سڑکوں کی تعمیر پر 15 ارب روپے
خرچ کیے جا رہے ہیں۔شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سڑکوں کی تعمیر پر 15 ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ انشاء اللہ صبح قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ یہ اس طرح کا صدقہ جاریہ ہے کہ سڑک آگے سے بنتی اور پیچھے سے ٹوٹتی چلی جاتی ہے اور جس کا مطلب ہے کہ سڑک پورا سال ہی بنتی رہتی ہے، مزدور کام کرتے اور ٹھیکیدار خوشحال ہوتے رہتے ہیں کیونکہ مزدوروں کا کام مزدوری کرنا اور ٹھیکیداروں اور ارکان اسمبلی کا کام خوشحال ہونا ہے کیونکہ ہر منصوبے کا کم و بیش 8 فیصد اپنے آپ ہی متعلقہ رکن اسمبلی کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اسے پتا ہی نہیں چلتا۔ انہوں نے کہا کہ ''خادم اعلیٰ روڈ پروگرام گیم چینجر ثابت ہو گا‘‘ کیونکہ خاکسار خود بھی گیم چینجر سے کم نہیں‘ جیسا کہ وزیراعظم اور چودھری نثار کی صلح کروا کر میں نے ساری گیم ہی چینج کر دی ہے‘ ور نہ گیم تو کسی اور طریقے سے چینج ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''سڑکوں کی دیکھ بھال کیلئے خود مختار ادارہ بنانے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں‘‘ لیکن اسے پولیس جیسا خود مختار نہیں ہونا چاہیے جو بعض اوقات وجہ پریشانی بھی ثابت ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
خیبر پختونخوا میں کی جانے والی دھاندلی نئے
پاکستان کی ایک جھلک ہے۔ اسفند یار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ''خیبر پختونخوا میں کی جانے والی دھاندلی نئے پاکستان کی ایک جھلک ہے‘‘ بے شک پرانا پاکستان بھی ہمیں ٹھیک طرح سے راس نہیں آ رہا اور اگرچہ ہم نے اقتصادی راہداری پر اپنے اتفاق کا اظہار کر دیا تھا لیکن اس کا مستقبل کافی مخدوش نظر آتا ہے کیونکہ اسے بگاڑنے والے‘ بنانے والوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور اس پر تن من دھن نچھاور کرنے کو تیار بیٹھے ہیں اور دھن کا ابھی تھوڑا حصہ ہی نچھاور ہوا تھا کہ سب سیاسی جماعتوں نے اس کی تعمیر پر اتفاق رائے کا اظہار کر دیا اور ہماری اقتصادی راہداری میں ایک بہت بڑا رخنہ ڈال دیا، لیکن ہمیں اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر ایک در بند ہوتا ہے تو کئی در اور کھل جاتے ہیں جبکہ یہ در بھی خدا نخواستہ بند نہیں ہوا ‘ دنیا دیکھے گی کہ کالا باغ ڈیم کی طرح اقتصادی راہداری کی بھی بس کہانیاں ہی باقی رہ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ'' مکمل انتخابی نتائج آنے کے بعد ہم اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے‘‘ کیونکہ فی الحال تو ہم اقتصادی راہداری پر اپنے پشت پناہوں کی نئی حکمت عملی کا انتظار کر رہے ہیں جو ظاہر ہے ‘علانیہ نہیں خفیہ ہو گی۔ اب اگلے روز فون پر ایک قومی روزنامہ سے گفتگو کر رہے تھے۔
پولیس کی جانبداری سب نے دیکھ لی، دھاندلی زدہ بلدیاتی انتخابات قبول نہیں۔ فضل الرحمن
جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پولیس کی جانبداری دیکھ لی، دھاندلی زدہ انتخابات قبول نہیں‘‘ جبکہ ہمارے وقت میں پولیس مکمل طور پر غیر جانبدار ہوتی تھی اور اگر ہمیں پھر کبھی موقع ملا تو پولیس پھر سے غیر جانبدار ہو جائے گی کیونکہ پولیس کو غیر جانبدار کرنے کا طریقہ وہی ہے جو خاکسار کے سلسلے میں آزمایا جاتا ہے اور تیر بہدف واقع ہوا ہے اور جہاں تک انتخابات کو قبول نہ کرنے کا تعلق ہے تو ہم انہی نتائج کو قبول نہیں کریں گے جو ہمارے امیدواروں کے خلاف آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ''تحریک انصاف نے دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں‘‘۔ حالانکہ انہیں انصاف سے چلنا چاہیے اور ایک آدھ ریکارڈ ہمارے لیے بھی چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''خیبر پختونخوا کی حکومت نے خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیے‘‘ اور یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ ہم خود اس کے حق میں نہیں ہیں کہ خواتین کو نعرے وغیرہ لگانے کی بجائے امور خانہ داری اور اپنے خاوندوں کی خدمت پر توجہ دینی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
صائب مشورہ
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا عوام الناس سے اپیل کی جاتی ہے کہ مٹی کے تیل، پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کے مہنگا ہونے پر زیادہ شور نہ مچائیں کیونکہ شور ماحول کو زیادہ پراگندہ کرتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتا ہے اور ملک کی صاف و شفاف فضا کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے جس کی بجائے خاموشی اختیار کرنا بہتر ہے کیونکہ قناعت اور صبر و شکر اللہ تعالیٰ کو بھی بہت پسند ہے۔ بے شک ان خواتین و حضرات کو ضرور دقت ہو گی جو پٹرول یا مٹی کا تیل چھڑک کر خودکشی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس نیک مقصد کے لیے دوسرا کوئی ذریعہ موجود ہی نہیں رہا جبکہ زہر تو خالص ویسے ہی نہیں ملتا اور زہر کھانے والا عالم بالا میں پہنچنے کی بجائے اگلی صبح اٹھ کر اس ناکامی پر مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ دریائوں میں پانی ویسے ہی دستیاب نہیں اور ڈوب مرنے کی سہولت تقریباً نایاب ہو چکی ہے‘ حتیٰ کہ چلو بھر پانی بھی بعض اوقات دستیاب نہیں ہوتا جبکہ چھت کے پنکھے سے لٹکنے کے لیے بھی مضبوط رسے کی ضرورت ہوتی ہے جو مہنگائی کے اس کمر توڑ زمانے میں ہر کوئی خرید بھی نہیں سکتا۔ اگرچہ مینار پاکستان سے کود کر بھی خودکشی کی جا سکتی ہے لیکن اس پر بھی پانچ دس روپے کا ٹیکس تو لگتا ہی ہے۔چنانچہ خودکشی کا ایک ہی سہل الحصول طریقہ باقی رہ گیا ہے کہ چھت پر سے چھلانگ لگا کر اپنا کام تمام کر لیا جائے۔ البتہ یہ ان لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہو گا جن کے ہاں گھر یا چھت کا کوئی تصور ہی نہیں اور فٹ پاتھ پر سے چھلانگ لگا کر ٹانگ وغیرہ تو تڑوائی جا سکتی ہے، خودکشی کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ الٹا اقدام خودکشی میں مقدمہ بھی بھگتنا پڑتا ہے‘ تاہم اس نیک مقصد کے لیے کسی بھی خدا ترس صاحب مکان سے چند لمحوں کے لیے اس کی چھت پر سے گرنے کی سہولت اور اجازت حاصل کی جا سکتی ہے بشرطیکہ چھلانگ سڑک یا گلی میں لگائی جائے ورنہ اگر اس کے لیے جگہ کا انتخاب صاحب مکان کا صحن‘ کیا جائے تو اس کے لیے خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور نیکی برباد، گناہ لازم کی صورت حال پیداہو سکتی ہے جبکہ بجلی کے تار کو چھو کر موت کو گلے لگانا بھی اب یقینی نہیں رہا کیونکہ لوڈ شیڈنگ یکا یک کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے جبکہ ہاتھ میں پکڑا تار خودکشی کرنے والے کا الگ سے مذاق اڑا رہا ہو گا۔ اس لیے عوام تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔
المشتہر : حکومت پاکستان عفی عنہ
آج کا مطلع
کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے
جتنی بھی مشکل میں ہوں آسان کر دے گا مجھے