تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-06-2015

’’فنکاری‘‘

بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام اگر معیاری ہو اور عوام کو اِس حوالے سے کسی دشواری کا سامنا نہ ہو تو ذہن بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑنے لگتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ یا ابھرتے ہوئے معاشرے کا یہی ''المیہ‘‘ ہے۔ جب پانی بھرنے کی فکر لاحق ہو نہ بجلی جانے کا غم تو انسان فارغ بیٹھے بیٹھے تنگ آجاتا ہے اور ذہن میں عجیب و غریب آئیڈیاز کا میلہ لگ جاتا ہے۔ جب سوچنا ہی ٹھہرا تو کیسی حدود اور ہچکچاہٹ؟ جو کچھ بھی سوچنا ہے سوچیے اور پھر اس پر عمل بھی کر گزریے۔
برازیل میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ کچھ نہ کچھ انوکھا کر دکھانے کی لگن رکھنے والے چند طلباء کو خیال آیا کہ ساحل پر کچرا بہت جمع ہوگیا ہے تو کیوں نہ ساحل کو نیا انداز دے کر دنیا کو حیرت کے سمندر میں غرق کیا جائے۔ آئیڈیا سُوجھنے کی دیر تھی، ان طلباء نے کچرے سے فن پارہ بنانے کی تیاری شروع کردی۔ پلاسٹک کے بوتلوں اور تھیلیوں، ٹائر، کولڈ ڈرنک کے خالی کین، سی ڈیز اور دیگر ناکارہ اشیاء کی مدد سے ان طلباء نے ایک ''فن پارہ‘‘ تخلیق کیا اور ساحل کی ریت پر سجادیا۔
ہم نے جب یہ خبر مرزا تنقید بیگ کو سُنائی تو ان کی رگِ ظرافت پھڑک پھڑک کر تڑپنے لگی۔ رگِ ظرافت کو کنٹرول کرنے میں انہیں چند سیکنڈز لگے۔ حواس بحال ہونے پر مرزا نے کہا: ''ہر ترقی کرتا ہوا معاشرہ ہمیں اوٹ پٹانگ دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ انگور کھٹّے ہیں۔ انگور اگر میٹھے بھی ہوں تو ہمارے کس کام کے، اگر وہ ہمیں دنیا کے سامنے عجیب و غریب ثابت کریں؟ بات یہ ہے کہ جب کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو انسان یہ ثابت کرنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے کہ اب بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ یُوں لطیفے جنم لیتے ہیں۔ برازیل چونکہ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے اس لیے وہاں بھی لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوتے جارہے ہیں یعنی فراغت کا دورانیہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں اذہان طرح طرح کے اوٹ پٹانگ آئیڈیاز کا گودام بنتے جارہے ہیں۔ اور جب کوئی آئیڈیا ذہن میں جڑ پکڑلے تو پھر اسے عملی سطح پر آنے سے کون روک سکتا ہے؟ اور خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب لوگ ہر غیر منطقی بات یا چیز کو شاہکار قرار دینے پر راضی، بلکہ بضد ہوں!‘‘
ہم نے مرزا کو چھیڑنے (یعنی ایڑ لگانے) کی غرض سے کہا یہ تو اچھی بات ہے کہ ناکارہ چیزوں سے کوئی فن پارہ بنایا گیا ہے اور لوگوں کو پسند بھی آیا ہے۔ بس، اتنا سننے کی دیر تھی۔ مرزا پر شدتِ جذبات کا وہی دورہ پڑا جو فلم کے کلائمیکس میں محمد علی مرحوم پر پڑا کرتا تھا! شدتِ جذبات سے کانپتے ہوئے مرزا نے کہا: ''دنیا بھر میں یہ چلن عام ہے، بلکہ بیماری سی پھیل گئی ہے کہ ناکارہ اور لاحاصل چیزوں کی مدد سے فن پارہ بناکر داد سمیٹی جائے۔ ایسے کام کرنے والے بے وقوفوں سے کوئی تو پوچھے کہ جب بہت سی کارآمد اشیاء موجود ہیں تو ناکارہ چیزوں سے فن پارے بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ناکارہ اشیاء سے کام لیا جائے گا تو کارآمد اشیاء کہاں جائیں گی؟ کیا ان کا اچار ڈالا جائے گا؟‘‘
ہم نے کہا یہ تو اچھی بات ہے کہ جو چیزیں پھینکنے یا ری سائیکل کرنے کی ہیں ان سے کوئی کام کی چیز بنالی جائے۔ ایسی صورت میں زندگی کو زیادہ کارآمد بنانے کا خیال ذہن میں جڑ پکڑتا ہے۔
مرزا تنک کر بولے : ''یہی تو اصل مسئلہ ہے ترقی یافتہ اور ابھرتے ہوئے معاشروں کا۔ لوگوں کے پاس جب کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو اوٹ پٹانگ خیالات کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی کچرے سے فن پارے بناتا ہے اور کوئی عجیب و غریب شوق پالتا ہے۔ جسے دیکھیے وہ کچھ نہ کچھ ایسا کرنے کو بے تاب رہتا ہے جسے دیکھ کر دنیا والے دنگ رہ جائیں۔ اب یہی دیکھ لو کہ پرانے ٹائر اور کولڈ ڈرنک کے خالی کین کسی اور مقصد کے لیے ہوتے ہیں
اور انہیں ساحل پر فن پارہ بنانے میں استعمال کر ڈالا۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ پرانے ٹائر، پرانی بوتلیں کین وغیرہ بھلا کس کام کی؟ مرزا نے برازیلی طلباء کے ساتھ ساتھ ہماری عقل پر بھی لعن طعن کرتے ہوئے جواب دیا: ''ارے بھائی! یہ ساری اشیاء سیاسی تماشے کا حصہ ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں ان اشیاء کی مدد سے احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں۔ پرانے ٹائر میسر نہ ہوں یعنی انہیں جلاکر فضاء کو دھویں سے آلودہ نہ کیا جاسکے تو کئی 'اختلافی جماعتوں‘ کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ ہم نے (حسب عادت و روایت) مرزا سے اختلاف کرتے ہوئے عرض کیا کہ سوال سوچ کا ہے یعنی جن معاشروں میں ذہن کام کرتے ہیں وہاں لوگ مٹی کو بھی سونا بنا ڈالتے ہیں۔ مرزا نے چند لمحوں کا بریک لیا اور تازہ دم ہوکر پھر اختلافی دلائل کے تیر برسانا شروع کیا: ''اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ ناکارہ اشیاء سے کوئی کام کی چیز بنانا ترقی یافتہ یا ابھرتے ہوئے معاشروں کا وتیرہ ہے تو سلام ہے تمہاری عقل کو۔ سچ ہے بھائی کہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے 'فنکاروں‘ کی کمی نہیں جو مٹی کو سونے کے دام فروخت کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور سونے کو مٹی قرار دے کر ٹھکانے لگانے کا 'فن‘ بھی کچھ انہی پر ختم
ہے! مگر ہم انہیں کبھی داد نہیں دیتے۔ چراغ تلے اندھیرا بھلا اور کس حالت کو کہتے ہیں؟ دنیا بھر کے شوقینوں کو ہم سراہتے رہتے ہیں اور اپنے 'فنکاروں‘ کی ستائش کے لیے ہمارے منہ سے چار الفاظ نہیں نکلتے۔ ایسا 'قدر ناشناس‘ معاشرہ بھلا کیا ترقی کرے گا؟ برازیل میں چند طلباء نے ساحل پر کچرے سے کچھ بنا ڈالا تو لوگ تالیاں پیٹنے لگے۔ اور یہاں لوگ سمندر کی بھرائی کرکے ساحل کی توسیع کی صورت میں شاہکار تخلیق کرنے پر تُلے ہوئے ہیں تو کوئی برائے نام بھی توجہ نہیں دے رہا! اگر کبھی ہمارے 'فنکاروں‘ کی برازیل تک رسائی ہوئی اور انہوں نے ساحل ہی غائب کر ڈالا تب ان لوگوں کو پتا چلے گا کہ 'فنکاری‘ ہوتی کیا ہے!‘‘
بات تو مرزا نے درست کہی۔ ہمارے ایسے سیاسی شعبدہ بازوں کی کمی نہیں جو موقع ملنے پر مٹی کو بھی سونا قرار دے کر دام کھرے کرلیتے ہیں، تجوریاں بھر لیتے ہیں۔ اور یہی لوگ سونے کو مٹی بنانے پر آجائیں تو کس میں دم ہے کہ انہیں روکے؟ یہ لوگ ہر کارآمد چیز کو ناکارہ بناکر اپنی مرضی کے فن پارے تیار کرنے کے بعد اہل وطن کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور جب چاہیں انہی ''ناکارہ‘‘ چیزوں کو اہل وطن کی نظروں سے بچاکر اپنے وسائل میں شامل کرلیتے ہیں! یہ فن آنکھوں سے کاجل چُرانے کے ہنر سے زیادہ اہم اور قابلِ داد ہے۔ ہمارے طلباء و طالبات ابھی اس منزل تک نہیں پہنچے۔ یہ فنکاری تاحال سیاست کی دنیا کے استادوں تک محدود ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved