ بلوچستان کے لیے پیش کیا؟ بلوچستان ہی کیا‘ دہشت گردی پر؟ کراچی کے بارے میں؟ سول سروس اور پولیس کو سدھارنے کے لیے؟ 
اللہ کی صفت رحم‘ اس کی صفت عدل پر غالب ہے مگر وہ صرف ان کی مدد کرتا ہے‘ جو خود اپنی مدد کریں۔ تاریخ کا سبق واضح ہے مگر آصف علی زرداری‘ میاں محمد نوازشریف اور عمران خان کو تاریخ سے کیا؟ اقبال نے کہا تھا ع 
تیرے امیر مال مست‘ تیرے فقیر حال مست 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved