تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     03-06-2015

مستونگ کا واقعہ اور ہماری ذمہ داری

29مئی کی رات کو مستونگ کے قریب ایک درجن سے زائد دہشت گردوں نے کراچی جانے والی دو ویگنوں کو روک کر 20سے زائد مسافروں کو خاک و خون میں نہلا دیا اور تقریباً تیس مسافروں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ پہاڑوں پر لے گئے۔ ان دہشت گردوں نے بے گناہ مسافروں کو قتل کرنے سے پہلے ان کی قومیت کی شناخت کی اور اس کے بعد انہیں گولیوں سے بھون دیا۔ قتل کئے جانے والوں میں سے اکثریت کا تعلق پختونوں سے تھا جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ قتل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح بلوچستان میںبلوچوں اور پختونوں کے درمیان لسانی بنیادوں پر فساد کرادیا جائے تاکہ بلوچستان لسانی آگ میں جل کر مزید تباہی وبربادی سے دوچار ہوسکے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے اپنے بیان میں بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ یہ بھیانک کارروائی بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ نے کرائی ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان میں گڑبڑ کر رہی ہے۔ ہمارے پاس اس کے شواہد موجود ہیں۔ جب سے انتہا پسند سوچ کا حامل نریندرمودی اقتدار میں آیا ہے ''را‘‘ کی پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ مستونگ کے واقع سے قبل گذشتہ ماہ کراچی میں صفورہ گوٹھ کے قریب چند دہشت گردوں نے آغا خانی کمیونٹی کے بے گناہ افراد کو ان کی ایک بس میں گھس کر شہید کردیا تھا، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ہر چند کہ ان دہشت گردوں کے بعض عناصر کو سندھ پولیس نے گرفتار کرلیا ہے، لیکن ابھی مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے صفورا گوٹھ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس گھنائونے جرم کے پیچھے ''را‘‘ کا ہاتھ ہے، جو کراچی میں گزشتہ کئی سالوں سے سرگرم ہے، بلکہ اس بدنام زمانہ ایجنسی کو کراچی میں بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا تعاون بھی حاصل ہے جو بھاری معاوضے لے کر ''را‘‘ کی مدد کررہے ہیں اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی گھنائونی سازش میں شریک ہیں۔ ان عناصر کے تعاون کے بغیر ''را‘‘ اس قسم کے گھنائونے کام انجام نہیں دے سکتی۔
مستونگ کا واقعہ دہشت گردی کے حوالے سے کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، لیکن پہلی مرتبہ دہشت گردوں نے بلوچستان میں آ باد پختون کمیونٹی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے، تاکہ پختونوں کے ذہنوں کو لسانی بنیادوں پر آلودہ کرکے بلوچستان میں خانہ جنگی کرائی جاسکے۔ حالانکہ ان گمراہ سفاک دہشت گردوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ بلوچستان میں پختون معاشی طورپر سب سے زیادہ مستحکم ہیں۔ یہ محنتی لوگ ہیں اور محنت کے ذریعے بلوچستان کی اکانومی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ان پختونوں کے کراچی کے کاروباری طبقے سے گہرے تعلقات قائم ہیں۔ اسی سلسلے میں یہ پختون کراچی آتے جاتے رہتے ہیں اور ان دونوں صوبوں کے درمیان تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں نے ان امن پسند پختونوں کو قتل کرکے خود اپنی موت اور تباہی کو دعوت دی ہے۔ ایف سی دہشت گردوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے اسے ہیلی کاپٹر فراہم کیا ہے تاکہ اس کی مدد سے پہاڑوں میں موجود ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیاجاسکے۔ ''را‘‘ کے یہ ایجنٹ بلوچستان میں اور دیگر لسانی و ثقافتی اکائیوں کو بھی اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ ہزارہ ، شیعہ کمیونٹی کو تاکہ ایران کے ساتھ پاکستان کے سیاسی و معاشی تعلقات کو خراب کیا جاسکے۔ ''را‘‘ کی بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بڑھتی ہوئی مذموم کارروائیوں سے جہاں پاکستان کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے، وہیں پاکستان کو تیزی کے ساتھ عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان معروضی حالات کے پیش نظر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو یہ سوچنا چاہئے
کہ ''را‘‘ کی جانب سے پاکستان کے اندر کی جانے والی کھلی دہشت گردی کا تدارک کیسے ہوسکتا ہے؟ پانی اب سر سے اونچا ہوتا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت کا قومی ایکشن پلان بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپارہا حالانکہ عسکری قیادت اپنی پوری توانائی‘ تندہی اور وسائل کے ساتھ ان غیر ریاستی عناصر کا صفایا کرنے کا عزم کرچکی ہے اور کر بھی رہی ہے۔ یہ اپنے سپاہیوں اور افسران کی قربانیاں بھی پیش کررہی ہے لیکن پاکستان کی بعض سیاسی پارٹیوں کا انداز تعاون اکثر پاکستان کے باشعور طبقے کی سوچ میں سوالیہ نشان بنتا جارہاہے۔ یہ سیاسی پارٹیاں دہشت گردی کے خلاف کیوں اپنابھر پور رول ادا نہیں کر رہیں؟ بظاہر کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے ،بعض سیاست دانوں کی جانب سے اخبارات میں شائع ہونے والے مذمتی بیانات سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اس کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں ہے۔ اس لئے قومی اسمبلی میں تمام پارٹیوں کی جانب سے بھارت کے خلاف ایک متفقہ قرارداد منظور کی جانی چاہئے جس میں بڑی وضاحت سے یہ کہا جائے کہ پاکستان بھارت کی جانب پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر ہر قسم کی
کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس نوعیت کی قرارداد بھارت کے انتہا پسند حکمران طبقے کو خوف زدہ کرنے کے علاوہ نئے انداز میں سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ نیز عالمی سطح پر بھی ایسی قرارداد کے اثرات پڑیں گے‘ جبکہ بھارت کو بے نقاب کرنے کا یہ اچھا سفارتی ذریعہ ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی پر امریکہ کی خاموشی قابل غور ہونے کے ساتھ ساتھ قابل حیرت بھی ہے۔ امریکہ کی جنوبی ایشیا میں خارجہ پالیسی بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی اور مفاہمت کرانے پر مرکوز رہی ہے، لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی دوستی کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری سے خوش نظر نہیں آرہا۔ اس کی سوچ میںتبدیلی محسوس ہورہی ہے۔ اس لئے اس نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے، تاکہ پاکستان اس عظیم منصوبے پر عمل پیرا نہ ہوسکے اور اگر عمل پیرا ہوتو اس میں ہر طرح کی بیرونی اور اندرونی مداخلت کے سازشی حربوں سے اس میں غیر معمولی تاخیر پیدا کی جاسکے تاکہ یہ منصوبہ بروقت مکمل نہ ہوسکے۔ اس پس منظر میں مستونگ کا بھیانک واقعہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے والوں کو اب اپنے گریبانوں میں جھانک کر یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا قاتلوں سے مفاہمت ہوسکتی ہے؟ اور کیا''را‘‘ کے ایجنٹ پاکستان کے دوست بن سکتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved