اختیارات کی واپسی
جرح کے جواب میں جوڈیشل کمیشن کے رُوبرو جناب نجم سیٹھی کے اس بیان کے بعد کہ الیکشن سے آٹھ دس روز پہلے ہی اُن سے نگران وزیراعلیٰ کے تمام تر ا ختیارات واپس لے لیے گئے تھے اور جملہ سیکرٹری اور بیوروکریٹس تمام معاملات براہ راست ماڈل ٹائون (چیف منسٹر) اور رائے ونڈ (وزیراعظم) کو رپورٹ کرتے تھے‘ اس متھ میں اب کوئی جان نہیں رہی کہ الیکشن تو نگران حکومت نے کرائے‘ ہمارا اس میں کیا عمل دخل تھا؛ چنانچہ اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ یہ الیکشن کس نے کروائے تھے اور ان میں اصل عمل دخل کس کا تھا؛ چنانچہ اب یہ بات سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کا ماہر ہونا ضروری نہیں کہ جب ساری پولنگ مشینری ہی ''صوبائی حکومت‘‘ کے ماتحت تھی جو خود بھی الیکشن لڑ رہی تھی‘ تو الیکشن کس حد تک منصفانہ رہے ہوں گے‘ ورنہ نگران وزیراعلیٰ کو ایسے غیر تقریباتی انداز میں اپنے اختیارات سے محروم کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت اور جواز نہ تھا‘ یعنی ع
جو چاہیں سو آپ کرے ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا
اس کے بعد ان انتخابات کو کسی منظم دھاندلی کے تحت اپنے رخ میں موڑنے کے الزام کے بارے غالباً کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں رہتی! ظاہر ہے کہ وہ شہرۂ آفاق 35 پنکچر بھی حکومت نے خود ہی لگائے ہوں گے اور اس لیے سیٹھی صاحب کو بے اختیار بھی کیا گیا تھا۔
دوبارہ ا لیکشن؟
ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے مطالبہ کیا ہے کہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات دوبارہ کرائے جائیں۔ یقینا اس میں بے قاعدگیوں کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اور متعدد پولنگ سٹیشنوں پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخاب کا حکم بھی دے دیا ہے لیکن وہاں الیکشن میں حصہ لینے والی کسی سیاسی جماعت نے‘ ان شکایات کے باوجود دوبارہ الیکشن کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے وہاں انتخاب میں حصہ ہی نہیں لیا‘ اور اگر دوبارہ الیکشن ہو بھی جائے تو بھی اس کا اس میں حصہ لینے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ الطاف بھائی اس طرح کے بیانات دینے کی ایک اپنی اور الگ شہرت رکھتے ہیں‘ خاص طور پر ایسے گرما گرم بیانات جن کی دوسرے دن تردید یا وضاحت بھی کرنا پڑتی ہے۔ اپنے نظم و نسق‘ ہیئتِ کذائی اور خاص سٹرکچر کی بنا پر یہ جماعت دوسری سیاسی جماعتوں سے ایک الگ امتیاز رکھتی ہے جسے متعدد خطرات بھی لاحق ہیں اور اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنے کی بجائے صاحبِ موصوف کو اپنی اس بے مثال پارٹی کو جملہ مبینہ آلودگیوں سے پاک کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگے تیرے بھاگ لچھیے!
اجازت!
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو عدالت کی طرف سے ایک ہفتے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ یقینا اس پر زرداری صاحب اور سندھ حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہوگا جن کو موصوف نے ناکوں چنے چبوا رکھے تھے اور جن کو اس کا کوئی مؤثر جواب دستیاب نہیں ہو رہا تھا بلکہ پوری جماعت میں ہی ایک اضطراب کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ بعض حلقوں کے اندازے کے مطابق بلاول زرداری بھٹو کی اچانک اور خلافِ توقع کراچی آمد بھی اسی صورتِ حال کا شاخسانہ بتائی جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کی تنظیم نو اور ناپسندیدہ عناصر کو بے اختیار کرنے یا نکال باہر کرنے کا کام بلاول کے لیے اب نسبتاً آسان ہو گیا ہے اور کبڑے کو یہ لات جس خوبصورتی سے راس آئی ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ڈاکٹر مرزا کی یلغار کے بعد پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پارٹی میں ان کی مخصوص لابی کی شہرت اور طاقت کو نقصان پہنچا ہے؛ چنانچہ جہاں پارٹی کے احیاء کی ایک صورت نظر آرہی ہے وہاں اس خدشے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ زرداری صاحب اپنی موجودہ حیثیت کا دفاع اور اس کے لیے مزاحمت بھی کر جائیں۔ بہرحال‘ روز بروز اپنی مقبولیت کھوتی ہوئی اس پارٹی کے لیے یہ صورت حال ایک فیصلہ کن یا نازک موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔
کسان احتجاج
اگلے روز کسانوں کی ایک تنظیم نے پریس کلب لاہور کے سامنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے زبردست احتجاج کیا جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ کسانوں کو معاشی طور پر بدحالی کے کنارے پر پہنچایا جا رہا ہے‘ اور ماضی میں دی گئی سبسڈی اور دیگر رعایتیں رفتہ رفتہ واپس لی جا رہی ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران اپنی بے پناہ دولت کے بل بوتے پر لینڈ لارڈ تو بن گئے ہیں لیکن انہیں کاشتکاروں کے مسائل کا نہ اندازہ ہے نہ احساس‘ جبکہ ق لیگ کی سابقہ حکومت کے کرتا دھرتا چونکہ بنیادی طور پر خود زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انہیں کسانوں کے مصائب کا ادراک بھی تھا اور انہوں نے اس سلسلے میں کسانوں کے لیے اپنے دور میں قابل ذکر رعایتوں اور سہولیات کا بھی اہتمام کیا جن سے بیشتر موجودہ حکومت نے ختم کردی ہیں اور جس سے کاشتکار طبقہ ایک مستقل پریشانی اور عدم تحفظ میں مبتلا ہے؛ چنانچہ نوازلیگ اگر ملک کی اس اکثریتی آبادی سے اگلے انتخابات میں اچھائی اور نیکی کی کوئی امید رکھتی ہے تو اسے فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا چاہئیں جن سے اس طبقے کی حق رسی اور تلافیٔ مافات کی کوئی صورت نکل سکے اور یہ بھی یاد رکھیے کہ اب یہ طبقہ کچھ ایسا بے زبان بھی نہیں رہا بلکہ اپنی تنظیموں کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے تیز اور بلند آواز بھی اٹھا رہا ہے۔ چنانچہ پیشتر اس کے کہ یہ احتجاج کوئی زیادہ ناگوار شکل اختیار کر لے‘ اور پانی سر سے گزر جائے‘ حکومت کو اس ضمن میں قابلِ ذکر اور ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ اس میں حکمران طبقے کی اپنی بقاء بھی مضمر ہے۔
آج کا مقطع
یا تو چھڑوا دے گا وہ مجھ سے غزل گوئی، ظفرؔ
یا کسی دن صاحبِ دیوان کر دے گا مجھے