تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-06-2015

محمد بشیر کا بجٹ

ملک میں تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوگا‘ جب کوئی محمد بشیر کے لیے بجٹ بنائے گا۔ تفصیل کے ساتھ محمد بشیر کی کہانی‘ پھر کبھی۔
فرض کیجیے میاں محمد نوازشریف معاشی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کر لیں۔ فرض کیجیے وہ جرأت رندانہ سے کام لینے کا تہیہ کر گزریں؟ فرض کیجیے‘ وہ محمد بشیر کی زندگی کو بدل ڈالنے پر تل جائیں؟
محمد بشیر کوٹ ادو کے ایک گائوں کا مکین تھا‘ 2009ء کا سیلاب جسے بہا لے گیا۔ کچھ بھی باقی نہ بچا‘ ڈھور ڈنگر‘ گھر بار سب کچھ برباد ہو گیا۔ ہارون خواجہ اور ان کے ساتھیوں نے جو نجات بزنس فورم کے محاذ سے خدمت خلق کے منصوبوں پہ کام کر رہے تھے‘ ان لوگوں کے لیے جدید طرز کی ایک بستی تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا‘ بعدازاں سندھ میں ایک اور بھی۔ قصور اور لاہور کے دیہی علاقوں کے لیے چلتے پھرتے کچھ ہیلتھ یونٹ بھی انہوں نے بنائے۔ ایک ٹرالر‘ اس میں ڈاکٹر اور دوسرا عملہ‘ ایکسرے مشین اور دوسرے آلات‘ ایک دو چنگ چی رکشے‘ وغیرہ وغیرہ۔ منصوبے کی تفصیل بیان کرنے کا یہ محل نہیں‘ جس کا نام پاک پور رکھا گیا؛ البتہ جب وہ مکمل ہو چکا‘ تو محمد بشیر کی زندگی یکسر بدل گئی۔ اس گائوں کی گلیاں سیدھی ہیں۔ اس میں سو فیصد لوگ برسر روزگار ہیں۔ سیوریج کا نظام موجود ہے‘ بالکل اس طرح جیسے جدید آبادیوں میں ہوتا ہے۔ ایک عدد ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر بھی‘ ہنر اور فنون جہاں سکھائے جاتے ہیں۔ 500 گھروں کے لیے دس دکانوں پر مشتمل ڈھنگ کی ایک مارکیٹ ہے۔ مکان شمسی توانائی سے روشن ہیں اور واپڈا کی بجلی اس کے سوا ہے‘ کبھی کبھار جو جھلک دکھاتی ہے۔ اس گائوں کی تعمیر پر 50 کروڑ روپے صرف کیے گئے۔ سب کے سب اہل خیر کے عطیات سے۔
میاں محمد نوازشریف اگر اس طرح کے ایک ہزار دیہات تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیں؟ راولپنڈی اور لاہور کی میٹرو بس سے ایک تہائی رقم اس پر اٹھے گی۔ 50 ارب روپے۔ 2015-16ء کے بجٹ سے قبل‘ میاں صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ایٹمی دھماکے کی طرح‘ معاشی دھماکہ بھی وہ کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں وہی بات‘ جو 85ء سے وہ کہتے آئے ہیں ''میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا‘‘۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ روایتی بجٹ کی بنیاد پر ملک میں کوئی معاشی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا۔ عام آدمی کی حالت سدھر سکتی ہے اور نہ ایشیائی ٹائیگر بننے کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
بجٹ کی کل مالیت 43 سو ارب روپے واقع ہوئی ہے۔ درحقیقت اس سے کہیں کم۔ چند روز میں ایک چھوٹی سی خبر اخبارات میں چھپے گی۔ ترقیاتی بجٹ میں 15 فیصد کٹوتی کردی گئی ہے۔ مالی سال کا اختتام ہو گا تو پتہ چلے گا کہ آدھی رقوم خرچ ہی نہیں کی گئیں۔ جو خرچ کی جا چکی ہوں گی‘ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق براہ راست عام آدمی کی بہبود سے نہیں ہوگا۔ ملتان میں میٹرو بس منصوبہ مکمل ہو چکا ہوگا۔ اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوں گے۔ ایک شاندار افتتاحی تقریب برپا ہوگی۔ ایک بار پھر یوں لگے گا کہ ملک اقتصادی دلدل سے باہر نکل رہا ہے۔ کچھ وقت گزر جانے کے بعد ادراک ہوگا کہ کولہو کے بیل کی طرح ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔
ایک ہزار نہیں‘ حکومت پاکستان بیک وقت تین ہزار جدید دیہات کی تعمیر کا آغاز کر سکتی ہے۔ 150 ارب روپے ان کے لیے مختص کرنا ہوں گے۔ نتیجہ کیا ہوگا؟
اس سے پہلے ایک اور نکتہ۔ پاکستان کی معیشت کوئی باقاعدہ معیشت ہرگز نہیں۔ دو تہائی کالی ہے‘ کاغذ پر اس کا ا ندراج ہی نہیں۔ ملک کا بجٹ 4000 ارب کی بجائے 12000 ارب روپے کا ہو سکتا ہے اگر اس دو تہائی معیشت کو ریکارڈ پر لایا جائے۔ ملک کے سرمایے کا بہت بڑا حصہ سمندر پار پڑا ہے۔ خود وزیراعظم‘ وزیر خزانہ اور جناب آصف علی زرداری اس کارخیر میں سب سے آگے ہیں۔ جب وہ خود پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے موزوں نہیں سمجھتے تو دوسروں کو کیوں سمجھیں۔ ان میں سے اکثر اپنی جمع پونجی جائیداد کے کاروبار میں لگاتے ہیں۔ مکانات‘ پلاٹ‘ رہائشی اور کسی قدر زرعی زمینیں۔ پراپرٹی میں جو دلچسپی نہیں رکھتے‘ وہ بازار حصص کا رخ کرتے ہیں۔ ہرگز میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کر رہا کہ زیادہ تر دولت انہی شعبوں میں کھپی ہے اور عملاً ان پر کوئی ٹیکس نافذ نہیں۔
گزشتہ چند برس کے دوران ٹیکس وصولی کی شرح 8 فیصد سے بڑھ کر گیارہ فیصد ہو چکی۔ حقیقی اقتصادی نمو پچیس تیس فیصد درکار ہے۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ چھ ہزار ارب روپے کی وصولی ممکن ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر کالی کمائی ریکارڈ پر آ سکے تو تین گنا اضافہ بجٹ میں ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ راتوں رات نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک آدھ سال میں بھی یہ ممکن نہیں۔ کہیں سے مگر آغاز تو ہو۔
وہی روایتی بجٹ ہے‘ جو 68 برس سے بنتا آ رہا ہے۔ نتائج بھی ظاہر ہے کہ وہی ہوں گے۔ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا تیسرا ملک ہے۔ اس کی 55 فیصد برآمدات‘ 13 ملین ڈالر ٹیکسٹائل سے متعلق ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1971ء کو وجود میں آنے والا بنگلہ دیش اس میدان میں ہم سے آگے ہے۔ وہ 25 ملین ڈالر کا کپڑا برآمد کرتے ہیں۔
ٹیکسٹائل کے شعبے میں‘ قدرے زیادہ مہارت کے باوجود ہم بنگلہ دیش سے بھی پیچھے کیوں ہیں؟ تفصیل پھر کبھی عرض کروں گا۔ مختصراً اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حکومت صرف باتیں بناتی ہے۔ برآمدات کے فروغ سے عملاً اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ وزیراعظم کا دردِ سر ان کا اپنا کاروبار ہے‘ دوسری ترجیح ان کے لیے کاروباری دوست ہیں اور تیسری ملک کا کاروباری طبقہ‘ جس کے لیے بجٹ میں مراعات کا اعلان کیا گیا۔ محمد بشیر کا کہیں ذکر ہی نہیں۔
دنیا بھر میں تعمیرات کا شعبہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ملازمتوں کا بہت بڑا حصہ بھی اسی سے متعلق ہوتا ہے۔ شریف حکومت اسے کیوں اہمیت نہیں دیتی؟
جی ہاں‘ انہیں پروا ہی نہیں۔ کیوں ہو؟ ان کی پانچوں انگلیا ں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی ان سے بھی بدتر ہے۔ رہی تحریک انصاف تو کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
ملک میں تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوگا‘ جب کوئی محمد بشیر کے لیے بجٹ بنائے گا۔ تفصیل کے ساتھ محمد بشیر کی کہانی‘ پھر کبھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved