تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     31-05-2015

انگریزی اردو اور صوبائی زبانیں

پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن فیڈرل گورنمنٹ کی فائلوں میں ہر طرف انگریزی ہی انگریزی ہے۔ 1973ء کے دستور کے آرٹیکل 251میں لکھا گیا ہے کہ پندرہ سال میں سرکاری خط و کتابت اردو میں ہونے لگے گی‘ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم نواز شریف امریکہ جائیں یا کابل‘ چین جائیں یا برطانیہ ہر جگہ انگریزی ضرور بولتے ہیں خواہ انہیں اس نیک کام کے لیے جیب سے پرچیاں ہی کیوں نہ نکالنی پڑیں۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے اس بات کا نوٹس ضرور لیا کہ آرٹیکل 251میں کئے گئے وعدے کا پاس نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے حکم دیا کہ آئندہ فریقین کو نوٹس اردو میں بھی بھجوائے جائیں اور جسٹس جواد خواجہ نے حکومت سے پوچھا کہ اس بات کا فوری جواب دیا جائے کہ دستوری وعدہ کب پورا ہو گا۔
پاکستان میں زبان کا مسئلہ تاریخی طور پر حساسیت کا حامل رہا ہے۔ قائد اعظم ؒ نے ڈھاکہ میں اعلان فرمایا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہو گی تو ردعمل شدید تھا۔ 1971ء میں زبان کے مسئلہ پر کراچی میں جھگڑے ہوئے۔ 1980ء میں جنرل ضیاء الحق نے اعلان کیا کہ دس سال بعد ہونے والا میٹرک کا امتحان صرف اردو میں ہو گا تو اشرافیہ نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور مڈل کلاس بھی اشرافیہ کے ساتھ تھی۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ قومی اور انٹرنیشنل طور پر انگلش ترقی کا زینہ ہے۔ اچھے جاب بھی اچھی انگلش کی وجہ سے ملتے ہیں اور معاشرے میں عزت بھی انگریزی بولنے والوں کی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا قومی زبان کا ہونا ضروری ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ انڈیا کے دستور میں کسی ایک قومی زبان کا ذکر نہیں اور بائیس زبانوں کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن وہاں ہندی عملاً قومی زبان بن گئی ہے اور سرکاری کام دہلی سرکار کا انگریزی اور ہندی میں ہوتا ہے جبکہ باقی اکیس زبانیں صوبوں میں نافذ العمل ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں چار سرکاری زبانیں ہیں جبکہ کینیڈا میں دو یعنی انگلش اور فرنچ۔ ہمارے ہاں پچھلے سال قومی اسمبلی میں ایک دلچسپ بل پیش ہوا۔ مسودہ تجویز کرنے والوں میں ماروی میمن اور کیپٹن صفدر شامل تھے۔ اس بل میں بشمول اردو دس قومی زبانیں تجویز کی گئی تھیں۔ظاہر ہے کہ اس بل کو حکومتی پارٹی کی آشیر باد حاصل تھی لیکن بعد میں بوجوہ معاملہ دبا دیا گیا۔
اردو کے معاملے میں حکومت پاکستان کارویہ معذرت خواہانہ رہا ہے ۔ میں چند ہفتے قبل کابل والی پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا۔ صدر اشرف غنی بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ نیو یارک کی مشہور کولمبیا یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے چلے گئے اور نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگ گیا‘ پھر ایک عرصہ ورلڈ بینک میں رہے۔ کابل میں ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنا بیان فارسی میں دیا جبکہ ہمارے وزیر اعظم نے انگریزی بولنے کو ترجیح دی۔ میں انگریزی کے قطعاً خلاف نہیں۔ انگریزی میری روزی روٹی کا ذریعہ رہی ہے اور اب بھی ہے کہ آٹھ سال سے خلیج کے ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھ رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ہر پاکستانی انگریزی دان ہو لیکن اس سے زیادہ شدید خواہش یہ بھی ہے کہ ہمارے لیڈر قومی مواقع پر اور ملک سے باہر صرف اپنی زبان میں بات کریں کہ اس سے قومی شناخت اور افتخار فروغ پاتے ہیں۔
جنرل ضیاالحق نے اردو میڈیم کا فیصلہ صادر تو کر دیا مگر انگلش میڈیم والے اسے قبول کرنے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ جنرل صاحب نے سوچا کہ بیورو کریسی کے اعلیٰ نمائندوں کی ملاقات ان خواتین سے کرائی جائے جو اردو میڈیم کے خلاف تھیں۔ چنانچہ میٹنگ بلا لی گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے خود صدارت کی۔ بچوں کی مائیں بھی اپنا ہوم ورک کر کے گئی تھیں۔ میز کی دوسری جانب بہت سینئر افسر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اردو میڈیم کے حق میں کیس تیار کر کے آئے تھے اور انہیں یقین تھا کہ خواتین کو قائل کر کے ہی اٹھیں گے ۔ جب افسران اپنے دلائل دے چکے تو جنرل صاحب نے کہا کہ امید ہے آپ قائل ہو گئی ہونگی کہ ذریعہ تعلیم صرف قومی زبان ہونی چاہیے۔ اتنے میں ایک خاتون گویاہوئیںکہ یہ تمام افسر ایک ایک کر کے یہ بتائیں کہ ان کے بچے کون سے سکولوں میں جاتے ہیں۔ ہال میں سناٹا چھا گیا۔ افسر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ سب کے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں جاتے تھے۔ خواتین بولیںکہ ہمارے بچوں کو اردو میڈیم سکولوں میں بھیجنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی انگلش کے بل بوتے پر ہمیشہ ہمیں محکوم رکھیں۔ اور جنرل ضیاء الحق کا اردو میڈیم والا آئیڈیا دھرے کا دھرا رہ گیا۔
کسی بھی زبان کی ترویج کے لیے چند عناصر بہت اہم ہیں۔ جب تک تخت لاہور کی زبان فارسی تھی پنجاب کی اشرافیہ فارسی شوق سے پڑھتی تھی ۔ انگریز کی حکومت آئی تو لوگ انگریزی پڑھنے لگے ۔ چنانچہ یہ بات مسلمہ ہے کہ لوگ حکمرانوں کی زبان سیکھتے ہیں کہ حکومت کا حصہ بن سکیں۔ انگریزی کی عمر اردو سے کچھ زیادہ نہیں۔ انگریزی کا پہلا معروف شاعر چوسر اور امیر خسرو ہم عصر تھے۔ لیکن انگلش بہت آگے نکل گئی۔ سائنسی ریسرچ اور اعلیٰ تعلیم کی زبان بنی اور پھر جہاں جہاں تک سلطنت برطانیہ پھیلی اس کی زبان بھی وہاں گئی۔ آج انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ریسرچ انگریزی میں ہو رہی ہے۔ میڈیا اور فلموں پر انگریزی کا راج ہے۔
لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ انگریزی کے غلبے کے باوجود اردو پاکستان میں زندہ ہے۔ خیبر سے لے کر کراچی تک رابطے کی زبان اردو ہی ہے ۔ میں اپنے پختون اور سندھی دوستوں سے اردو ہی میں بات کرتا ہوں اور اردو کی بقاء حکومتی سرد مہری کے باوجود حقیقت ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اردو کی ترویج میں سب سے بڑا رول کس کا ہے۔ ان کا جواب تھا لتا منگیشکر کا۔ اردو اخباروں‘ ڈراموں اورٹی وی چینلز کا اردو کی ترویج میں بڑا ہاتھ ہے۔ انگریزی بولنے والا طبقہ بھی فیض صاحب کی انقلابی نظم ''ہم دیکھیں گے‘‘ اقبال بانو کی آواز میں سن کر خوب سر ہلاتا ہے۔
لیکن بوجوہ اردو اب تک ریسرچ اور اعلیٰ تعلیم کی زبان نہیں بن سکی۔ فیڈرل حکومت نے ایک زمانے میں مقتدرہ قومی زبان بنایا تھا۔ اب اسے بھی ڈائون گریڈ کر دیا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ انگریزی ہمارے ہاں لمبے عرصے تک چلے گی۔ ایک زمانہ تھا کہ ٹاٹ والے اردو میڈیم سکولوں کے بچوں کو بھی انگریزی آتی تھی۔ میں خود ٹاٹ والے سکول کا پڑھاہوا ہوں لیکن خوش قسمتی سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلا گیا۔ جہاں انگریزی نکھارنے کے مواقع وافر تھے۔
مجھے اردو سپیکنگ کی اصطلاح کے بارے میں کافی تحفظات ہیں۔ آج اردوپورے پاکستان میں بولی جاتی ہے اور پنجاب کی اشرافیہ نے تو مادری زبان چھوڑ کر اردوکو اپنایا ہے۔ میرے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں گئے حالانکہ میں خود اردو میڈیم کا حامی رہا ہوں ۔ لیکن مغرب کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں جانے کے باوجود بچے گھر میں اکثر اردو ہی بولتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ میں خود جب تک آدھا پونا گھنٹہ پنجابی نہ بول لوں مجھے لگتا ہے کہ کسی چیز کی کمی ضرور ہے۔ پنجابی کا مزا لینے کے لیے ہی روزانہ دوستوں کو فون کرتا ہوں۔
ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت مسلمہ ہے اور آئین پاکستان صوبائی زبانوں کی ترویج کی ضمانت دیتا ہے۔ ہمیں اس کے علاوہ انٹرنیشنل زبانیں سیکھنی چاہئیں۔ میں خود عربی اور فارسی روانی سے بول سکتا ہوں‘ اس سے مجھے نئے دوست بنانے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان کا موقف انٹرنیشنل ٹی وی چینلز پر آسانی سے بیان کر سکتا ہوں لیکن حکومت سندھ کے چینی زبان کے بارے میں فیصلے سے مجھے اختلاف ہے۔ چینی زبان کی اہمیت مستقبل میں ضرور بڑھے گی لیکن ہر چھوٹے بچے پر ایک مشکل زبان کا بوجھ ڈالنا صائب فیصلہ نہیں۔
اور آخر میں وزیر اعظم میاں نوازشریف سے ملتمس ہوں کہ اردو کی ترقی کے لیے دو آسان سے قدم اٹھا لیں۔ ایک تو سی ایس ایس کے امیدواروں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں جواب لکھنے کا حق دیں۔ دوسرے تمام قومی مواقع پر اور ملک سے باہر اردو میں بات کریں۔ اس سے ہمارا سر فخر سے بلند ہو گا اور محترمہ کلثوم نواز شریف بھی خوش ہوں گی کہ اردو میں ماسٹرز کی ڈگری کے علاوہ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved