تیرہ سال پہلے لاہور کے ایک وکیل صاحب مالی مشکل کا شکار ہوئے تو انہوں نے اپنے بزرگ پڑوسی سے کچھ پیسے دوماہ کے لیے ادھار لیے۔ دو ماہ گزرنے کے بعد قرض خواہ نے ادائیگی کی یاددہانی کرائی تو وکیل صاحب نے اپنی مصیبتوں کا رونا رو کر کچھ اور مہلت لے لی۔ مہلت ختم ہوئی تو بظاہر ان کے حالات بھی ٹھیک ہوگئے ، قرض خواہ نے چند دن مزید انتظار کیا کہ شاید وکیل صاحب خود ہی رقم اداکردیں۔ ایک دن کسی شدید ضرورت سے مجبور ہوکر نیک دل پڑوسی نے وکیل صاحب کو قرض ادا کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے تین دن انتظار کا کہا۔تیسرے دن دوپہر سے پہلے ایک عدالتی ہرکارے نے قرض خواہ کے گھر کے دروازے پر دستک دی اور ایک نوٹس اس کے ہاتھ میں تھما دیا جس میں لکھا تھا کہ اس نے اپنے گھر میں پاپڑ بیلنے کی جو مشین لگا رکھی ہے اس کے شور سے سارا محلہ تنگ آچکا ہے اور اس مشین کی خوفناک تھرتھراہٹ سے پڑوسیوں کے مکانوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، پس وہ یہ کام فوری طور پر بند کر دے اورمجسٹریٹ کی عدالت میں حاضر ہوکر اپنے سنگین جرائم کی وضاحت کرے۔ اگلے روز عدالت سے ہی اسے پتا چلا کہ جس پڑوسی کی دیواروں میں دراڑیں پڑی ہیں وہ وہی وکیل صاحب ہیں جنہیں اس نے قرض دیا تھا۔ کچہری میں ہی ان پر یہ عقدہ کھلا کہ ایک وکیل کے مقابلے میں انہیں کوئی دوسرا وکیل نہیں ملے گا۔ تیسری بات انہیں گھر پہنچ کر معلوم ہوئی کہ ان کے مکان کو کارخانہ
قرار دے کر سرکار اسے مہر بند کرچکی ہے اور پاپڑ بیلنے کی مشین جو ان کی روزی روٹی کا آسرا تھی اب عدالتی حکم کے بغیر نہیں چل سکتی۔ بابا جی بغیر کسی وکیل کے اس مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے جس کی عدالت میں یہ مقدمہ چل رہا تھا۔ نوجوان مجسٹریٹ جو مقابلے کا امتحان پاس کرکے تازہ وارد ہوا تھا، ا ن کی بات سن کر انصاف کرنے پر اتر آیا۔ اس نے فوری طور پر لوکل کمیشن مقرر کرکے رپورٹ طلب کرلی۔ رپورٹ آئی کہ مکانِ مذکور میں جو مشین لگی ہے وہ گھروں میں استعمال ہونے والے ایک ڈونکی پمپ جتنی ہے اور کسی قسم کی تھرتھراہٹ پیدا کرتی ہے نہ شور مزید یہ کہ وکیل مذکور کے گھر میں کوئی دراڑ نہیں پائی گی۔ مجسٹریٹ کہ ناواقفِ آدابِ عدالت تھا، یہ فیصلہ دے بیٹھا کہ وکیل صاحب کا دعویٰ جھوٹا ہے اس لیے خارج کیا جاتا ہے اور بابا جی کو پاپڑ بیلنے کی اجازت ہے۔ وکلاء کو اس فیصلے کا پتا چلا تو بار روم کی عدالت میں اسے عین ناانصافی قرار دے کر اس کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چند وکلاء ایک وفد لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس کے پاس پہنچا اور ان کے سامنے اس ناحقیقت شناس نوجوان مجسٹریٹ کی ''چیرہ دستیوں‘‘ کی کہانی بیان کی۔ جج صاحب نے فوری ایکشن لیا اور اس مجسٹریٹ کے تبادلے
احکامات جاری کردیے۔اس کے بعد وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا، نادہندہ وکیل صاحب نے اپنے قرض خواہ کی زندگی اتنی اجیرن کردی کہ وہ اپنا مکان چھوڑ کر بھاگ گیااور انصاف کابول بالا ہوگیا۔
یہ واقعہ عدلیہ کی تحریک آزادی برپا ہونے سے پہلے کا ہے یعنی وہ زمانہ جب عدلیہ تو جنرل مشرف کی قید میں تھی لیکن وکلاء آزاد تھے۔ 2009ء میں عدلیہ آزاد ہوئی لیکن اس طرح کہ پولیس اور ماتحت عدالتیں سیاہ پوش قانون دانوں کی گرفت میں چلی گئیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے بعد سے وکلا ء کو پولیس پر جھپٹتے پلٹتے اور پلٹ کر جھپٹتے دیکھنے کے مناظر ہماری ٹیلیویژن سکرینوں کا ایک عمومی حصہ بن چکے ہیں۔ بات بات پر عدالتوں کی تالہ بندی اور ہڑتال وکلاء کا بنیادی حق قرار پا چکا ہے۔ ہمارے سیاہ پوش قانون دانو ں کی طاقت اب اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان کے ملازمین اور شتہ دار بھی اپنے کام نکالنے کے لیے اسے آزمانے میں عار نہیں سمجھتے ۔ ایک وکیل کے صاحبزادے نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سرکاری یونیورسٹی کے رجسٹرار کو اس لیے پیٹا کہ وہ داخلے کے لیے میرٹ پر اصرار کررہا تھا۔ ایک سول جج کو اس کی عدالت میں اس لیے مارا کہ وہ وکلاء کی مرضی کی بجائے قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر بضد تھا۔ وکلاء احتجاج کرتے ہوئے پولیس کی گاڑیاں توڑیں، سرکاری عمارتوں کو آگ لگادیں اور طاقت کے زورپر فیصلے لکھوانے کی کوشش کریں تو اس کا مطلب ہے کہ قانون کی سیاہ وسفید پوشاک اب وکیلوں کا افتخار نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کا ستر بنتی جارہی ہے۔ وکالت اور جرم کا یہ ساتھ کتنا ظاہر و باہر ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ ڈسکہ بار کا جو عہدیدار ایک پولیس افسر کی فائرنگ کا شکار ہوا، خود بعض سنگین الزامات کی زد میں تھا۔ وکیل، جرم اور ہمارا نظام انصاف ایک دوسرے میں اتنے الجھ گئے ہیں کہ انہیں الگ کرنے کے لیے وکلاء، عدلیہ اور حکومت کو مل بیٹھنا ہوگاورنہ پاکستان میں انصاف عدالت کے کمروں میں نہیں، سڑکوں پر ہوا کرے گا۔
ڈسکہ واقعے نے ایک سوالیہ نشان حکومت پنجاب کے رویے پر بھی لگادیا ہے۔ وکلاء کے پرتشدد احتجاج سے متاثر ہوکر حکومت پنجاب نے جس طرح پولیس کو تنہا چھوڑا، اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ کو اس کے عہدے سے ہٹایا اور ڈی پی او کو ہٹانے کی کوشش کی، یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ حکومت قانون کے نفاذ کے لیے کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دینا ایسا طرز عمل ہے جو انتظامیہ کو ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور کرتا چلا جارہا ہے۔ صوبائی حکومت کے بارے میں یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ وہ پہلے فرمانبردارجونیئر افسروں کو ان کی اوقات سے بڑی ذمہ داری دے دیتی ہے اور وقت پڑنے پر ان کی مدد کرنے کی بجائے معطل کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے ردعمل سے نمٹنے کے لیے سرکاری افسروں کی قربانی دینے کی روش حکومت کی اخلاقی اتھارٹی کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی اور پولیس میں بددلی پیدا کررہی ہے۔احتجاجوں کے بارے میں حکومتی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے اب سرکاری افسر کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور جتنی دیر میں وہاں سے کوئی حکم آتا ہے اتنے میں صورتحال مزید بگڑ چکی ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرلے تو اس لیے خوار ہوجاتا ہے کہ پہلے پوچھا کیوں نہیں، اور اگر پوچھتے پوچھتے معاملہ بگڑ جائے تو اس لیے ذلیل ہوتا ہے کہ ''تم ذرا سی مشکل بھی ہینڈل نہیں کرسکے‘‘۔حکومت کا یہ طرزِ عمل ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ صوبائی حکومت قانون کے نفاذ کے لیے اپنی قوت نافذہ نہیں بلکہ پیشہ ور احتجاجیوں کی نظر کرم کی محتاج رہتی ہے۔ اگر دو مظاہروں کے درمیانی عرصے کا نام ہی حکومت ہے تو پھر اسے حکومت لکھتے اور کہتے ہوئے ہول اٹھتا ہے۔