تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-06-2015

اے کاش!

غلطی ثمربار ہو سکتی ہے اور ناکامی بھی ، اگر کوئی سبق سیکھے ۔ سیکھنے کے لیے خود تنقیدی اور خود احتسابی کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ کاش کوئی یہ بات کپتان کو سمجھا سکے ۔
پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی ہوئی مگر کتنی ؟ یہ بھی کہ فقط تحریکِ انصاف کے امیدوار ہی مرتکب ہوئے یا دوسرے بھی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مداوا کیسے ہو ؟ بھارت سر پہ چڑھا آتا ہے ۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پہ تلا ہے ۔ایسے میں اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمٰن کا ہدف تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہے ۔ شریف خاندان میٹرو کے جشن میں مدہوش ہے ۔ میاں شہباز شریف کا بس چلتا تو اس موقع پر قومی تعطیل بلکہ تہوار کا اعلان کرتے۔ اس سے قطع نظر کہ صرف ایک روٹ پر اسّی ارب روپے صرف کرنے کا جواز موجود ہے یا نہیں ، ستم ظریفی اور ہے ۔ حکمران خاندان اور اس کے حواری ہمیشہ کی طرح یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ گویا منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات سرکاری خزانے کی بجائے میاں صاحبان نے عطیہ کیے ۔ آنے والی سات نسلوں کو اب ان کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لینا چاہیے ۔
بھٹو خاندان سے وہ متاثر ہیں ۔ آرزو ان کی یہ ہے کہ ''فخرِ ایشیا‘‘ کے بعد ، جس طرح ان کی نسلیں بروئے کار آئیں‘ شریف شہزادے اور شہزادیاں بھی قوم کی گردن پر سوار رہیں ۔ بھٹو ایوب خان کے مارشل لا کی پیدا وار تھے ؛اگرچہ بعد ازاں انہوں نے ایک آزاد سیاسی پارٹی تشکیل دی ۔ اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آئے۔ شریف خاندان کو تو فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے حکومت سونپی ۔ سب جانتے ہیں کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے وہ تب ناراض ہونا شروع ہوئے ، جب تیرہویں ترمیم کے تحت انہوں نے امیر المومنین بننے کی کوشش کی ۔اس ترمیم میں تجویز یہ کیا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم آئین کے جس حصے کو چاہیں ، معطل کر دیں ۔
خدا لگتی یہ ہے کہ پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی سے زیادہ بد نظمی رونما ہوئی۔ گیارہ ہزار حلقوں میں سے صرف 500کے بارے میں شکایات ہیں ۔ جیسا کہ عمران خاں نے پیشکش کی ہے ، ان میں دوبارہ الیکشن کرائے جا سکتے ہیں ۔ منظم دھاندلی کے شواہد قطعاً نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو سوات سمیت ان علاقوں میں تحریکِ انصاف ناکامی سے کیوں دوچار ہوتی ، 2013ء میں جو اس نے تسخیر کر لیے تھے ۔ جو لوگ اے این پی اور جمعیت علمائِ اسلام کے مزاج آشنا ہیں ، ہرگز وہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ من مانی کا کوئی موقعہ انہوں نے ہاتھ سے جانے دیاہوگا۔ اس لیے بھی کہ مرکزی حکومت کی پوری پشت پناہی انہیں حاصل ہے ۔
پورے ملک میں بالعموم اورصوبے میں بالخصوص کہ اقتدار پر وہ براجمان ہیں ، تحریکِ انصاف کا المیہ یہ ہے کہ وہ نا پختہ کار لوگ ہیں ۔ جوش و جذبے سے بھرے اور حکمت و تدبیر سے ناآشنا۔ 1970ء کی پیپلز پارٹی ایسی ہی تھی ۔ ہر کہیں اس کے کارکن اودھم مچایا کرتے ۔ ہمیشہ فساد پر آمادہ رہتے ۔ فرق یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹوا س کے سربراہ تھے ۔ ریاست اور سیاست کے امور سے خوب آشنا بلکہ شناور۔ منجھے ہوئے سیاسی لیڈروں کی ایک پوری کھیپ بھٹو کے ہمرکاب تھی ۔ پارٹی الیکشن کاسوال ہی نہ تھاکہ اپنے حامیوں کے لیے لیڈر نہیں ، وہ ایک دیوتا تھے ۔
عمران خان سیاسی حرکیات کا ادراک نہیں رکھتے ۔ شاید اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ مردم شناس نہیں ۔ ہمیشہ ہر آدمی پہ وہ اعتبار کر لیتے ہیں ؛حتیٰ کہ شاہ محمود قریشی پر ۔ بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود کسی بھی شخص پر ان کابھروسہ برقرار رہتا ہے ؛حتیٰ کہ سیف اللہ نیازی پر ۔ 2013ء کے الیکشن سے پہلے چندہ وصولی مہم میں بڑے پیمانے پر خرد برد ہوئی ۔ پارٹی کی اپنی کمیٹیوں نے خیانت کے واقعات کی نشان دہی کی ؛حتیٰ کہ ٹکٹوں کی فروخت میں مگر کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی نہ کی گئی ۔ رہی کارکنوں کی تربیت تو اس پر کبھی سوچا ہی نہ گیا ۔ الیکشن ہو چکے تو نعیم الحق نے آہ بھر کر کہا : تربیت کے بغیر کارکنوں کو ہم نے میدان میں اتار دیا۔ خود جناب نعیم الحق کو بھی ضرورت ہے۔
کامل کوئی نہیں ہوتا ۔ مشاورت ان کمیوں او رکمزوریوں کا مداوا کرتی ہے ، لیڈر میں جو پائی جاتی ہوں ۔ ایک مشکل یہ ہے کہ کپتان کے اردگرد خود غرض او رموقع پرست جمع ہیں ۔ دوسرا یہ کہ پارٹی کو منظم کرنے کی انہیں پروا ہی نہیں ۔ تحریکِ انصاف کے تین المیے ہیں ۔ 1: تنظیم۔ 2: تنظیم ۔ 3: تنظیم۔
جون 1996ء کی وہ سہ پہر ہمیشہ یاد رہے گی ،جب راولپنڈی پریس کلب میں عمران خاں مدعو کیے گئے ۔ اخبار نویسوں نے زچ کرنے کی کوشش کی تو اپنی آواز انہوں نے بلند کی اور یہ کہا ''میں ایک طوفان لے کر آئوں گا‘‘۔ یہی ان کی تمنا او ریہی ان کی حکمتِ عملی ہے ۔ اس آدمی کے خیال میں صرف ایک انسانی وصف کی اہمیت ہے ، جرات مندی ۔ اسے معلوم نہیں کہ حکمت کے بغیر بہادری فقط تہوّر ہوتی ہے ۔ تہوّر شیر اور چیتے میں پایا جاتاہے ، آدمی میں شجاعت ہوتی ہے ۔ حکمت آمیز بہادری ۔ ضرورت پڑنے پر وہ پلٹ آتاہے ۔ پسپا ہوتا، سنبھل کر پھر یلغار کرتا ہے ۔ معلوم نہیں میاں محمد نواز شریف کو شیر کیوں کہا جاتاہے ۔ شیر تو عمران خان ہے ۔ نواز شریف تو سرتاپا ایک تاجر ہیں ۔ اگر وہ اپنی خود نوشت لکھیں تو اس کا عنوان ''گوشوارہ‘‘ ہوسکتا ہے۔
1980ء میں لمبے تڑنگے رونالڈ ریگن صدر بنے تو محدود سیاسی تجربے کے حامل تھے۔ ان کی جوانی ہالی ووڈ میں گزری تھی ۔بہت ذہین بھی نہ تھے مگر امریکی معاشرے کے مزاج آشنا۔ وہ امریکی تاریخ کے مقبول ترین صدور میں شمار ہوئے ۔ نکسن ان سے کہیں زیادہ ذہین تھے۔ چین کے ساتھ تعلقات کا تاریخ ساز باب ان کے ایماپر کھلا ۔ مگر گاہے وہ حد سے زیادہ پُراعتماد ہو جاتے ۔ عمران خان کا مرض بھی یہی ہے ۔ خود کو وہ غیر معمولی سمجھتے ہیں ۔ آخری تجزیے میں کوئی غیر معمولی نہیں ہوتا۔ ہر صلاحیت اور ہر کامیابی پروردگار کی عطا ہے ۔ عاجزی سے محرومی امکانات سے محرومی ہے ۔ دعویٰ باطل ہے اور زعم برباد کرتاہے ۔خدا کے محبوب بندوں کے بارے میں کتاب یہ کہتی ہے ''غصہ پی جانے والے‘‘۔ ''دوسروں کی مدد کرتے ہیں ، خواہ وہ تنگ دست ہوں‘‘ ... اـور یہ کہ اپنے معاملات وہ باہم مشورے سے انجام دیتے ہیں ۔
میرا خیال یہ ہے کہ پختون خواکا بحران رفتہ رفتہ تحلیل ہو جائے گا۔ نیا الیکشن کسی کو سازگار نہیں ۔ ناتجربہ کاری اور کچّے پکّے فیصلوں کے باوجود صوبائی حکومت کو ناکام قرار نہیں دیاجا سکتا۔ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے برعکس پورے صوبے میں غنڈوں کی اکثریت جیلوں میں پڑی ہے ۔ خیر آباد سے مالم جبّہ تک ، ٹیکسی ڈرائیور اب پولیس والے کو بھتہ نہیں دیتا۔ پٹواری شاید ہر صبح مولانا فضل الرحمٰن یا اسفند یار کے اقتدار میں آنے کی دعا مانگتا ہے ۔ سکول اور ہسپتال پہلے سے بہتر ہیں ۔ نوجوانوں کی اکثریت اب بھی عمران خان کے ساتھ ہے۔ نیا الیکشن ہو ، تب بھی نتائج شاید زیادہ مختلف نہ ہوں گے ۔ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمٰن کا مسئلہ عدل اورقصاص نہیں ، انتقام ہے ۔ اپنی حماقتوں سے تحریکِ انصاف نے اے این پی اور جمعیت علمائِ اسلام کو زندہ کر دیا ۔ اپنی غلطیوں پر اسے غور کرنا چاہیے ۔
غلطی ثمربار ہو سکتی ہے اور ناکامی بھی ، اگر کوئی سبق سیکھے ۔ سیکھنے کے لیے خود تنقیدی اور خود احتسابی کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ کاش کوئی یہ بات کپتان کو سمجھا سکے ۔
پسِ تحریر:میٹرو کا افتتاح کرتے ہوئے راولپنڈی کے عوام سے وزیرِ اعظم نے پوچھا : حنیف عباسی کیوں ہارے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایفی ڈرین کے ایک مقدمے میں ملوّـث ہونے کی وجہ سے ، جس پر فیصلہ ابھی باقی ہے ۔ اگر وہ معاف کر سکیں تو عرض یہ ہے کہ حنیف عباسی او رشکیل اعوان کی وجہ سے نہیں ، میٹرو کا منصوبہ عمران خان اور شیخ رشید کی فتح کے سبب پروان چڑھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved