وزیراعظم پاکستان نے فرمایاکہ ''پاکستان کی تمام جنگیں مارشلائوں کے زمانے میں ہوئیں اور ترقی جمہوری دور میں ہوئی۔ تمام اداروں کو جمہوریت کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘ لیکن دوسری طرف چیف آف آرمی سٹاف فرماتے ہیں ''بھارتی بیانات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جارحیت کا جواب دینا جانتے ہیں۔‘‘ اگر آپ گزشتہ چند مہینوں کے بیانات کا جائزہ لیں‘ تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف‘ بھارت سے ٹکر لینے کے موڈ میں ہیں جبکہ وزیراعظم امن کا گیت گا رہے ہیں۔ یہ دونوں کام بھارت کی طرف سے بھی ہو رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو کام چیف آف آرمی سٹاف کرتے ہیں‘ بھارت میں مودی کابینہ کے وزیرانجام دیتے ہیں‘ جبکہ وزیراعظم مودی دونوں طرح کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور امن کی باتیں بھی کرتے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں امن کی باتیں کرنے کی ذمہ داری‘ وزیراعظم نے لے رکھی ہے اور بھارت کے جنگی عزائم کا جواب ‘چیف آف آرمی سٹاف دیتے ہیں۔ جنگ لڑنے کے لئے کونسا ملک کیسے حالات میں ہو‘ تو وہ اس نعرے کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے؟ اورکونسا ملک جنگ میں کودنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟ بظاہر بھارت آج بھی اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کم ازکم پاکستان کے ساتھ محاذآرائی کا خطرہ مول لے سکے‘جبکہ یہی بات پاکستان کے بارے میں کہنا ذرا مشکل ہے۔ جہاں تک فوجی طاقت کا سوال ہے‘ صرف ایک اعتبار سے تباہ کاری کی صلاحیت میں دونوں کم و بیش برابر ہیں‘ فرق صرف طاقت کا ہے ۔مثلاً بھارت کا سائز پاکستان کے مقابلے میں بڑا ہے۔ اس کی معیشت ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ عالمی برادری میں بھارت کے حامیوں کی تعداد ‘ہمارے مقابلے میں کافی زیادہ ہے‘ بلکہ سچ پوچھا جائے توچین کے سوا ہمارا کوئی قابل اعتماد ساتھی نہیں‘ جو جنگ میں ہماری مدد کر سکے۔ اس کے برعکس بھارت کی سفارتی پوزیشن کافی بہتر ہے۔
اگر جنگیں سفارتی طاقت سے لڑی جا سکتیں‘ تو ہمیں ہر حال میں اس سے گریز کرنا چاہیے۔ لیکن ہم ہر اس طاقت سے پنگے لیتے رہتے ہیں‘ جو کسی نہ کسی انداز میں ہماری مدد گار ہو سکتی ہے۔ سب سے پہلے افغانستان کو ہی دیکھ لیجئے۔ کئی مہینے ہو چکے‘افغانستان میں تبدیلیٔ اقتدار کے بعد‘ ہم نے نئی حکومت کے صدر اشرف غنی کے ساتھ تابڑ توڑ مذاکرات کئے اور خیال تھا کہ اب ہمارے درمیان غلطیاں اور تلخیاں ختم ہو جائیں گی لیکن اب پتہ چلا کہ یہ سب ہماری خوش فہمیاں تھیں۔ صدر اشرف غنی کے حامی ‘جو ان کی پاکستان پالیسی کے حامی تھے‘اب ان میں وہ گرم جوشی باقی نہیں رہی۔ افغانستان میں دہشت گردی کی جو کارروائیاں آج بھی ہو رہی ہیں‘افغانستان کے حکمران طبقوں کا ایک بڑا حصہ اس کا ذمہ دار‘ پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔عبداللہ عبداللہ ہوں یا سابق صدر حامد کرزئی‘ دونوں ہی بنیادی طور پر پاکستان کے مخالفوں میں شمار ہوتے ہیں۔میں نہیں کہہ سکتا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہو رہی ہیں‘ان میں پاکستان کا کوئی ایجنٹ ملوث ہے لیکن وہاں جو نئی صورت حال پیدا ہو رہی ہے‘ اس میں یہی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان دہشت گردوں کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کرزئی اور عبداللہ عبداللہ‘ بھارت کو یقین دہانیاںکرانے میں مصروف ہیں کہ منتخب افغان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں‘ پاکستان کر رہا ہے۔نئی افغان حکومت کے سربراہ‘ صدر اشرف غنی نے جس تیز رفتاری سے پاکستان کی طرف پیش قدمی کی اور اس کے دوران مثبت اقدامات ہوتے نظر آئے ‘اب ان میں سرد مہری آتی جا رہی ہے۔ میں زیادہ تو نہیں جانتا مگر جو کچھ پڑھنے میں آیا ہے‘ اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ صدر اشرف غنی کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے اور پاکستان مخالف عناصرمضبوط ہو رہے ہیں۔
برصغیر کے گردو نواح میں بھارت ‘تیزی سے پنجے گاڑ رہا ہے۔ خطے کے چاروں ملکوں نیپال‘ سری لنکا‘ بھوٹان اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت تیزی سے اپنے تعلقات میں اضافہ کر کے اپنے اتحادیوں کا ایک بلاک بنانے میں مصروف ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ‘سری لنکا کا دورہ کرنے والے تھے کہ عین اسی دن صفوراگوٹھ کراچی میں وحشیانہ قتل عام کا ایک سانحہ رونما ہوا‘ جس پر جنرل راحیل شریف کو اپنا دورہ فوراً ملتوی کر کے کراچی جانا پڑا۔ میں ان ساری باتوں کو اتفاقیہ سمجھنے کے لئے تیار ہوں مگر بھارتی ریشہ دوانیوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو کوئی بھی شک کیا جا سکتا ہے؟ جنرل صاحب تو خیر ‘ سری لنکا کے دورے پر جا چکے ہیں مگر اس کے نتائج دیکھنے کے بعد‘ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ ان کے دورے کی پرانی تاریخ اور صفوراگوٹھ کے قتل عام میں کوئی تعلق تھا؟یا محض ‘یہ میری بدگمانی ہے۔اگراقتصادی راہداری کے حوالے سے بھارتی وزراء کے بیانات کو دیکھا جائے‘ تو بھارتی حکمرانوں کے عزائم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتی حکومت کے ذمہ داراراکین باقاعدہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی‘ کو پاکستان کے خلاف ‘بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔
یہ کام وہ برسوں سے بلوچستان اور میران شاہ میں کرتے آرہے ہیں مگر وہ اس کا اقرار نہیں کرتے تھے۔یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت نے دہشت گردی کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔اقتصادی راہداری میں کسی طرح کے جارحانہ عزائم کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ دو پڑوسیوں کے درمیان تجارتی روابط کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو بھارت خود بھی اس راہداری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔جہاں تک چین کا تعلق ہے‘ اس کے عزائم میں کسی طرح کی جارحیت کا سراغ نہیں ملتا۔ چین اور بھارت کا جھگڑا‘ اروناچل پردیش میں ہے۔چین نے اس علاقے پر دعویٰ ضرور کر رکھا ہے لیکن بارہا اس نے تصادم سے گریز کیا۔ دوسری طرف بھارت بھی اس محاذ پر لڑائی سے ہمیشہ گریزاں رہا۔ اب بھی ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے کہ یہ دونوں طاقتیں‘ اس تنازعے پر جنگ کی طرف جائیں۔اقتصادی راہداری کا روٹ جہاں سے گزرتا ہے‘وہاں چین اور بھارت کے درمیان کوئی تنازع نہیں۔بہت عرصہ پہلے‘پاکستان اور چین سلک روڈ بنا کر اس راستے سے تجارت کر رہے ہیں۔ بھارت نے اس رابطے پر کبھی اعتراض نہیں کیا لیکن جب سے عظیم تجارتی راہداری کا منصوبہ سامنے آیا ہے اور چین نے پاکستان کو ساتھ ملا کر‘ میرین سلک روڈ منصوبے کا اعلان کیا ہے‘بھارت کو تکلیف شروع ہو گئی ہے۔ بھارتی حکمران اگر دوراندیشی سے کام لیں تو یہ منصوبہ ان کے مفاد میں بھی ہے۔سلک روڈ نہ صرف چین اور پاکستان کے لئے فائدہ مند ہے بلکہ خود بھارت کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ وہ اس بیلٹ کا حصہ بن کر‘ وسطی ایشیا تک سڑک کے راستے پہنچنے کا دیرینہ خواب پورا کر سکتا ہے۔اسی طرح پورے یورپ کے ساتھ بھی سڑک کے ذریعے‘ نئے تجارتی راستوں سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔چین نے نئی دنیا کے امن و خوشحالی کا جو خواب دیکھا ہے‘ میرین بیلٹ کی تکمیل ہی اس کی تعبیر کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
بھارتی حکمران دیو مالائی خوابوں کی دنیا میںخود کو جس بالا دستی کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں‘وہ انہیں کبھی نہیں مل سکتی۔ایسی خواہشوں میں کتنی بڑی بڑی سلطنتیں تباہ و برباد ہوئیں۔ گزشتہ نصف صدی میں سب سے بڑا سانحہ سوویت یونین کا ہوا‘ جب اس نے طاقت‘وسائل اور علاقوں پر تسلط حاصل کر کے بالادستی کا جو خواب دیکھا تھا‘ وہ چکنا چور ہو گیا۔ اس کے بعد حال میں امریکہ نے واحد سپر پاور کے گمان میں‘ جس طرح پیر پھیلانے کی کوشش کی‘ اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔چین نے اپنے تاریخی فکر و فلسفے کی روشنی میں‘قوموں کے درمیان مفاہمت کے ذریعے تعمیر و ترقی کے مشترکہ منصوبوں کا جو خاکہ پیش کیا ہے‘ اس میں سب کی بھلائی ہے۔جو کچھ ہم جنگوں میں تباہ کاریاں پھیلانے کے بعد دیکھنا چاہتے ہیں‘ باہمی تعاون کے راستے پر چل کر‘ اس سے بہتر دنیا تشکیل دے سکتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم تاریخی خوابوں سے نکل کر نئی دنیا کی تعمیر میں حصہ لیں۔ واحد قومی طاقت کی بالادستی کا صدیوں پرانا خواب بارہا ٹوٹا ہے اور اب بھی یہ خواب پورا ہونا دشوار ہے۔ بہتر ہے کہ ہم ایک نئے خواب کی آرزو کریں اور تعمیر و ترقی میں ایک دوسرے کی معاونت کر کے‘ایک نئی اور خوش حال دنیا تعمیر کریں۔ایسا ہو گا نہیں لیکن ہونے سے رک بھی نہیں سکے گا۔انجام آخر کار تعاون اور دوستی پر مشتمل‘ ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل ہے۔ہم جنگوں کے ذریعے امن تلاش کرتے کرتے‘بار بار خون میں نہائے ہیں‘ کیوں نہ ایک بار ‘دوسرے راستے کو آزمایا جائے؟ چھڑی بھی حاضر ہے اور گاجر بھی۔