تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     31-05-2015

محرومی

منکر نکیر سے جمال نے یہ کہا: اللہ میرا رب ہے اور محمد ؐ میرے نبی۔ اس کے بعد اب کچھ نہ پوچھنا۔ تم جانتے ہو کہ میں ایک فاسق و فاجر شخص ہوں۔ خدا نے مجھے بہت نوازا تھا اور اپنا سارا مال میں عیش و عشرت پر لٹا تا رہا۔ ناجائز رشتوں پر خرچ کرتا رہا اور تم جانتے ہو کہ ہر ناجائز تعلق بالآخر تکلیف دیتا ہے۔ سو مجھے ٹھوکرپہ ٹھوکر لگی لیکن اس کے باوجود میں پلٹ نہ سکا۔ اس نے یہ کہا ''اے خدا کے پیارے فرشتو، عذاب کے لیے میں تیار ہوں، حاضر ہوں‘‘ یہ سب کہتے ہوئے اس کا دل بھر آیا لیکن اسے غم چھپانے کے ہنر میں کمال حاصل تھا۔سارے آنسو چہرے کی بجائے اس کے حلق میں گرے ۔ 
منکر نکیر نے تاسف سے سر ہلایا۔ کہا ''ایک سچا مگر بدقسمت آدم زاد‘‘ اور وہ لوٹ گئے ۔
سب سے پہلے اب ایک دیو ہیکل اژدھا آیا ۔ ٹانگوں سے سر تک ، جمال کے گرد اس نے شکنجہ کسنا شروع کیا کہ اپنا جسم بھینچ کر وہ اس کی ساری ہڈیاں چورا کر دے ۔ یا للعجب، یہاں ایک آگ نے اژدھے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے بل کھلنے لگے اور بالآخر وہ راکھ ہو گیا۔ رہا ، جمال تو اس کا بال بھی بانکا نہ ہوا۔وہ ششدرہ رہ گیا۔ 
پھر بچھوئوں کے ٹولے آئے ۔ دم اٹھائے ہوئے کہ اپنا زہر جمال کے رگ و پے میں انڈیل دیں لیکن پھر جیسے ان پر دیوانگی طاری ہو گئی ۔ وہ ایک دوسرے کو نوچنے ، کاٹنے اور بھنبھوڑنے لگے... اور سب مر گئے ۔محفوظ و مامون جمال حیرت سے سن ہو گیا۔ 
فرشتے گرز اٹھائے آئے کہ اس کا جسم لہو لہان کر دیں ۔ ان کے ہتھیار مٹی ہو گئے ۔ اتنے میں قبر کی دیواریں تنگ ہو نے لگیں ۔ جب وہ جمال کے جسم کو سکیڑنے لگیں تو ایک نادیدہ قوّت نے انہیں واپس دھکیلنا شروع کیا؛حتیٰ کہ وہ پہلے سے بھی کھلی ہو گئیں۔ یہ پورا دن اسی طرح گزرا ۔ زمین سے آسمان تک چرچاہونے لگا کہ ایک سزا یافتہ آدمی کی حفاظت ایسی غیر مرئی ہستی کر رہی ہے جو ناقابلِ یقین حد تک طاقتور ہے ۔ کسی کو اس کا علم نہیں۔سب حیران تھے کہ عذاب والوں کو روکنے کی جرأت ؟ کم از کم آج سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ مردے آئے اور جمال سے راز پوچھنے لگے ۔ اس بیچارے کو کچھ معلوم نہ تھا ۔ اس نے کہا : میں سر سے پائوں تک گناہ کی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہوں ۔ میں عذاب کا مستحق ہوں اور مجھے کچھ علم نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے جمال روتا ہی رہ گیا۔ 
چالیس برس تک یہی کچھ ہوتا رہا۔ اب تو آسمان والوں کوبھی عادت ہو گئی تھی ۔ حکمِ الٰہی کے تحت وہ عذاب دینے آتے اور ناکام لوٹ جاتے ۔ حیرت انگیز طور پر ان سے کوئی باز پرس نہ ہوا کرتی ۔ حیرت انگیز طور پر اگلے روز کے ستم گر کو روکا بھی نہ جاتا۔ بڑی عجیب صورتِ حال تھی ۔ 
یہ ایک بہت گہرا راز تھا۔ خدا کے سوا صرف ایک مقرب فرشتہ اس سے واقف تھا، جو اتفاق سے ایک روز خدا کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ آخر ایک روز وہ جمال کے پاس آیااور سرگوشی میں بات کی۔ پہلے اس نے یہ وعدہ لیا کہ جمال اس کا چرچا نہ کرے گا۔ 
اس نے کہا ''تو ماں کے پیٹ میں تھا، جب تیرا باپ مر گیا ؟‘‘ جمال نے اثبات میں سر ہلایا ۔ اس نے یہ کہا ''تو دو سال کا تھا، جب تیری ماں مر گئی؟‘‘جمال نے اثبات میں سرہلایا۔ فرشتہ سوچ میں گم ہو گیا ۔ جمال اپنی یتیمی کو یاد کرنے لگا ۔
کچھ دیر کے بعد اس نے یہ کہا: جب تو ذرا سمجھدار ہوا توخدا سے یہ شکوہ کیا کرتا کہ اپنے نبیؐ کی طرح تو نے مجھے یتیم پہ یتیم کر دیا ہے ۔ سرکارؐ کو تو تیری رفاقت حاصل تھی ، میں بد نصیب کہاں جائوں۔ اس نے یہ کہا ''میں اس روز وہیں تھاجب سوز و گداز سے لبریز تیری یہ شکایت عرشِ عظیم تک پہنچی ۔خدا نے اس پر اپنے جلال کی قسم کھائی ۔ اس نے کہا: جمال میں نے تجھے بخش دیا ، میں نے تجھے بخش دیا ،جا، میں نے تجھے بخش دیا۔ 
اس کے بعد ''فرشتے نے کہا‘‘ تو غلط راہ پہ چل نکلا ۔ تیرے گناہوں کی کہانیاں عام ہونے لگیں ۔ تو بھٹک گیا اور بھٹکا رہا۔ تو نے خطائوں کے ڈھیر لگا دیے ۔اب معاملہ یہ ہے کہ حساب کتاب کی رو سے تو مجرم ہے لیکن چونکہ اس نے اپنے محبوبؐ کے صدقے تجھ پر رحم و کرم کی قسم کھائی ہے ؛لہٰذا یہ سلسلہ اب تاقیامت چلے گا۔ اس وقت تک سزا دینے والے اپنی ناکام کوششوں میں مشغول رہیں گے ، جب تک شافعِ روزِ محشرؐ تشریف نہیں لاتے ، تب تک یہ راز ہے اور راز ہی رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ خدا بذاتِ خود اپنے ہاتھ سے تجھ پہ نازل ہونے والا عذاب روک دیتا ہے ۔ کسی کو اس کا علم نہیں ۔ 
جمال کو ایسا لگا کہ اس کا کلیجہ شق ہو گیا ہے ۔ ہچکیاں لیتے ہوئے اس باذوق نے یہ کہا ۔ 
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذرہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر
تو دو جہانوں سے بے نیاز ، میں سوالی ۔ حشر کی گھڑی میرا عذر قبول فرمانا۔ حساب اگر ناگزیر ہو تو محمدؐ کی نگاہ سے اسے اوجھل رکھنا۔
جمال نے کہا، یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا۔ اپنے نبی ؐ کو میں کیا منہ دکھائوں گا۔ اس نے یہ کہا: معاملہ بڑا نازک ہے ۔ قوی امکان ہے کہ خداتیری خامیوں پہ پردہ ڈال دے گا۔ تجھے نہیں معلوم، وہ عیبوں کو ڈھکنے والا ہے ۔ 
اس پر جمال کو قرار محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ جنت کی ٹھنڈی ہوا اس کے رخسار کو چھو رہی ہے ۔
ادھر سو ز و گداز کے عالم میں ، فرشتہ سوچ میں گم تھا: کیا تھا کہ میں انسانی شکل میں ، محمدؐ کی امت میں پیدا کیا جاتا اور آزمایا جاتا۔ جمال کو دیکھتے ہوئے ، وہ بڑی محرومی محسوس کر تا تھا۔ دوسری طرف جمال آنسوئوں میںبہہ رہا تھا۔
ادھر آسمانوں پہ خدا یہ سوچ رہا تھا: انہیں کیا معلوم کہ بخشنے کو میں کیسا بے تاب ہوں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved