تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-06-2015

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات

بلدیاتی انتخابات کے دوران جو کچھ بھی ہوا‘ اسے کسی طور پر درست نہیں کہا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے کہ مختلف رنگوں کے سات بیلٹ پیپرز پر جو اعتراضات کئے جا رہے ہیں کیا پرویز خٹک یا عمران خان کے حکم پر چھپے تھے؟۔یہ تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا اور کون نہیں جانتا کہ کوئی بھی صوبائی حکومت الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی‘ اور کیا اس سے قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں چھ بیلٹ پیپرز استعمال نہیں ہوئے تھے؟ ۔ اصل میں یہ انتخابات ملک میں مستقبل کے بننے والے انتخابی نقشے کی ایک واضح جھلک ہیں کیونکہ کے پی کے کے ان انتخابات میں جماعت اسلامی سمیت دیگر سات جماعتوں کی توپوں کا رخ بھی عمران خان کی طرف تھا۔ اگر عمران خان کو دھرنے کے دوران زرداری اور سراج الحق گٹھ جوڑ نظر نہیں آیا تو پھر ان کی سیا ست کا خدا ہی حافظ ہے۔ آئندہ جب بھی انتخابات ہوں گے تو ملک کی دس جماعتیں پی پی پی، نواز لیگ، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان، جماعت اسلامی، شیر پائو، ایم کیو ایم، ساجد میر گروپ، اہل سنت والجماعت کے لدھیانوی، اچکزئی گروپ ، بی این پی نیشنل یہ سب مل کر ہر صوبے میں تحریک انصاف کا مقابلہ کریں گے اور 30 مئی انتخابات کی دوپہر تک میڈیا میں شور اٹھایا بھی اس لئے گیا تھا کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں ملک کی سات سیا سی جماعتوں کو اپنی شکست واضح نظر آ گئی تھی اور اس کامیابی کو مشکوک اور ہوا میں اڑانے کیلئے گوئبلز کے دائو پیچ کھیلنے شروع کر دیئے گئے۔ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک پولنگ بوتھ جہاں آزاد امیدواروں کے علا وہ دیگر سات جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس موجود ہوں وہاں دھاندلی کی جا سکتی ہے؟۔ خیبر پختونخوا کی پولیس اور انتظامیہ کے بارے میں تحریک انصاف کی تمام مخالف سیا سی جماعتوں کی جانب سے یہ کہتے ہوئے الزامات کی بھر مار کی جا رہی ہے کہ صوبے میں امن نہیں ہے۔ اگر سیا ست سے تعلق رکھنے والے لیڈران و کارکنان، دانشوروں کے ذہنوں ، ہمارے ملک میں بسنے والے انسانوں کی یادداشت اور میڈیا کی لائبریریوں میں وہ آدھ گھنٹے کی بریکنگ نیوز محفوظ نہیں رہی تو پھر ان سب کو ایک ڈیڑھ ماہ قبل کی کہیں پڑی ہوئی وہ خبریں یاد کرانی پڑیں گی جن میں گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب عباسی پشاور صدر میں بغیر سکیورٹی کے مختلف ہوٹلوں اور دکانوں میں گھومنے کے بعد ٹریک سوٹ میں ملبوس پشاور کی مال روڈ پر عام انسان کی طرح آزادی سے گھوم پھر رہے تھے۔ کیا کسی اور صوبے کا گورنر سریاب یا جناح روڈ، مال روڈ یا صدر کراچی میں اس طرح گھوم سکتا ہے؟یہ اعتراض بھی درست مان لیتے ہیںکہ ریٹرننگ افسران کا تعلق صوبائی انتظامیہ سے تھا لیکن ایسا کہنے والے کیا بے خبر ہیں کہ الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت نے عدلیہ سے ریٹرننگ آفیسر مانگے تھے لیکن چیف جسٹس نے معذرت کر لی تھی تو پھر یہ عملہ کہاں سے لایا جاتا؟۔ اور کیا یہ درست نہیں کہ وہ صوبہ جو تحریک طالبان کی دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ اور مرکز تھا وہاں گیارہ ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز میں سے صرف121 پر گڑ بڑ ہوئی۔ اور یہ بھی کوئی اچھی علامت نہیں لیکن ہمارے عوام کا نہ جمہوریت کی الف ب سے کوئی تعلق واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی جمہوری نظام سے لوگ اسے الیکشن نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شکست ایک بہت بڑی ذلت سمجھی جا تی ہے۔ جب تک کسی دوسرے کی رائے اور سوچ کا احترام پرورش نہیں پائے گا‘ ہمارے انتخابات اسی طرح ہوتے رہیں گے۔ تحریک انصاف کے ایک نوجوان کارکن کی نوشہرہ پبی میں اے این پی کے انتخابی دفتر کے باہر ہلاکت کے بعد اسفند یار ولی خان کے جو فرمودات میڈیا پر
پیش کئے جا رہے ہیں ان کا جواب وہی لوگ بہتر دے سکتے ہیں جن کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن... میں پورے ہزارہ ڈویژن اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کی جانب سے اسفند یار ولی خان صاحب سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ اگر آپ اتنے ہی امن پسند ہیں تو جب آپ کی خیبر پختونخوا میں حکومت تھی تو ا س وقت ایبٹ آباد میں با با حیدر زمان کی نکالی گئی ریلی پر وہ کون سی پولیس تھی، وہ کہاں سے بلائے گئے ماہر نشانہ باز تھے جنہوں نے10 مئی2010ء کو ایبٹ آباد کی سڑکوں پر12 بے گناہ شہریوں پر گولیوں کی بارش برساتے ہوئے شہید کر دیا تھا؟ وہ کون سے لوگ تھے جن کا آج تک کسی کو بھی پتہ نہیں چلا‘ جنہوں نے23 لوگوں کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا تھا۔
کیا ایبٹ آباد کی وہ بارہ مائیں جن کے لعل ان کے سامنے گولیوں سے بھون دیئے گئے تھے وہ کے پی کے کی مائیں نہیں تھیں؛ جب ان بارہ لاشوں کے جنازے اٹھائے گئے تو کیا اس وقت خیبر پختونخوا کے اوپر چھایا ہوا آسمان خون کے آنسو نہیں بہا رہا تھا؟کیا اس وقت اسفند یار ولی خان کو ان بارہ شہیدوں کی مائوں ، بہنوں اور بیوائوں کے بین سنائی نہیں دے رہے تھے؟۔کیا اس وقت اسفند یار ولی خان کو ان بارہ خاندانوں کے یتیم ہونے
والے بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہی تھیں؟۔ کیا جب اس ریلی میں شریک لوگ اپنا جمہوری حق مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکلے تھے تو اس وقت کیا آئین معطل تھا؟۔ کیا آپ نے صوبے میں ایمر جنسی نا فذ کی ہوئی تھی؟ خیبر پختونخوا کے ان بلدیاتی انتخابات میں کیا مسلم لیگ نواز، ولی خان گروپ، مولانا فضل الرحمان ، پیپلز پارٹی اور شیر پائو گروپ کی جماعت کا کوئی فرد یا کارکن ہلاک ہوا ہے؟۔اس کا جواب نفی میں ہے ۔اے این پی نے جو در پردہ کام دکھایا ہے وہ جلد سامنے آ جائے گا ذرا صبر تو کریں۔
وہ صوبہ جو دہشت گردوں کی پناہ کیلئے جنت تھا‘ جہاں ہر روز ایک خود کش دھماکہ ہوتا تھا جہاں روزانہ کسی سڑک کے کنارے ایک بارودی سرنگ اور ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ ہوتا تھا‘ جہاں نہ پیدل چلنا محفوظ تھا اور نہ ہی بسیں اور ویگنیں محفوظ تھی وہاں ہر گائوں اور ان کے گلی محلوں میں انتخابات کرانے والی خیبر پختونخوا پولیس کو بجائے اس کے کہ شاباش دی جائے اس کی صلاحیتوں کو سراہا جاتا‘ اسے نشانہ ستم بنا یا جا رہا ہے... کس مقصد کیلئے؟کس کے ایجنڈے کیلئے؟ اے این پی کے میاں افتخار کی گرفتاری کا فیصلہ انتہائی غلط تھا۔ ان سے گزارش کی جائے کہ وہ گولی جس سے پی ٹی آئی کا کارکن ہلاک ہوا ہے چونکہ آپ کے قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص نے چلائی تھی تو اسے خود سامنے لا کر قانون کے حوالے کریں تاکہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved