انسان ہمیشہ سے جن نعمتوں کا طلب گار رہا ہے ان میں سے ایک فراغت بھی ہے ۔اگر انسان کی زندگی میں مالی مشکلات نہ ہوں تو انسان فراغت میں بڑی راحت محسوس کرتا ہے۔ فارغ وقت میں انسان جہاں بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے وہاں بہت کچھ کھو بھی سکتا ہے۔
فارغ اوقات میں کئی لوگ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی سیرت و کردار کو مسخ کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل کئی لوگ فارغ اوقات کا درست استعمال کرنے کی وجہ سے دنیا و آخرت کی سر بلندیوں اورکامیابیوں وکامرانیوں کو حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ عصر حاضر میںنوجوانوں کا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ انہیں فارغ اوقات گزارنے کا سلیقہ نہیںاور نہ ہی ان کے سرپرست، اساتذہ یا والدین اس حوالے سے ان کی خاطر خواہ رہنمائی کرتے ہیں۔
عموماً تعلیم ، ملازمت اور کاروبار سے فارغ ہو جانے کے بعد نوجوان ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں ان کی دنیا اورآخرت کا بہت زیادہ نقصان ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں کو فارغ اوقات کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ایسے کاموں میں وقت صرف کیا جائے جن میں دینی ، دنیاوی ، نفسیاتی اور مادی فوائد چھپے ہوئے ہوں اور تمام ایسے کاموں سے احتراز کرنا چاہیے کہ جن میں مالی ، جسمانی،وسائل اور توانائیوں کا ضیاع ہو۔
گرمیوں کی تعطیلات میں نوجوان اور طالب علم لمبے عرصے کے لیے فارغ ہو جاتے ہیںاور ان کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ انہیں اس دوران کیا کرنا چاہیے۔
زیر نظر کالم میںمیں مختلف ایسی سر گرمیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ جن کو اپنا کر بہت سے نوجوان اور طالب علم روحانی، نفسیاتی اور مادی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
1۔قرآن وسنت کا مطالعہ : تعطیلات میں وقت کا بہترین مصرف قرآن وسنت کا مطالعہ کرنا ہے ۔ قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے سے جہاں انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے وہیں پر انسان کا دل ودماغ خشیت الٰہی کے احساسات اور جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ انسان کو صحیح اور غلط اور حلال وحرام کی تمیز ہو جاتی ہے۔ انسان زندگی کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں انسان ترجیحی بنیادوں پر اخروی کامیابی کے حصول کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے اور یوں انسان دنیا کی آلائشوں ،ترغیبات اور تحریصات سے بچ کر صحیح اور درست سمت پر گامزن ہو جاتا ہے۔
2۔ ذکرالٰہی: قرآن وسنت کے مطالعے کے علاوہ کثرت سے ذکر الٰہی کرنا بھی انسان کے دل میں سکینت اور اطمینان پیدا کرتا ہے۔ ذکر الٰہی کے نتیجے میں انسان گناہوں اور بے راہ روی سے بچتا ہے ۔ وہ ذکر الٰہی کی برکات سے اندھیروں سے نکل کر روشنی کے راستوں پر گامزن ہو جاتا ہے ۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کا ذکر کریں تو کیونکر ممکن ہے کہ انسان کی تمام تر پریشانیاں اور غم دور نہ ہو جائیں۔
3۔تفکرفی الخلق: فارغ وقت اور تعطیلات میں ایک اوراچھا کام یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وسیع وعریض کائنات پر غوروفکر اور تدبرکیا جا ئے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے آسمان اور زمین پر غوروفکر کرتا ہے ‘ جب دوران شام وسحر کو دیکھتا ہے ، جب رات اور دن کے نظام پر غور کرتا ہے تو اس حقیقت کو بھانپ لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی بنایا ہے کسی مقصد کے تحت بنایا ہے۔ چنانچہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ پوری تندہی سے اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
4۔ علمی مجالس میں شرکت: فارغ اوقات میں عملی مجالس میں شرکت کرنا انسان کی علمی ترقی کے لیے انتہائی مفید ہے اور انسان کئی مرتبہ کتابوں کے مطالعہ سے وہ کچھ حاصل نہیں کرپاتا جو صاحب علم انسان کی صحبت کو اختیارکرنے سے حاصل کر لیتا ہے ۔ گرمیوں کی چھٹیوں اور تعطیلات کے دوران نوجوانوں کو اچھے سکالرز اور صاحب علم لوگوں کی رفاقت کو اختیار کرنا چاہیے ۔ دینی وعصری علوم میں مہارت رکھنے والے قریبی اعزاء واقارب کے علاوہ اپنے علاقے اور شہر کے ایسے علمی لوگوں کی رفاقت اـختیار کرنی چاہیے جو علم پھیلانے والے ہوں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عدم علم کی صورت میں اہل علم سے سوال کرنے کی تلقین کی ہے۔ اہل علم سے سوال کرنے کی صورت میں طالب علموں کے اشکالات اور فکر سے ا بہام دورہو جاتا ہے ۔
5۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ: دین، ادب اور سائنس سے متعلق موضوعات پر اچھی کتابوں کا مطالعہ بھی انسان کے علم اور معلومات میں اضافے کی بنیاد بن جاتا ہے۔ نوجوانوں کا حافظہ قوی ہوتا ہے۔ اگر وہ توجہ سے مطالعہ کریں تو تادیر کسی موضوع پر پڑھی گئی بات کو فراموش نہیں کرتے۔
اچھی کتابیں انسان کی تنہائی اورتفکرات کو دور کر دیتی ہیں اور کتابوں کے مطالعے سے انسان کی فکر میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے ۔ مطالعے کا شوق انسان کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کر دیتا ہے۔ بکثرت مطالعہ کرنے سے انسان اشیاء کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ تجربے کی اہمیت اپنی جگہ پرہے لیکن تجربہ بھی ہمیشہ مطالعے کا متبادل نہیں ہو سکتا ۔ کتابوں کو پڑھنے والے بہت سے کم عمر لوگ کئی مرتبہ تجربہ کار لوگوں سے بھی زیادہ پختہ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔
6۔ والدین اور اہل خانہ کے امور میں شرکت: والدین انسان کے ساتھ انتہائی مخلص ہوتے ہیںاور ان کی جدوجہد اور سرگرمیوں کا بہت بڑا حصہ اولاد کی منفعت اور خیر خواہی میں صرف ہوتا ہے۔ تعطیلات اور فارغ اوقات میں والدین کا ہاتھ بٹانا بھی فارغ وقت کا بہترین مصرف ہے۔ کئی مرتبہ اولاد اپنے والدین کی خدمت کرکے ان کی دلی دعاؤں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور ان دعاؤںکے نتیجے میں انسان دنیا وی واخروی عروج اور سربلندی پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
دور حاضر میں بہت سے نوجوان والدین کی خدمت سے جی چراتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے دوستوں کو دینے کے لیے تو وقت ہوتا ہے لیکن والدین کا چھوٹا موٹا کام بھی ان کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔ نوجوانوں کو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ آج اگر ان کا طرز عمل لاپروائی پر مبنی ہو گا تو کل ان کو بھی اپنی اولاد کی عدم توجہ کا غم سہنا پڑ سکتا ہے۔ امور خانہ داری میں شرکت سے انسان جہاں اجروثواب حاصل کرتا ہے وہاں پر اس کے تجربے میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور چیزوں کی خریدوفروخت کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ صلاحیتیں انسان کے مستقبل کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتی ہیں۔
7۔ میدانی کھیلوں میں شرکت: تعطیلات اور فارغ اوقات میں موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر اضافی اور غیر ضروری وقت صرف کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ا نسان میدانی کھیلوں میں شرکت کرے ۔ میدانی کھیلوں میں شرکت کرنے سے انسان تندرست اور اعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔ جسم تندرست ہو تو انسان کا دماغ بھی درست طریقے سے کام کرتا ہے اور سوچ بچار کی اعلیٰ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔
8۔ صحت افزاء اور تاریخی مقامات کی سیر: فارغ وقت اور تعطیلات میں صحت افزاء اور تاریخی مقامات کی سیروسیاحت بھی طالب علموں اور نوجوانوں کی نفسیات پر مثبت اثرات چھوڑتی ہے۔ شہروں کی موجودہ زندگی میں آلودگی اور رش کی وجہ سے کثافت کے غیر معمولی اثرات ہیں ۔ صحت افزاء مقامات پر جاکر انسان کو سکون قلب حاصل ہوتا ہے ۔ اسی طرح تاریخی مقامات پر جانے سے انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتابوں میں پڑھی گئی تاریخی عمارتوں کو جب انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو انسان کو یہ مقامات اور ان سے جڑی ہوئی تاریخ ہمیشہ کے لیے یاد ہوجاتی ہے۔ تعطیلات اور فارغ اوقات میں اگر انسان کی سرگرمیاں صحت مند ہوں تو انسان کی کردار اور شخصیت کی نشوونما ہوتی ہے اور اگر انسان منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جائے تو خود اپنے ہاتھوں سے اپنی دنیا وآخرت تباہ کر بیٹھتا ہے۔