پچھلے ہفتے بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ پہلی برسی منائی۔ ملک کے طول و عرض میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم کے دفتر نے 200 پبلک جلسوں اور پریس کانفرنسوں کا اہتمام کرکے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی، کہ حکومت کا ایجنڈا صراط مستقیم پر گامزن ہے اور انتخابات سے قبل کئے گئے لمبے چوڑے وعدے جلد ایفا ہوں گے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لئے عموماً ایک سال کا وقت کافی نہیں ہوتا‘ مگر یہ تاثر عام ہے، کہ لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود، پچھلے ایک سال میں مودی حکومت پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہے ، اور حکومتی اراکین میں اعتماد کا بھی فقدان رہا ہے۔ حکمران پارٹی کے لیڈران اس کا قصورایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی اکثریت اور اس کے اراکین کی ہٹ دھرمی کے سر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتصادی اصلاحات کو لے کر کئی قوانین ایوان بالا میں مطلوبہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔پچھلے ایک سال میں مودی حکومت نے کئی فلاحی سکیموں کا اعلان کیا۔ جیسے 'جن دھن ‘ اسکیم کے تحت غریبوں کو بینکنگ سسٹم کے تحت لانا۔ اس اسکیم کے ذریعے ملک میں 14 کروڑ زیرو بیلنس بینک کھاتے کھل گئے۔ اسی طرح چھوٹے بیوپاریوں کیلئے ایک علیحدہ 'مدرا‘ بینک کا قیام اور غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے غریب افراد کیلئے ایک پینشن سکیم شامل ہے۔ جس کے تحت عمر کے لحاظ سے کوئی بھی شخص ہر ماہ 250 سے 1400 روپے کا پریمیم جمع کراکے 60 سال کی عمر کے بعدفوت ہونے تک ہر ماہ پانچ ہزار روپے حاصل کر نے کا حقدار ہوگا۔اور مرنے کے بعد اس کے وارثین کو دو سے تین لاکھ روپے کی رقم ملے گی۔
مگر ان فلاحی سکیموں سے قطع نظر ، مودی حکومت نے اپنے پیش رو من موہن سنگھ حکومت کی دو اہم فلیگ شپ سکیموں‘ حق اطلاعات قانون اور دیہی روزگار گارنٹی قانون کا تقریباً گلا گھونٹ دیا ہے۔ان دو سکیموں کیلئے دنیا بھر میں بھارت کی واہ وا ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ اگر مودی حکومت کے پچھلے بجٹ کا جائزہ لیا جائے، تو معلو م ہوگا کہ جہاں ایک طرف دفاع اور فوج کے امور کیلئے بجٹ میں ایک خطیر رقم یعنی 2.46 ٹریلین (دوہزار چھ سو سینتالیس ارب) روپے مختص کئے، وہیں دوسری طرف صحت اور تعلیم کی مد میں ہوشربا کٹوتی کی گئی۔ ایک کھر ب کی لاگت والی آٹھ فلاحی سکیمیں ، جس میں 6000 ماڈل سکول کھولنے کی سکیم بھی شامل تھی، کو جڑ سے ہی ختم کیا گیا۔ تعلیم کی مد میں بھی تقریباً اتنی ہی لاگت کی کٹوتی کی گئی۔صحت عامہ کے شعبہ کا بھی برا حال ہے ۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا کے ایک ارب 20 کروڑ غریب ترین افراد میں سے ایک تہائی بھارت میں رہتے ہیں ۔ اسی طرح بھارت میں بچوں میں شرح اموات اپنے غریب ہمسایہ ملکوں جیسے بنگلہ دیش‘ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ صحت کے شعبہ میں 34 ارب روپے کی کمی کی گئی۔ اسی طرح کل ملاکر 13 فلاحی سکیموں میں بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔ مزیددیگر 24 سکیموں جن میں وزیر اعظم کے سمارٹ سٹی اور شفاف انڈیا جیسے پروجیکٹ شامل ہیں، کے بارے صوبوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کے اخراجات کا بھاری حصہ وہ برداشت کریں۔ ایک سمارٹ سٹی کیلئے تخمینہ 50 ارب لگایا جارہا ہے ، جس کیلئے مرکزی حکومت صرف پانچ ارب روپیہ فراہم کرے گی، بقیہ رقم صوبوں کو اپنے وسائل سے مہیا کروانی ہوگی، جو یقینا ناممکن ہے‘ کیونکہ کچھ مغربی اور جنوبی صوبوں کو چھوڑ کر باقی سب کی مالی حالت خستہ ہے، اور وہ مرکزی امداد کے بغیر ان پروجیکٹس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق فلاحی سکیموں میں کٹوتی کا اثر اب زمینی سطح پر محسوس کیا جارہا ہے۔ راجستھان کے دیہات میں سرکاری ڈسپنسریوں سے اب غریبوں کو مفت دوائیاں ملنا بند ہوگئی ہیں۔ بہار اور جھارکھنڈ میں دیہی روزگار قانون کے تحت پچھلے سال لازمی 100 دن جن لوگوں نے کام کئے ان کی اُجرت ابھی تک ان کو نہیں مل رہی ہے۔ اس سال کی اجرت کا بجٹ اکثر صوبوں کو ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا۔
ستم بالا ئے ستم یہ کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کے ' بڑے محسن ‘ بھی ان کی حکومت سے نالاں ہوچکے ہیں۔بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری جو عام انتخابات سے قبل مود ی کو وزیراعظم کا امیدوا ر بنانے کی پرزور وکالت کر رہے تھے کا کہنا ہے، '' حکومت کو پالیسیوں کو عملی شکل دینے کے بجائے سرخیوں میں جگہ پانے کی زیادہ فکر ہے ،حکومت کی اقتصادی پالیسی بے سمت ہے ، وہ اقلیتی فرقوں میں عدم سلامتی کے احساس کو ختم کرنے میں ناکام رہی اور معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا دعویٰ مبالغہ آمیزہے ۔‘‘ مودی حکومت گزشتہ سال مئی میں اس نعرہ کے ساتھ بر سر اقتدار آئی تھی کہ وہ مہنگائی ، رشوت ستانی اور کرپشن کی ماری قوم کے لئے '' اچھے دن ‘‘ لائی گی۔ مودی اور بی جے پی کے سینئر لیڈورں نے جو اب مرکزی کابینہ میں شامل ہیں، غیر ملکوں
میں جمع عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی کے مختلف بڑے بڑے تخمینے پیش کرتے ہوئے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس دولت کو اقتدار میں آتے ہی سو دن کے اندر اندر وا پس لائیں گے اور ہر شہری کی جیب کم از کم 15لاکھ روپے سے بھری ہوگی ۔اب سو کے بجائے 365دن ہوگئے ہیں لیکن اس دولت کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔ بہرکیف کافی عوامی لتاڑ اور سپریم کورٹ کی سر زنش کے بعد بلیک منی کے نام سے بجٹ سیشن کے آخری دن جو بل پاس کیا گیا وہ ایسا لولا لنگڑا ہے کہ اس میں اس ناجائز دولت کو لانے کی کوئی شق موجود نہیں ہے ۔ نریندر مودی نے جو وعدے کئے۔ ان میں سب سے پرکشش نعرہ اور وعدہ ' سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘‘ تھا ،لیکن وکاس یعنی ترقی صرف امیروں اور صنعتکاروں کا ہورہا ہے۔بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے وزیر اعظم کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق پچھلے ایک سال میں جہاں افراط زر اور مہنگائی نے غریبوں اور مڈل کلاس کی کمر توڑ کر رکھ دی، وہیں مودی کے قریبی سرمایہ دار اڈانی گروپ جس نے ان کا انتخابی خرچہ برداشت کیاتھا، کی تجوری میں ایک کھرب روپے اور بھر گئے ہیں۔ ایک سال میں بھارت میں کل ملا کر کارپوریٹ کی آمدنی میں 10 ٹریلین کا اضافہ ہوا ہے۔
سرمایہ داروں کو خوش کرنے کیلئے لیبر قوانین بھی ترمیم کی زد میں ہیں ۔ فیکٹریز ایکٹ مجریہ 1948ء میں فیکٹری کی تعریف پر نظر ثانی کرکے اس میں کارکنوں کی تعداد دو گنا کرنا چاہتی ہے ۔ اس ترمیم کے تحت جو صنعتی اکائیاں بجلی سے چلتی ہیں، ان میں ورکر کی تعداد 20 ہو جو بغیر بجلی کے ہیں ان میں 40، اسی طرح پاور اور بغیر پاور کی اکائیوں میں بالترتیب 10 اور 20 ورکرکرنا چاہتی ہے تاکہ مالکان کو
مزدوروں کا حق مارنے اور ان کا استحصال کرنے کی چھوٹ ملے۔ سال 2011-12ء کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 1,75,710 صنعتی اکائیاں کام کررہی ہیں۔ ان میں 58 فی صد یعنی ایک لاکھ کارخا نے ایسے ہیں جہاں ورکروں کی تعداد 30 یا اس سے کم ہے ۔ اس ترمیم کے نتیجہ میں ایسے کارخانے اس قانون کے دائرے سے باہر ہوجائیں گے کیونکہ ایسی چھوٹی اکائیوں میں مزدوروں کے حقوق سب سے زیادہ پامال ہوتے ہیں ۔
سب سے تشویش نا ک صورت حال حساس حکومتی اداروں میں ہندو قوم پرست اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے افرادکا تیزی سے بھرتی کیا جا نا ہے۔ بالخصوص تعلیم کے شعبہ کو فرقہ وارانہ اور مسلم دشمن بنانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں گائے ذبیحہ کے نام پر انسداد دہشت گردی سے زیادہ سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ مہاراشٹر میں توبھینس اور دیگر بڑے جانوروں کے ذبیحہ اور ان کے گوشت کے ٖفروخت پر پابندی لگائی گئی ۔ قانون اتنا سخت ہے کہ ملزم پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا بار بھی ڈالا گیا ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ ماحول اور اقلیتوں کی سلامتی کا معاملہ تشویشناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ بیرونی میڈیا کو ایک دو انٹرویو میں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کے بارے میں بیان دینے کے علاوہ مودی حکومت نے فرقہ پرست عناصر کی سر کوبی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے مذہبی آزادی کے کمیشن نے، اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت کی سخت گو شمالی کی ہے اور امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں مذہبی تشویش کا معاملہ اٹھائے۔ اس وقت مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں میں عدم تحفظ کا احساس دوچند ہوگیا ہے ۔ کہیں فسادات ہورہے ہیں تو کہیں 'گھر واپسی‘ کے نام پر لالچ یا زور زبردستی تبدیلی مذہب کی کو شش کی جارہی ہے۔