تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-06-2015

کام‘ کام اور کامران

جدید میڈیا کے ممتاز صحافی‘ جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں نمایاں ہوئے‘ ان میں کامران خان بلاشبہ منفرد ہیں۔ بنیادی طور پر وہ انگریزی صحافت سے وابستہ تھے۔ جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا شروع ہوا‘ تو اس وقت بہت کم لوگوں کو اس شعبے کا تجربہ تھا اور جنہیں تھا بھی‘ انہوں نے اردو کی طرف توجہ نہیں دی۔ میڈیا کے دونوں حصوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ پرنٹ میڈیا میں صحافی اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین سے کلام کرتا ہے۔ جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں کیمرے کے سامنے آ کر اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ یوں تو پاکستان میں پی ٹی وی ایک مدت سے کام کر رہا تھا۔ سچی بات ہے کہ اس کے اینکرز کی زبان بندی کر دی جاتی تھی۔ جب اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو‘ تو اس کی جو حالت ہوتی ہے‘ اس کی مثالیں پی ٹی وی پر اکثر دیکھنے میں آیا کرتیں۔ لئیق احمد‘ افتخار عارف ‘ نعیم بخاری اور اسی قبیل کے دوسرے اینکرز فنی اعتبار سے اعلیٰ پائے کے سپیکر اور فاضل لوگ تھے۔ اردو زبان کو صحیح طریقے سے بولنے میں انہیں سند سمجھا جاتا تھا۔مگر ہر زمانے کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ جب نجی چینلزشروع ہوئے‘ تب اس شعبے کے اینکرز اور مقررین موجود ہی نہیں تھے۔ نئے اینکرز اور پرفارمرز نجی اردو ٹی وی چینلز میں برسات کی طرح آئے اور اپنی اپنی حیثیت بناتے چلے گئے۔ محض چند برسوں میں ان اینکرز نے زبان کا جو حلیہ بگاڑا‘ اسے سن کر الفاظ و بیان کی حالت یہ ہوتی گئی کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ مذکر کو مونث کر دیا گیا۔ مونث مذکر ہو گئے۔ واحد جمع میں فرق نہ رہا۔ جس کا دل جیسے چاہا‘ ویسی زبان بول گیا۔ کامران خان بنیادی طور پر انگریزی میں لکھنے والے تھے۔ مگر جب ان کا پروگرام اردو میں شروع ہوا‘ تو اہل زبان میں سے ہونے کے باعث وہ بڑی حد تک صحیح اردو بولنے کی کوشش کرتے۔ تھوڑی بہت غلطی وہ بھی کر گزرتے ہیں۔ لیکن چھاتہ برداروں کی طرح قومی زبان کا حلیہ نہیں بگاڑتے۔ قارئین کو یاد ہو گا میں نے ایسے لوگوں کو چھاتہ بردار لکھنا شروع کیا تھا۔ زمانے کے انداز ہوتے ہیں۔ ناظرین بھی ملی جلی زبانیں سننے کے عادی ہو گئے۔ اب کوئی اینکر اردو کا صحیح جملہ بول جائے‘ تو لوگوں کی حیرت ان کے چہروں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
کامران خان کی مہربانی ہے کہ وہ انگریزی کے صحافی ہونے کے باوجود‘ جب اردو کے اینکر بن کر سامنے آئے‘ توان کے گھنے لب و لہجے اور گمراہ کن حد تک صحیح معلوم ہونے والی زبان‘ باقی اینکرز کے مقابلے میں بدرجہا بہتر تھی۔ جیسا کہ عرض کیا بنیادی طور پر کامران خان انگریزی زبان میں لکھنے والے تحقیقاتی رپورٹر تھے۔ ان کی Exclusiveخبریں تہلکہ مچا دیا کرتی تھیں۔ ان کے موضوعات سیاسی ہوا کرتے۔ لیکن کیا مجال ہے کہ وہ اپنا دامن آلودہ ہونے دیتے۔ صحافت میں مکمل غیرجانبداری ناممکن ہے۔ لیکن لکھنے والے کا ایک ہنر یہ بھی ہوتا ہے کہ حقائق کو تلاش کر کے بیان بھی کر دے اور کسی کو ڈنڈی مارنے کا گمان بھی نہ ہو۔ یہ انتہائی مشکل کام ‘کامران خان نے برسوں تک بڑے وقار کے ساتھ انجام دیا۔ آج کل پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے جو صحافی تحقیقاتی رپورٹنگ کے دعویدار ہیں‘ ان میں سے بیشتر کرپشن کے سکینڈل‘ ایجنسیوں کی فراہم کردہ رپورٹیں اور زیرتفتیش معاملات کو اپنی خصوصی رپورٹ قرار دے کر چھاپ یا ٹی وی پر پیش کر دیتے ہیں۔ اس طرح کی تحقیقاتی رپورٹیں عموماً مخالف فریقین کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہوتی ہیں۔ جو ظاہر ہے‘ ہر کوئی اپنے اپنے مقصد کی خاطر کھل کرمیڈیا کو فراہم کرتا ہے۔ کامران خان نے ہر طرح کی تحقیقاتی رپورٹیں شائع کی ہیں اور بعد میں ٹی وی پر سنائی بھی ہیں۔ لیکن ان میں مختلف لوگوں کے مفادات یا مقاصد کی خاطر ایسا نہیں کیا جاتا۔ وہ خبروں کو معروضی انداز میں پیش کرتے۔ ان کی نمایاں خصوصیت الزامات کی تکرار نہیں ہوتی تھی بلکہ واقعات کی اصل حقیقت معروضی انداز میں بیان کر دی جاتی۔ جس طرح بطور رپورٹر انہوں نے اپنی دھاک بٹھائی تھی‘ اسی طرح ٹیلیویژن پر آ کر ‘ وہ اس سے بھی زیادہ مقبول اور محترم ہوئے۔ کامران خان کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی لیڈر یا اعلیٰ عہدیدار کی کمزوری ڈھونڈ لیتے‘ تواسے ذاتی منفعت کے لئے استعمال کرنے سے حتیٰ الامکان گریز کرتے۔ تحقیقاتی رپورٹنگ میں مشکل یہ ہے کہ صحافی کو اپنا دامن بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو بااثر شخصیت بھی ان کے انکشافات کا ہدف بنتی ہے‘ اس کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جواب میں کامران خان کو موردالزام ٹھہرا کر‘ ان کے دامن پر بھی داغ لگایا جائے۔ لیکن ایسی مثالیں بہت کم ہیں ‘ جن میں کامران کو کسی الزام کی لپیٹ میں لایا جا سکے۔
جس دوسرے صحافی نے اخبار سے نکل کر ٹی وی چینل پر اپنا سکہ بٹھایا‘ وہ حامد میر ہیں۔ انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ ثابت قدم رہے اور جس کا سکینڈل بھی ہاتھ آیا‘ اسے عوام کے سامنے پیش کر کے رہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے سیاسی گروپ بھی ان کے بدترین مخالف ہیں اور خود ان کے پیشے سے وابستہ لوگ مختلف حیلے بہانوں سے انہیں نقصان پہنچانے کی کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ اردو کے پہلے صحافی ہیں‘ جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کے دوران بارہا جان خطرے میں ڈالی اور مرتے مرتے بچے۔ اسامہ بن لادن کی کہانی تو جدید تاریخ میںسب سے انوکھی اور پراسرار ہے۔ حامد کے پاس عہد حاضر کے بے شمار راز ہیں۔ لیکن وہ انہیں منظرعام پر نہیں لا تے۔ ظاہر ہے‘ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ لیکن وہ ایک بہادر باپ کے فرزند ہیں۔ کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور اختیار کریں گے۔ بہتر ہو گا کہ خطرناک واقعات قلم بند کر کے‘ محفوظ کر دیں اور وقت آنے پر انہیں عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے۔
کامران خان کو ''دنیا‘‘ میڈیا گروپ کا حصہ بن کر بہت سے خوشگوار تجربات ہوں گے۔ مثلاً یہاں نہ تو کوئی میاں عامر محمود کا کاروباری عزیز ہے‘ جس کی خاطر ایسی کہانیاں گھڑنا پڑیں‘ جن کی بنیاد پر بڑے بڑے کاروباری سکینڈلز سے استفادہ کیا جا سکے۔ نہ ہی میاں صاحب کو اس میں دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ اپنے کسی کاروبار کی خاطر‘ میڈیا گروپ سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ فرق کامران خان کو بہت جلد محسوس ہو جائے گا۔ غالباً اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر نئے میدان میں کامیابی سے نوازا ہے۔جب وہ اپنا ٹی وی چینل میدان میں لائے تو چند طے شدہ اصولوں کے تحت ‘بنیادی اخلاقی معیار کو پیش نظر رکھا۔ ٹی وی چینل پر مختلف تفریحی سرگرمیاں بھی دکھانا پڑتی ہیں۔ مگر ''دنیا‘‘ چینل کے پروگرام دیکھتے ہوئے ناظرین کو اپنے اہل خاندان سے نظریں نہیں چرانا پڑتیں۔ جب انہوں نے اپنا اخبار شروع کیا‘ تو اس میں بھی قومی مزاج و روایات کو ملحوظ رکھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا چینل اور اخبار دیکھتے ہی دیکھتے صف اول کے ادارے بن گئے۔ میرے سامنے بھاری سرمائے‘ جدیدترین مشینری اور مہنگے سٹاف کے ساتھ کئی تجربات کئے گئے‘ لیکن ''دنیا‘‘ چینل اور اخبار کی طرح تیزی سے مقبولیت حاصل نہ کر سکے۔ بلکہ بعض تو آج نزع کی حالت میں ہیں۔ میں میاں صاحب کے اس فیصلے کی تعریف کئے بغیر نہیں رہوں گا کہ جب کارکن صحافیوں کو ایک نئے چینل میں جا کر بیروز گاری کے خطرے سے دوچار ہونا پڑا‘ تو میاں صاحب نے بے کاری کی لپیٹ میں آئے ہوئے صحافیوں سے منہ نہ پھیرا بلکہ انہوں نے آگے بڑھ کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور وعدہ کیا کہ وہ حتی الامکان ''بول‘‘ کی وجہ سے بیروزگار ہونے والے کارکن صحافیوں کا ساتھ دیں گے۔ اپنے تجربے کی بنا پر میں کامران خان سے کہہ سکتا ہوں کہ دوسرے اداروں کی طرح یہاں کے کارکن صحافیوں کو ہمہ وقت اپنی ملازمت کا تحفظ نہیں کرنا پڑتا۔ آج کے دور میں سازش اور ریشہ دوانی معمول کی باتیں ہیں۔ لیکن ''دنیا‘‘ گروپ میں ایسی سرگرمیاں کبھی ثمرآور نہیں ہوتیں۔ یہاں صرف کام‘ کام اور کامران۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved