تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     03-06-2015

جادو اور وہم

حنا دل پذیر ایک زبردست اداکارہ ہیں۔ میری رائے میں انہوں نے ماضی اور حال کے تمام نامور مزاحیہ اداکاروں کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ میں ٹی وی ڈرامے نہیں دیکھتا لیکن ''قدوسی صاحب کی بیوہ‘‘ کی ایک ایک قسط میں نے کمپیوٹر پر دیکھی ہے ۔ اس ڈرامے میں ایک سقم ہے کہ بعض مکالمے شائستگی کی ان حدود سے باہر نکل جاتے ہیں ، جہاں آپ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں دیکھ سکیں ۔بعض جگہوں پر رشتوں کے تقدس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔
کوئی درجن بھر کردار اس ڈرامے میں انہوں نے نبھائے ہیں ۔ ہر ایک اپنی جگہ شاہکار۔ شکورن زوجہ قدّوسی ، روح افزا، نذیر دلبر جانی ،بدرقہ جہاں ، ناظمہ خاتون ، اے ایس آئی شاہینہ پھرکی اور بنگالی باجی ۔مکالمے فصیح باری نے تحریر کیے ہیں۔ دیکھنے والے کو بعض اوقات یہ قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ مثلاً خجستہ جہاں یہ کہتی ہے: عقیلہ بھابھی ، تم ایک دیوی ہو ۔اس پر بدرقہ زیرِ لب بڑبڑاتی ہے ''ہاں ، گناہوں کی دیوی‘‘ اور پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنستی ہے ۔ اے ایس آئی شاہینہ پھُرکی کا کردار مختصر ہے لیکن مجھے یہ سب سے زیادہ پسند آیا۔ ایک دلچسپ کردار بنگالی باجی کا ہے ۔ وہ جادو ٹونے کی ماہر ہے ۔ کہانی کے تمام کردار کسی نہ کسی موقعے پر اس کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی اغراض یا ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے ،کسی کی شادی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے آرزومند ہوتے ہیں اور یہی میرا موضوع ہے ۔
موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ نے فرعون کے جادوگروں کا مقابلہ کیا تھا۔ چمکتے ہاتھ اور چھڑی کے سانپ بن جانے کی صورت میں خدا نے موسیٰ ؑ کو دو نشانیاں عطا کی تھیں ۔ عصا کا سانپ یا اژدہیمیں ڈھل جانا جادو نہیں تھا ؛بلکہ لکڑی کے ایٹموں کی ساخت زندہ سانپ کے خلیات میں بدل جاتی تھی ۔ جادو کا اصول یہ ہے کہ وہ آپ کی آنکھ یا آپ کے دماغ پر اثر کرتاہے ۔چیز بدلتی نہیں لیکن آنکھوں یا دماغ پر جادو کے اثر سے وہ بدلی ہوئی نظر آتی ہے ۔ آنکھ سے ڈیٹا دماغ ہی میں جاتا ہے ؛لہٰذا آنکھ کا متاثر ہونا بھی دماغ کے متاثر ہونے کے برابر ہے ۔ آنکھ ان حسی خلیات میں سب سے زیادہ اہم ہے ، جن کے ذریعے انسانی جسم کے باہر سے معلومات دماغ تک پہنچتی ہیں ۔ یہاں مجھے استاد پروفیسر احمد رفیق اختریاد آتے ہیں : جادو آنکھ یا دماغ پر اثر کرتاہے ۔ یوں آدمی نارمل نہیں رہتا۔ اب ایک وہم کا مارا ہوا آدمی اپنی زبان سے بڑی خوشی سے مجھے یہ بتاتا ہے کہ اس پر اس کے فلاں رشتے دار نے جادو کر رکھا ہے ۔استاد کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اسے نظر ٹھیک آرہا ہے ، اس کا دماغ ٹھیک کام کررہا ہے تو پھر کاہے کا جادو؟ پروفیسر صاحب نے کہا: سچ تو یہ ہے کہ اپنی پوری زندگی میں کسی ایک بھی ایسے شخص سے مجھے واسطہ نہیں پڑا ، جو جادو پر عبور رکھتا ہو۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پروفیسر صاحب پوری زندگی مختلف علوم پر تحقیق ہی میں مشغول رہے ہیں ۔
یہ زمانہ جادوگروں سے بھرپور تھا۔ پورے مصر سے فرعون نے ماہرین کے گروہ منگوائے تھے۔ ان کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ موسیٰ ؑ اگر لکڑی کو اژدھے میں بدل دیتے ہیں تو لازمی طور پر وہ لوگوں کی آنکھوں یا دماغ پہ اثر انداز ہوتے ہیں... اور یہ کام وہ خود بھی کر سکتے تھے ۔ لکڑی تو لکڑی ہوتی ہے ، وہ اژدھے میں کیسے بدل سکتی ہے ۔ مقابلہ شروع ہوا۔ یہاں قرآن کے الفاظ میں ، جب جادوگروں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی اشیا پھینکیں تو ''سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ (الاعراف:116)‘‘۔ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اوران پر ہیبت غالب کر دی اور یہ بڑا عظیم سحر تھا۔ یہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ہونے والا کیا ہے ۔
موسیٰؑ کی پشت پر تو اللہ کھڑا تھا۔ وہی اللہ ، جو ہائیڈروجن، آکسیجن، کیلشیم، کاربن ، فاسفورس اور نائٹروجن کو ملا کر انسان تخلیق کرتاہے ۔ اس نے لکڑی کو سانپ کے خلیات میں بدل دیااور یہ سانپ تھابھی زور آور ۔ جادوگروں کی پھینکی ہوئی اشیا ، لوگوں کو جو بظاہر سانپوں کی صورت میں نظر آ رہی تھیں، نگل گیا۔ اب جادو کے کسی اصول سے یہ ممکن نہیں تھا ۔ جادو ہوتا تو موسیٰ ؑ کا اژدہا بھی دوسروں کی طرح کھڑا رہتااور فرعون یہ کہتا کہ ایسا کون سا خاص کمال تو نے کر دکھایا ہے کہ میں تیری پیروی کروں ۔ جو کچھ ہو رہا تھا، وہ جادو تھا ہی نہیں اوریہ بات ایک جادوگر سے زیادہ کون جان سکتا تھا۔ سو جب ان میں سے دو چار بڑے حضرات جھکے ہوں گے تو پھر جادوگروں کا پورا مجمع ہی سجدے میں گر گیا۔
دوسری بات ہے رشتے میں خرابی کی ۔ قرآن ہی میں ذکر ہے کہ (ایک جگہ جہاں جادو عام تھا)، وہاں اللہ نے دو فرشتے ہاروت اور ماروت بھیجے۔ بظاہر وہ جادو کے ماہر تھے ۔ لوگ ان کے پاس اپنی غرض لے کر آتے اور اکثر یہ غرض اپنی کامیابی سے زیادہ دوسروں کے نقصان کی شکل میں ہوتی ۔ خاص طور پر میاں بیوی کو جدا کرنے، ان میں ایک دوسر ے کے لیے ناپسندیدگی بلکہ نفرت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ۔تو یہاں بھی دماغ ہی ہدف ہے ۔
اس دنیا میں ہم آزمائش کے لیے بھیجے گئے ہیں ۔ رشتے نہ ہونا ، تعلقات میں بگاڑ ، مالی معاملات میں خرابی، یہ سب اس کا حصہ ہے لیکن بنیادی طور پر آدمی توہم پرست ہے ۔ خواتین تو اس میدان میں آگے ہیں ہی لیکن میرے جیسے یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے آدمی کے ذہن میں بھی شک جب بیٹھ جائے تو آسانی سے نہیں نکلتا۔ نیند میں بعض اوقات آدمی ڈر جاتا ہے۔ غنودگی کے عالم میں وہ دیکھتا ہے کہ کوئی اسے گھور رہا ہے ۔ اس دوران وہ حرکت کرنے سے قاصر ہوتاہے ۔ یہ صورتِ حال خود میرے ساتھ کئی مرتبہ پیش آچکی ہے اور بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتاہے ۔ اس پر میں نے ایک تحقیق پڑھی۔ دماغ کا وہ حصہ ، جو وقت اور خلا میں آپ کی اپنی شخصیت کی موجودگی کا تعین کرتاہے ،غنودگی کے عالم میں بعض اوقات وہ جسم کے اندر کی بجائے ، آپ ہی کی شخصیت آپ کے جسم سے پرے دکھا رہا ہوتاہے ۔ غالباً دماغ کے اس حصے کے لیے Somatosensory کا لفظ استعمال کیا جاتاہے ۔ اب باقاعدہ لیبارٹری میں اس حصے پر تحقیق کے ذریعے فرضی بھوت پیدا کر کے تجربے کا حصہ بننے والوں کو ڈرا یا جا چکا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیند کا وہ حصہ ، جس میں ہم خواب دیکھتے ہیں ، اس دوران گردن سے نیچے کا دھڑ قدرتی طور پر تقریباً فالج کی سی کیفیت میں ہوتاہے ۔ اس دوران جسم کا کوئی بھی مسل حرکت نہیں کر سکتا۔ اس وقت سب کھیل دماغ میں ہوتاہے اور وہاں اس دوران بڑی سرگرمیاں جنم لے رہی ہوتی ہیں ۔ پلکیں بند ہونے کے باوجود آنکھیں تیزی سے گھومتی ہیں۔
قرآنِ مجید کی آخری دو سورتیں جادو کا توڑ ہیں ۔ان میں حسد کرنے والے سے ، جنات اور انسانوں سے پناہ مانگی گئی ہے ۔ شک میں مبتلا آدمی کو چاہیے کہ اپنا مال لٹانے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر کچھ دیر انہیں پڑھا کرے؛حتیٰ کہ اس کا وہم دور ہو جائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved