''شام کنارے‘‘ کے نام سے رفیق خیال کا مجموعۂ کلام موصول ہوا ہے جو الحمد پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ یہ کتاب جستہ جستہ ہی دیکھ سکا ہوں‘ وہ بھی اس لیے کہ پہلی غزل کے مطلع ہی نے چونکا دیا جس کا پہلا مصرعہ ہے:
جب تنہا چٹکتا ہے بدن شام کنارے
اس میں لفظ تنہا کی الف اس طرح گرائی گئی ہے کہ خود پڑھنے والے کو شرم آتی ہے حالانکہ یہ کام شاعر کو کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا:
تنہا جو چٹکتا ہے بدن شام کنارے
غلطیاں تو ہم سب کرتے ہیں کہ تقاضائے بشریت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ رفیق خیال کچھ ضرورت سے زیادہ ہی بندے بشر واقع ہوئے ہیں کیونکہ اس طرح کے فنی اسقام میں یہ کتاب کافی حد تک خودکفیل ہے۔ کچھ اور مصرعے دیکھیے جن میں الفاظ کو غلط وزن میں باندھا گیا ہے:
بدن کے صحرا میں اک چیخ سنسنانے لگی (صحرا)
فصلِ خزاں کی آگ بجھاتے کیا میرے اشک (کیا)
محوِ سفر ہے پھر بھی صبح شام روشنی (صبح)
گئی نہ خوشبو ترے جسم کی مرے گھر سے (خوشبو)
کہ سامنے پھر اپنے اک دشتِ جدائی ہے (کہ)
جا بجا دلربا پھولوں کے سسکتے مجنوں (دلربا)
وہ دھوپ میں کھڑا ہے بڑے اطمینان سے (اطمینان)
کشکولِ محبت کی طلب پھر بھڑک اٹھی
(کشکول ہندی لفظ ہے مفّرس کیا گیا ہے)
اس سے پہلے کہ سراپا دھوپ میں جلنے لگے (کہ)
پر ممکن ہے یہ کس طرح مری جان قیامت سے پہلے (طرح)
ہائے‘ میرے لہو کے جگنو‘ تتلیاں محوِ تکلم تھے جن میں (ہائے)
میں خود کو دفن تو کر لوں گا مایوسی کے کسی گڑھے میں (گڑھے)
اُسے قتل کروں میں کس طرح جو اندر ہے مجذوب مرے (طرح)
بجھتی شمع کی صورت کیوں افسردہ کھڑے ہو کھڑکی میں (شمع)
حرص و ہوس کے سارے پجاری ایک جگہ ہیں آج جمع (جمع)
نہ صرف یہ غلطیاں ایک سے زیادہ بار دہرائی گئی ہیں بلکہ الف اور وائو وغیرہ کو بھی کثرت سے گرایا گیا ہے اور یہ وہ نقائص ہیں جو کسی مبتدی شاعر میں بھی نہیں ہونے چاہئیں۔
کتاب کے دیباچہ اور فلیپ نگاروں میں مندرجہ ذیل حضرات شامل ہیں جنہوں نے اس شاعری کی کھل کر تعریف کی ہے:
گوپی چند نارنگ‘ محمد علی صدیقی‘ خورشید رضوی‘ پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم‘ عباس تابش‘ فہیمی بدایونی‘ اختر سعیدی اور رانا غضنفر۔ میں ساری کتاب تو ظاہر ہے کہ نہیں پڑھ سکا‘ البتہ وہ تمام اشعار ضرور پڑھ گیا ہوں جو ان میں سے کچھ حضرات نے اپنے دیباچوں میں نقل کیے ہیں اور میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر اور اس سے ڈرتے ہوئے بھی‘ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں ایک شعر بھی ایسا نہیں جسے صحیح معنوں میں شعر کہا جا سکے کیونکہ یہ ویسی ہی موزوں گوئی اور قافیہ پیمائی ہے جو ہمارے اردگرد کثرت سے بروئے کار لائی جا رہی ہے بلکہ یہ وہ روٹین کی شاعری ہے جس کے خلاف ہم نے ساٹھ کی دہائی میں بغاوت کی تھی۔ اس لیے اب آ کر اس کی تصدیق و تائید کرنا ممکن ہی نہیں رہا‘ جس میں تازگی‘ تاثیر یا لطفِ سخن نامی کسی چیز کا شائبہ تک موجود نہیں۔
میں ایسی شاعری کو قاری بیزار شاعری بھی کہا کرتا ہوں کیونکہ یہ بنیادی طور پر قاری کو شاعری سے متنفر کرنے ہی کا کارنامہ سرانجام دیتی ہے جبکہ اس سے ہزار درجے بہتر شاعری نہ صرف پہلے ہو چکی ہے بلکہ اب بھی ہو رہی ہے‘ اس لیے اس کا جواز اور گنجائش ہے ہی نہیں۔ بے شک ایسی شاعری کو اپنی ہی قسم کے قارئین بھی دستیاب ہو جاتے ہیں جو خود بھی ایسی شاعری کو شاعری ہی سمجھتے ہیں اور ایسا شاعر اپنے آپ کو یگانہ و یکتا‘ اور جس کا اظہار اس کے تعلّی زدہ اشعار سے بھی ہوتا ہے۔
میں یہاں تک لکھ چکا تھا کہ میں نے اپنے ذہن کو جھٹکا اور ایک خیال نے سر اٹھایا کہ جن معتبرین نے اس شاعر اور شاعری کی تعریف میں داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے ہیں‘ آخر انہیں کس کھاتے میں ڈالا جائے کہ اتنے اور ایسے اہلِ فن غلط تو نہیں ہو سکتے۔ مزید یہ کہ میں کیوں غلط نہیں ہو سکتا۔ آخر جمہوریت کا زمانہ ہے اور ہر شخص برابر کا ووٹ اور رائے رکھتا ہے تو اکثریت کا فیصلہ ہی کیوں نہ مان لیا جائے کہ یہ کم و بیش سب کے سب انتہائی ذمہ دار ہستیاں ہیں اور میں اکیلا آدمی انہیں جھٹلانے کی جرأت کیسے کر سکتا ہوں؛ چنانچہ میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب ٹھیک کہتے ہیں‘ کوئی خناس میرے ہی دماغ میں ہے جو مجھے ایسی الٹی سیدھی باتیں سُجھاتا رہتا ہے‘ بلکہ ان میں کئی حضرات تو ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کبھی کبھار ٹاکرا بھی ہوتا رہتا ہے۔ آخر میں انہیں کیا منہ دکھائوں گا۔ اس لیے شاعر سے بھی معذرت اور سب حضرات سے بھی۔ چنانچہ میں اپنے سارے مذکورہ بالا الفاظ واپس لیتا ہوں۔
آج کا مطلع
بے وفائی کر کے نکلوں یا وفا کر جائوں گا
شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جائوں گا