تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     02-06-2015

سبق

فرمایا ''بنی اسرائیل اس لیے تباہ ہوئے کہ وہ غربا پر حد جاری کرتے تھے اور اُمرا سے درگزر کرتے تھے۔ بخدا اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی اس (چوری) جرم کا ارتکاب کرتی تو میں اس پر بھی حد جاری کرتا‘‘۔
رحمت للعالمینﷺ نے عدل و مساوات پر مبنی یہ تنبیہ اس وقت فرمائی جب ایک مرتبہ خاندان قریش کی ایک عورت نے چوری کی۔ قریش کی عزت اور وقار کے پیش نظر لوگ چاہتے تھے کہ اس خاتون پر حد جاری نہ ہو اور وہ سزا سے بچ جائے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حضور اکرمﷺ کو پیار تھا۔ لوگوں نے اسامہ ؓ کے ذریعے عفو و درگزر کی درخواست کی جس کے جواب میں یہ ضرب المثل جملہ ادا ہوا اور تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن گیا۔
اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین کی شہرت بے ضرر اور قانون پسند آدمی کی ہے۔ باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد کے حامی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی پشتو میں جو تقریر گشت کر رہی ہے اس میں وہ کارکنوں کو تشدد پر اکساتے ہیں مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے ان کی گرفتاری کا جواز قرار دیا جا سکے۔ ہمارے اکثر و بیشتر سیاستدان اپنے کارکنوں اور کیمرہ و مائیک کے سامنے توازن برقرار نہیں رکھتے‘ غیر ذمہ دارانہ باتیں کر جاتے ہیں۔
پبی (نوشہرہ) میں تحریک انصاف کا ایک کارکن قتل ہوا۔ اپنی کامیابی پر جلوس نکالنے والے تحریک انصاف کے کارکنوں اور فاتح کونسلر کے ساتھیوں پر گولی میاں افتخار کی موجودگی میں ان کے باڈی گارڈ نے چلائی۔ اگر تین گولیاں چلنے کے بعد گن میں گولی پھنس نہ جاتی تو سکیورٹی گارڈ جہانگیر ولد پرویز خان کے ہاتھوں مزید جانی نقصان بعید از قیاس نہ تھا۔ نویں جماعت کے طالب علم حبیب اللہ ولد شیر عالم کو گولی سیدھی سینے پر لگی اور مقامی انتظامیہ نے پولیس و فوج کی مدد سے میاں افتخار حسین کو جائے وقوعہ سے بحفاظت نکالا ورنہ مظاہرین کے ارادے خطرناک تھے۔
اپنے گارڈ کو گولی چلانے کا حکم اس مرد معقول نے دیا‘ نہ وہ اے این پی کے دفتر میں اس ارادے سے بیٹھے تھے۔ مقتول کے والد نے بھی انہیں بے قصور قرار دیا ہے مگر اس گرفتاری پر عمران خان‘ پرویز خٹک اور آئی جی ناصر درانی کو مطعون کرنا اور ایک سیاستدان کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دینا کس لحاظ سے درست ہے؟ کیا عمران خان اور پرویز خٹک نے اس کا حکم دیا؟ ناصر درانی کی شہرت ایک مرغ دست آموز پولیس افسر کی ہے؟ اور کیا پولیس کسی پر محض اس لیے ہاتھ نہیں ڈال سکتی کہ وہ سیاستدان ہے اور اس کا نام خواہ دفعہ 302کے تحت درج ہونے والی ایف آئی آر میں کیوں شامل نہ ہو اس کے خلاف پولیس قانونی کارروائی نہیں کر سکتی؟
خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس ناصر خان درانی کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج مقتول کے والد اور اس ہجوم نے کرایا جو گارڈ کی گولی کا نشانہ بنا۔ گرفتاری بھی ہجوم کے دباؤ پر ہوئی۔ چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری چلے گئے مگر وکیلوں اور عدالتو ں کو وہ آزاد کر گئے۔کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ خیبر پختونخوا کی عدلیہ صوبائی حکومت کے زیر اثر ہے مگر آصف علی زرداری سے لے کر میاں نواز شریف اور خورشید شاہ سے لے کر مولانا فضل الرحمن... تک گرفتاری پر اظہار تشویش یوں کر رہے ہیں۔جیسے پاکستان میں پہلی بار کوئی سیاستدان گرفتار ہوا ہے یا کسی صوبے کی پولیس نے دفعہ 302 میں نامزد کسی شخص کو پکڑ کر ظلم کر دیا ہے۔
ہمارے مروجہ نظام انصاف اور ریاستی و حکومتی انداز فکر کی رو سے یہ البتہ تشویشناک بات ضرور ہے۔ ہمارے ہاں 17بے گناہ قتل ہو جائیں یا اپنے کسی سیاسی مخالف کی ٹانگوں سے بم باندھ کر لاکھوں روپے وصول کر لیے جائیں۔ یہ کوئی قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں البتہ کوئی عام آدمی کسی طاقتور اور بااختیار کے سامنے گستاخانہ لہجہ بھی اپنائے تو یہ ناقابل ضمانت جرم ہے اور ہمارا قانون اور قانون نافذ کرنے والا ہر ادارہ مرتکب کوعبرتناک مثال بنانے پر تل جاتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں صوبائی وزیر ‘علی امین گنڈا پور اور ان کے حامیوں پر بیلٹ بکس چرانے کا الزام ہے۔ مقدمہ درج ہو گیا اور پارٹی نے ان کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ اگر قابل دست اندازی پولیس جرم ہے اور پولیس کوئی نوٹس نہیں لیتی تو اس پر صوبائی حکومت اور پولیس کو مطعون کیا جا سکتا ہے‘ مگر قتل کے ایک مقدمے میں نامزد شخص کی گرفتاری کو سیاسی انتقام اور ایک سیاستدان کی توہین قرار دینامیری ناقص رائے میں معاشرے کو امیر اور غریب‘ کمزور اور طاقتور کے خانوں میں بانٹنے کے مترادف ہے۔ امرا کے لیے ایک قانون اور غربا کے لیے دوسرا قانون بالآخر تباہی اور بربادی کا باعث بنتا ہے۔ ہم اس تفریق کا خمیازہ دہشت گردی‘ لاقانونیت ‘ بدامنی اور انارکی و بغاوت کی صورت میں بھگت رہے ہیں مگر سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوران جو بدنظمی‘ قانون شکنی اور دھونس دھاندلی دیکھنے میں آئی وہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہے۔ 2013ء کے انتخابی تجربے کے بعد الیکشن کمیشن کو بہتر انتظامات کرنے کی ضرورت تھی۔ مرحلہ وار انتخابات بہترین آپشن تھی مگر اس نے سابقہ غلطیاں دہرائیں؛ تاہم وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور آئی جی پولیس بھی بری الذمہ نہیں۔ بجا کہ پُرامن‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے مگر ہر سطح پر امن و امان برقرار رکھنے کا کام حکومت کا فرض ہے اور اگر کسی خاص موقع پر دستیاب نفری سے امن و امان قائم کرنا ممکن نہیں تو وہ ایف سی‘ رینجرز حتیٰ کہ فوج کی مدد لے سکتی ہے۔ صوبائی حکومت کا فرض تھا کہ وہ ایجنسیوں کے تعاون سے یوم انتخاب کے انتظامات کا جائزہ لیتی' ممکنہ صورتحال کا درست اندازہ لگاتی اورکسی بھی خطرے و خدشے سے نمٹنے کے لیے متبادل انتظامات کرتی مگر وہ پولیس و انتظامیہ الیکشن کمیشن کے سپرد کر کے مست ملنگ سو گئی۔
سپردم بتو مایۂ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات عمران خان کے دعووں اور 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف پر اعتماد کرنے والے صوبائی عوام کی توقعات کے پیش نظر ایک تاریخی چیلنج تھا‘ دوست دشمن سب کی نگاہیں ان انتخابات کے شفاف‘ منصفانہ اور پُرامن انعقاد پر تھیں مگر قیام امن میں وہ ناکام رہی۔ ڈیڑھ درجن افراد کی ہلاکت اور جگہ جگہ ہنگامہ آرائی اس کے چہرے پر بدنما داغ ہے جس کا ازالہ محض بیان بازی سے ممکن نہیں۔
انتخابات میں دھاندلی کا الزام البتہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کا آئینہ دار ہے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران جاں بحق ہونے والے بیشتر افراد تحریک انصاف کے حامی ہیں اور مخالفین جن حلقوں سے جیتے وہاں پولیس و انتظامیہ پرویز خٹک کے ماتحت تھی ۔ دھاندلی کی صورت میں نتائج قطعی مختلف ہوتے۔
جن سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اپنی ناقص کارگزاری ‘ دہشت گردی کے واقعات اور کمزور طرز حکمرانی کی بنا پر تحریک انصاف صوبے میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے اور بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) جے یو آئی ایف‘ اے این پی اور جمہوری وطن پارٹی کا اتحاد حکمران جماعت کا بوریا بستر گول کر دے گا انہیں خاصی مایوسی ہوئی ہے اور نتائج2013ء کے انتخابات سے مختلف نہیں نکلے۔ گویا خیبر پختونخوا کے عوام کی عمران خان سے امیدیں برقرار ہیں اور تحریک انصاف کی مخالف جماعتیں دو سال گزرنے کے باوجود عوام کو وسیع پیمانے پر اپنا ہمنوا بنانے میں ناکام رہی ہیں۔
ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت کے واقعات سے معاشرے میں عدم برداشت کے رجحان کی نشاندہی ہوئی‘ قانونی اور غیر قانونی اسلحہ کی بھر مار کے سنگین نتائج کا اندازہ ہوا اور اس حقیقت کا اظہار کہ اگر سیاست میں رواداری‘ برداشت اور پُرامن بقائے باہم کا جذبہ یوں کمزور پڑتا رہا تو انتخابی و جمہوری عمل کا انعقاد مشکل ہوتا چلا جائے گا اور نسل ‘ زبان ‘ علاقائیت اور فرقہ واریت کے جن فتنوں کو ہمارے منتخب و غیر منتخب حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پال پوس کر جوان کیا‘ عرصہ دراز تک ذہنوں اور جذبات میں تعصب و منافرت کا جو الائو بھڑکایا وہ اب ریاست اور معاشرے کے امن‘ استحکام اور وجود کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ بارود کے اس ڈھیر پر بیٹھ کر امن و آشتی کا راگ کوئی احمق ہی الاپ سکتا ہے۔
میاں افتخار حسین محض سیاستدان ہونے کی وجہ سے رعایت یا امتیازی سلوک کے مستحق نہیں ‘ بلکہ ایک شہری کے طور پر بے قصور ہیں تو انہیں فی الفور رہا ہونا چاہیے‘ ایک معصوم فرد کے طور پر‘ نہ کہ سیاستدان ہونے کی وجہ سے۔ علی امین گنڈا پور سمیت پی ٹی آئی کا جو رہنما یا کارکن قانون شکنی کا مرتکب ہوا اسے سزا ملنی چاہیے۔ سیاستدانوں کے شوروغوغا پر کوئی منفی یا مثبت فیصلہ تقاضائے عدل ہے نہ منشائے عوام۔ غریب پر قانون کا اطلاق اورطاقتور سے درگزر یا عام آدمی کے لیے قانون سخت اور سیاستدان کے لیے موم کی ناک نہیں‘ ہرگز نہیں۔ ''بنی اسرائیل اس لیے تباہ ہوئے کہ وہ غرباء پر حد جاری کرتے تھے اور امرا سے درگزر کیا کرتے‘‘۔ خیبر پختونخوا کے انتخابات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے سبق بہت ہے اگر کوئی سوچے تو!.....

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved