تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     07-06-2015

ٹیکس وصولی کے لئے ’’ضرب ِ عضب‘‘

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ سال کا بجٹ قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرتے ہوئے اپنی پیٹھ خوب اچھی طرح ٹھونکی، اور گزشتہ سال کے حوالے سے اپنی کارکردگی بڑے فخریہ انداز میں پیش کی۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی طرف سے انہوں نے تیسرا بجٹ پیش کیا ہے، جہاں ان کی ہر بات کو آنکھ بند کر کے تسلیم نہیں کیا جا سکتا، وہاں اسے یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ریونیو کلیکشن کا ہدف دو بار تبدیل کیا گیا، لیکن پھر بھی کمند ٹوٹ گئی۔ کل مجموعی پیداوار میں اضافے کی جس شرح کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اُسے حاصل نہیں کیا جا سکا، اور خسارے کو جس حد میں رکھنے کا عہد کیا گیا تھا، اُسے بھی نبھایا نہیں جا سکا۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت کو سنبھالا نہیں جا سکا۔وزیر خزانہ نے اہداف نہ حاصل ہونے کی بہت سی وجوہ گنوائی تھیں، جن میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کی پیدا کردہ بے یقینی، اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اہداف حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہونے کو یکسر ناکامی کے مترادف قرار دینا مشکل ہے۔ اگر ایک طالب علم میٹرک کا امتحان دیتے ہوئے بورڈ میں اول آنے کو اپنا ہدف مقرر کرے، لیکن وہ دسویں، گیارہویں نمبر پر آئے، تو اسے ناکام کہہ کر دھتّا نہیں بتایا جا سکتا۔وزیر خزانہ کا معاملہ یہی ہے، جو کچھ انہوں نے حاصل کیا ہے، ان کے دعووں کے مقابلے میں کم سہی، لیکن گزشتہ کئی برسوں کو سامنے رکھا جائے تو بہرحال پیش رفت ہے۔ گزشتہ سات سال میں شرح نمو4.24فیصد اور خسارہ5فیصد کہاں ہو پایا تھا؟ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال میں وہ ترقی کی رفتار کو تیز کر سکیں گے کہ معیشت کو مطلوبہ استحکام نصیب ہو گیا ہے۔ اب خرچ کا تخمینہ4389ارب روپے ہے، جبکہ آمدنی کا عالم یہ ہے کہ 253 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کے باوجود1328 ارب کا خسارہ اٹھانا پڑے گا۔ اس کے لئے نوٹ چھاپنا ہوں گے یا نئے قرضے حاصل کئے جائیں گے،آمدنی کا 31فیصد قرضوں کی واپسی،25فیصد جملہ انتظامی اخراجات اور 16.6فیصد دفاع کے لئے مختص ہو گا۔ یوں سب سے بڑا حصہ قرضوں کی واپسی کی نذر ہو جائے گا۔
ماہرین معاشیات بجٹ کا جائزہ لے رہے ہیں اور اہل ِ سیاست بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے کیڑے یا ہیرے نکالنے میں مصروف ہیں۔ حکومت کے حامی مبارکباد دے رہے ہیں، تو مخالف اسے بیورو کریسی کا بجٹ قرار دے کر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں۔ میڈیا میں معاشیات کی م اور ع تک سے ناواقف خواتین و حضرات بھی اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ یہ بات سب پر واضح ہے کہ پاکستان ان حالوں میں ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں پہنچا، اور بلندی پر بھی پر ایک جست میں نہیں پہنچ سکتا۔ ایک سو منزلہ عمارت سے چھلانگ تو ایک لمحے میں لگا کر ہڈی پسلی تڑوائی جا سکتی ہے، لیکن اوپر جانے کے لئے وقت اور زور درکار ہوتا ہے۔ معیشت اور سیاست کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ دونوںکی ٹانگیں ایک دوسرے سے بندھی ہوئی ہیں۔ اگر ایک کو دھکّا دیا جائے تو دوسرا بھی توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔ پاکستانی معیشت کے جو بھی مفاسد ہیں، وہ سیاست کی پیداوار ہیں، اور جب تک ہم اپنی سیاست میں استحکام کو دوام نہیں دیں گے، معیشت کی کشتی ڈولتی رہے گی۔
ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستانی ریاست ان تمام شہریوں سے اپنا حصہ وصول نہیں کر پا رہی، جو لاکھوں، کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ یہاں کالی معیشت سفید کے مقابلے میں کئی گنا ہے، بالواسطہ ٹیکس لگائے جاتے ہیں، جو امیروں کے ساتھ ساتھ غریبوں کو بھی ادا کرنا پڑتے ہیں۔ غیر ملکی اور ملکی اداروں سے قرض حاصل کرنے کو کامیابی گردانا جاتا ہے۔ گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے لئے جاتے ہیں، اور غیر ترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی دوسروں کی جیبوں پر نظر رکھی جا تی ہے۔ یہ صورت ِ حال ہمیشہ کے لئے برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ مملکت کے تمام اداروں (سیاسی جماعتوں، عدالتوں اور میڈیا ہائوسز سمیت) کو یہ بات اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گی کہ ہر وہ شخص جس کی آمدنی قابل ٹیکس ہے، اُس سے بہر قیمت ٹیکس وصول کیا جائے۔ پاکستان اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود 18کروڑ سے زائد افراد کا وطن اور دُنیا کی چند بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے، لیکن یہاں ریاست کی حیثیت یتیم خانے کی سی بن کر رہ گئی ہے۔ اعداد و شمار میں الجھے بغیر اس بات پر پوری قوم کا اجماع ہونا چاہئے کہ جہاںآمدنی ہے، وہاں ریاست کا حصہ ہے، اور اُسے وصول کرنا اولین قومی ترجیح ہونا چاہئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کی سرکوبی کے لئے فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا کہ ریاست کے محاصل ادا نہ کرنے والے باغی، بلکہ غدار سمجھے جانے کے حق دار ہیں۔ دہشت گرد صرف وہی نہیں ہیں، جو ہتھیار اٹھاتے اور لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں، ریاست کو معاشی طور پر کھوکھلا کرنے والے بھی اسی زمرے میں شمار کئے جانے چاہئیں۔ بجٹ میں جتنے بھی خوش نما الفاظ کیوں نہ استعمال کر لئے جائیں، جب تک آمدنی میں اضافہ نہیں ہو گا، مُلک اپنا بوجھ خود نہیں اٹھائے گا، اُس وقت تک ہم اپنا سر اونچا کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں پھنسے ہوئوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے چلا جانا سنگین مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ وزیر خزانہ کو اپنی تمام خوش خیالیوں کے دوران یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ تیل کی قیمت میں کمی نے ہماری معیشت کو سنبھالا دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ''آسمانی مداخلت‘‘ (Divine intervention) کو مہلت سمجھ کر گھر درست کرنے کی بجائے، اس پر تکیہ کرنے کو وتیرہ بنا لینا آسمانی ہدایت کی خلاف ورزی نہیں ہے، تو پھر اور کیا ہے؟
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved