تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     02-06-2015

نریندر مودی : وزیر اعظم کم ‘وزیر پرچار زیادہ

نریندر مودی جتنی واضح اکثریت سے وزیر اعظم بنے‘ اتنی اکثریت سے کوئی بھی گزشتہ تیس سال میں نہیں بنا۔ اس لئے ان سے امیدیں بھی آسمان تک ہوگئی تھیں ۔انہوں نے مشن انتخابات کیلئے جتنے جلسے کیے اور ملک کے کونے کونے میں جتنا گھومے ‘ وزارت عظمیٰ کا کوئی امیدوار نہیں گھوما۔اسی طرح انہوں نے ہر جلسے میں جتنے وعدے کیے ‘جتنے اچھے دنوں کے جتنے دل فریب نقشے کھینچے اور جتنے خواب دکھائے ‘شاید کسی نے بھی نہیں دکھائے۔ بھارت کے عام ووٹر نے مودی کی کہی ہر بات پراعتبار کیا۔ان کے پاس مودی کی اہلیت‘مودی کا تجربہ اور مودی کی دور اندیشی کو دیکھنے پرکھنے کا وقت نہیں تھا۔وہ تو سونیا من موہن سرکار کی بد عنوانی سے اتنا تنگ آ چکا تھاکہ اسے ایک ایسے پردھان منتری کی تلاش تھی ‘جو اس سرکار کو کوڑے دان میں بٹھا سکے ۔اگر مودی کی جگہ کوئی ایک دم نو سکھیا بھی عوام کی لگام تھا م لیتا تو وہ بھی وزیر اعظم بن جاتا۔ مودی مقدر کے سکندر نکلے۔یہ لگام ان کے ہاتھ لگ گئی۔ دسمبر2012 ء میں جوں ہی مودی نے تیسری بار گجرات کا چناؤ جیتا‘میں نے لیکھ لکھا''وزیر اعظم کے دروازے پر مودی کی دستک‘‘۔
ایسا نہیں ہے کہ مودی کی قابلیت کے بارے میں‘ میں بے خبر تھا۔ لیکن مجھے مستقبل کی سیاست فلم کی طرح دکھائی پڑ رہی تھی ۔بی جے پی اور سنگھ مودی کو لے کر چلنے پر بالکل بھی تیار نہیں تھے لیکن میں نے نہ صرف اپنا خیال اخباروں اور چینلوں میں کھل کر عیاں کیابلکہ سنگھ اور بھا جپاکے خاص لیڈروں سے مسلسل بات چیت بھی جاری رکھی۔ بابا رام دیو جی اورمیں نے اپنے جلسوں میں اس وقت کی سرکار کو نکال
پھینکنے کا زبردست ناقوس بھی پھونکا۔بابا رام دیو جی کاتو ایسا بیان بھی آگیا کہ اگر بی جے پی مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار نہیں بنائے گی تو سارے ملک میں ہم پانچ سو امیدوارکھڑے کر دیں گے۔ جس دن چناو ٔ کے نتائج آنے تھے‘مختلف ٹی وی چینلوں پرمیں اکیلاایسا آدمی تھا‘ جو بار بار کہہ رہا تھا کہ مودی کو 275 سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔ ہمارا اندازہ درست نکلا۔ مودی وزیر اعظم بن گئے ۔ہم سے زیادہ خو ش کون ہو گا؟
لیکن پچھلے ایک سال میں کیا ہوا؟مودی سے لوگ ناامید ہوئے۔ اس ناامیدی کو دورکرنے کیلئے اب مودی سرکار دو سو بڑی ریلیاں‘ 200 پریس کانفرنسیں اور پانچ ہزار عوامی جلسے کرے گی۔ سرکاری شعبے بڑے پیمانے پر مشن پوسٹراور خطوط و میگزین پروگرام چلائیں گے ۔کسی سرکار یا پارٹی نے اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے اتنابڑا مشن کبھی چلایا ہو‘مجھے یاد نہیں پڑتا۔اس طرح کا طاقتور مشن تو ایمرجنسی میں اندرا گاندھی نے بھی نہیں چلایاتھا۔اس مشن میں چنائو ٔجتنا خرچ تو نہیں ہوگالیکن اس کا بجٹ کروڑوں اربوں تک ضرور جائے گا۔ خاص سوال یہ ہے کہ اس مشن کی ضرورت کیوں پڑ گئی ؟
مجھے لگتا ہے کہ عوام سے میل میلاپ اور سیدھا تعلق ہی مودی کی بنیاد ہے ۔جیسا چناؤمشن چلا تھا‘ویسا ہی مشن پرچار پچھلے سال سے بھی چلا رہا ہے ۔مودی کہتے ہیں کہ میں وزیر اعظم نہیں ‘نوکر اول ہوں ۔نوکر اول وہ ہیں یا نہیں ‘یہ تو پانچ سال بعد پتا چلے گالیکن ابھی تو وہ وزیر اعظم
کم ‘پرچار منسٹرزیادہ دکھائی پڑرہے ہیں۔ وہ زندگی بھرآرایس ایس کے پرچارک رہے ‘اب وہ یونین آف انڈیاکے پرچارک ہیں ۔وہ بھارت کے سب سے اعلیٰ عوامی ریلیشن آفیسر (افسر تعلقات عامہ) ہیں۔ اس معاملے میں مودی نے ملک کے سبھی وزرائے اعظم کو مات دے دی ہے۔ انتخابات کے دوران ملکی اور غیر ملکی ماہروں نے انہیں پبلک ریلیشن کی جو پٹی پڑھائی ‘اسے وہ اب برابر عمل میں لا رہے ہیں۔ انہوں نے رابطہ عوام کے فن کو ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ غیر ملکی صدر اور وزیر اعظم ہی نہیں ‘وہاں کے کثیر الاشاعت اخبار اور رسالے‘ ہمارے وزیراعظم کو پہلے صفحات پر جلی سرخیوں کے ساتھ چھاپ رہے ہیں۔ جنہوں نے انہیں عوامی ریلیشن کے گر سکھائے ‘اب وہ انہیں ان کافن ان سے بہتر سکھا سکتے ہیں ۔گُرو گڑ رہ گئے اور چیلا چینی !دن میں کئی بار اپنا پہناوابدلنا‘ہمیشہ چکا چک دکھنا‘بیرون ممالک کے سربراہوں کو ان کے پہلے نام سے بلانا‘ٹیلی پرامپٹر دیکھ دیکھ کر انگریزی تقریر کرنا‘جیسے کہ مودی نہیں ‘ڈاکٹر رادھا کرشنن ہوں‘ نوجوان لڑکے لڑکیوں اور لیڈروں کے ساتھ 'سیلفی‘کھینچنا وغیرہ عوامی ریلیشن کے کرشماتی کام ہیں ‘جو مودی کے علاوہ کون وزیراعظم کر سکتا تھا۔ فلپائن کے صدر کی بیوی امیلڈا مارکوس جب اپنے محل سے بھاگیں تو ان کے شو کیس میں سے چار ہزار جوتیاں نکلی تھیں ۔
ہمارے وزیر اعظم جی کا دس لاکھ والا سوٹ تو نیلام ہو گیا‘ لیکن چار ہزار نہ صحیح کم از کم چار بنڈیاں (نیم آستین روئی کی واسکٹ) تو ضرور نکلیں گی۔ نریندر بھائی کو کچھ لوگ 'بنڈی ماسٹر‘ کچھ لوگ کپڑے کا وزیر کہنے لگے ہیں۔ ہندی کے لفظ 'پردھان ‘ کو جو ہندی نہیں جانتے‘ صرف اردو یا فارسی ‘عربی جانتے ہیں ہیں پِردھان یا پریدھان ہی بولتے ہیں ۔اگر ہم مودی کا محاورہ ہی استعمال کریں تو کہیں گے کہ وہ ملک کے ''پرِدھان سیوک ‘‘ہیں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے؟آجکل بھاجپا کے کئی وزرائے اعلیٰ اور لیڈر ایک سے ایک رنگوں کی بنڈیاں پہننے لگے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بنڈی دیکھ کر لوگ انہیں چھوٹا موٹا نریندر مودی مان لیں گے جیسے کہ گاندھی ٹوپی پہن کر انا ہزارے اور ان کے پیروکار انہیں چھوٹا موٹا یا ہلکا پھلکا گاندھی جی ماننے لگے تھے۔
چاہے جو ہو ‘مودی نے کرتے پاجامے اور بنڈی (واسکٹ) کو جو عزت بخشی ہے ‘ وہ من موہن سنگھ اور راجیو گاندھی بھی نہیں بخش سکے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمیشہ فینسی ڈریس کے مقابلے کا ہیرو بنے رہنا‘کیا کسی فرد کوملک کا چہیتا بنا سکتا ہے ؟ایسا آدمی ایک شاندا رفلم سٹار تو بن سکتا ہے لیکن ملک کے لگ بھگ سو کروڑ لوگ‘ جنہیں کم از کم ایک وقت کی روٹی ‘کپڑا اور مکان بھی حاصل نہیں ہے ‘وہ اسکے بارے میں کیا سوچیں گے ؟مودی کوئی عام آدمی ہوتے تو ان پر انگلی اٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہوتالیکن وہ وزیر اعظم ہیں‘ پرِدھان وزیر کپڑا وزیر نہیں۔ لوگ ان کی تقاریر اور لفظوں پر ضرور غور کرتے ہیں ‘لیکن کہنے سے زیادہ اہمیت کرنے کی ہوتی ہے۔ لوگ ان کا طریقہ کار دیکھتے ہیں تو وہ حیرت میں پڑ جاتے ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ مودی کا بچپن غریبی میں بیتا‘ وہ چائے بیچتے تھے۔ اب وہ وزیر اعظم ہیں ‘ یہ فخر کی بات ہے۔ ان میں غیر معمولی صلاحیتیں ہیں‘ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتالیکن ایسا لگتا ہے کہ چھوٹے ہونے کا کمپلیکس ان کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ لاکھوں روپیہ کاسوٹ‘ چمکدار بنڈیاں لاکھوں روپیہ کے پین اور چشمے اسی احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔ اب سال بھر ہو گیا ہے سب شوق پورے ہو لئے۔ اگر انہوں نے اس کمپلیکس سے جان نہ چھڑائی تو اس کے سیاسی نتائج کافی افسوس ناک بھی ہو سکتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی چیزوں کااستعمال تو معمولی بات ہے لیکن احساس کمتری بڑے گہرے میں لے جاتا ہے۔ وہ کسی بھی ایسے شخص کو آپ کے پاس آنے نہیں دیتا ‘جو کسی بھی معاملے میں آپ سے برتر ہو۔ حسد کسی بھی شخصیت کا کمزور پہلو ہے۔ یہ اتنا گہرا ہے کہ جوہری توانائی بھی اس کے آگے کیا گہری ہوگی؟ یہ حسد ہی تو ہے کہ آپ نے لعل کرشن اڈوانی جیسے عظیم لیڈراور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جیسے تجربہ کارپنڈت کو الگ تھلگ کر کے طاق پر (باقی صفحہ 13پر)
بٹھا دیاہے۔راہ دکھانے والے منڈل میں‘ ایسا منڈل جوبالکل بنڈل بن گیا ہے۔ راستہ دکھانے والے منڈل پر بیٹھے بیٹھے یہ لیڈرمودی کی سواریوں کو تاکتے رہتے ہیں ۔
ایسے احساسات کا نتیجہ یہ ہے کہ مودی کی کابینہ میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے ‘جو مودی کے برابر دکھتا ہو۔ مودی نے برٹش آئین کے اس قول کو اُلٹ دیا ہے کہ وزیر اعظم اپنے برابر کے لوگوں میں سب سے اول (پرائم ) ہوتا ہے۔ جو لوگ مودی سے بھی زیادہ تجربہ کار ہیں اوران کے نام مودی سے زیادہ مشہور تھے‘ایسے دو وزیرسشما سوراج اور راج ناتھ سنگھ کا کیا حال ہے ؟جن دو وزیروں کا بول بالا ہے ‘وہ دونوں لوک سبھا چناو بری طرح سے ہارے انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بلدیاتی چناو بھی نہیں جیتا۔سبھی وزیر اور پارٹی کے عہدیداران بے نامی دولت کی طرح غائب سے دکھائی پڑتے ہیں ۔''صرف میں اور میرابھائے ۔پس پیتے ہیں ‘چائے‘‘۔ نریندر مودی اور امیت شاہ! یہی دونوں سرکار ہیں اور یہی دونوں پارٹی۔ عام کارکن پہلی قطار سے بالکل کٹتا جا رہا ہے ۔پارٹی کے ممبروں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو جائے ‘اس کی اہمیت کیا ہے ؟جیسے دھکے میں ممبر بنے ہیں ‘ویسے ہی دھکے میں باہر ہو جائیں گے ۔پارٹی کارکنان کی بات تو بہت دور ہے ‘پارٹی لیڈروں اور وزیروں کا ہی ''ہاتھی دانت کے محل ‘‘ تک پہنچنا مشکل ہے ۔اندرا گاندھی جیسی طاقتور وزیر اعظم ‘نرسمہا راو جی جیسا مہا پنڈت وزیر اعظم اور اٹل بہاری جیسا عظیم اور عجیب شخصیت کا دھنی وزیراعظم‘ ملک کے ماہروں کو پیار سے بلا بلا کر صلاح مشورہ کرتے تھے۔ ان وزرائے اعظم کی عوام سے ‘کارکنوں سے اور اپنے لیڈروں سے سیدھی بات چیت تھی ‘کیونکہ وہ چھوٹے ہونے کی سوچ کی گرفت میں نہیں تھے ۔وہ اچانک وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نہیں بنے تھے ۔انہوں نے طویل وقت تک سیاست کے اتار چڑھاؤ دیکھے ۔سال بھر تو ہو گیا۔اب دیکھنا ہے کہ یہ چھوٹے ہونے کی سوچ کب ختم ہوتی ہے ۔
اس سوچ نے خبر پالیکا کو بھی ناراض کر رکھا ہے ۔مودی کی مخالفت کرنا سبھی صحافیوں نے اپنا ایمان وفرض سمجھ لیا تھا۔ اس کے باوجود وہ جیتے تو مرگلے صحافیوں نے پلٹی کھائی اور وہ ہی مودی کے قصیدے پڑھنے لگے لیکن مود ی چُوک گئے ۔انہیں اسکا فائدہ اٹھانا نہیں آیا۔صحافت کی دنیا سے مودی کا تعلق اب بھی قلیل ہے ۔انہوں نے بیرونی ممالک کے دوروں میںتو صحافیوں کو ساتھ لے جانے کی روائت ہی ختم کر دی ہے لیکن وہ کم از کم مہینے میں ایک پریس کانفرنس تو کرتے؟ہم من موہن سنگھ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ خاموش بابا(مونی بابا) بنے رہے لیکن مودی کیا ہیں ؟'مونو لاگ بابا‘ ہیں وہ اپنی اپنی ہی دلتے رہتے ہیں ۔ملک اور دنیا کے ساتھ مونو لاگ کرتے رہتے ہیں ۔
اسی طرح سرکار نے جن دھن یوجنا‘مشن صفائی وغیرہ کی طرح کی لائق تعریف سکیمیں شروع کی ہیں اور اقتصادیات بھی غوطے نہیں کھا رہی ہے لیکن ان کی کوئی ناٹکیاں فائدہ نہیں دے رہی ہیں ۔مان لیا کہ مودی صرف سیاسی لیڈرہیں ۔ان کے پاس کوئی روحانی طاقت نہیں ہے۔ وہ سماج کی بنیادی خرابیاں دور نہیں کر سکتے‘ وہ ذات پات مٹا نہیں سکتے‘ وہ فرقہ واریت ختم نہیں کر سکتے ۔وہ ایک سو پچیس کروڑ لوگوں کو دیانتدار نہیں بنا سکتے لیکن وہ اس ملک کے سرکاری ملازمین کو تو پٹری پر لاسکتے ہیں ۔اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو وہ کاہے کے وزیر اعظم ہیں ؟وہ صرف سرکاری ملازموں کی رشوت خوری بند کر وادیں‘ سرکاری دفتروں سے انگریزی کو رخصت کروا دیں ۔سارے چنے ہوئے لیڈروں اور سرکاری ملازموں کیلئے یہ ضروری کر دیں کہ ان کے بچوں کی پڑھائی صرف سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ہوگی اور ان سب کا علاج صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہو گا۔ایسے کئی کام ہیں ‘جو ان کے بس کے ہیں ۔لیکن یہ سب کام کوئی تبھی کر سکتا ہے ‘جبکہ اس کے پاس کوئی نظریہ ہو۔ نظریہ نہ ہونے کی بیماری ہمارے بیشتر وزرائے اعظم کی خاصیت رہی ہے ۔دنیا کے دوسرے وزیر اعظم بھی زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں ۔وہ سطحی قسم کے مسائل سے الجھتے رہتے ہیں ۔وہ نوٹ اور ووٹ پٹانے میں اتنے ڈوب جاتے ہیں کہ اقتدار کا کام وہ نوکر شاہوں (سرکاری ملازمین) کے حوالے کر دیتے ہیں ۔نوکر شاہ جوں ہی حاوی ہوتے ہیں ‘لیڈر ان کی نوکری کرنے لگتے ہیں۔ الیکشنوں میں انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والوں کو فائدے پہنچانا کسی وزیراعظم کی مجبوری نہیں ہوتی۔ مودی سے بھی امید ہے کہ وہ اسے اپنی مجبوری نہیں بننے دیں گے۔اچھا ہو کہ وزیر اعظم اب ایک سال پورا ہونے پر اپنا چناوی منشور سامنے رکھیں۔ یاماہروں سے صلاح کر کے کچھ بنیادی قدم اٹھائیں تا کہ اگلے سال کی 25 مئی اس سال جیسی نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved