تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     07-06-2015

روح کا سودا

جب میں پس ماندہ علاقوں کے ایم این ایز اور وزراء کو بڑے شہروں میں شروع کیے گئے اربوں روپوں کے منصوبوں کی حمایت کرتے دیکھتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے ۔
ابھی بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث شروع ہوگی۔ آپ دیکھیں ان شہری منصوبوں کے حق میں اچھلنے والے‘ شہروں سے زیادہ دیہاتی علاقوں کے ایم این ایز ہوں گے اور آپ کو ان منصوبوں کے ایسے ایسے فوائد بتائیں گے کہ وہ بھی حیران رہ جائیں گے جنہوں نے وہ منصوبے شروع کیے تھے۔ لیہ، چکوال، جہلم، سرگودھا، کرک، جھل مگسی، خانیوال، گھوٹکی ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، منڈی بہائو الدین کے ایم این ایز پوری قوت سے قومی اسمبلی میں کہیں گے کہ جناب پنجاب کو اس سال این ایف سی میں سے جو نو سو ارب روپے ملیں گے ان میں سے آپ ایک سو ساٹھ ارب روپے کی میٹرو ٹرین بنا لیں ۔ ہمارے اضلاع اور لوگوں کی خیر ہے۔ لاہور میں بغیر سگنل سڑکوں کے لیے اربوں رکھ لیں تاکہ آپ دس منٹ جلدی گھر پہنچ جائیں ، ہر بڑے شہر میں میٹرو کے لیے پچاس ارب روپے رکھ لیں ۔ کلمہ چوک جلدی مکمل کرنے پر پچاس لاکھ روپے انعام دے دیں یا پھر پانچ کروڑ روپے پنڈی میں انعام دے دیں‘ سب قابل تعریف کارنامے ہیں۔
حیرت ہے کہ یہ سب ایم این ایز کس منہ سے ان منصوبوں کا دفاع کرتے ہیں جن کا ستر فیصد سے زائد آبادی سے کوئی واسطہ ہی نہیں ۔ یہ جن لوگوں سے ووٹ لے کر اسلام آباد یا لاہور کی اسمبلی میں بیٹھتے ہیں کیا انہیں اندازہ ہے کہ وہ کس انداز میں زندگی گزارتے ہیں؟ کیا پاکستان اسلام آباد سے شروع ہوکر لاہور پر ختم ہوجاتا ہے؟ چین پاکستان اکانومک کوریڈور پر جو بڑا اعتراض بن سکتا ہے‘ یہی ہے کہ وہ پشاور سے اسلام آباد کیا کرنے آرہی ہے اور پھر یہاں سے لاہور کیا کرنے جائے گی؟ ڈیرہ اسماعیل خان سے اس کا راستہ کیوں موڑ دیا گیا ہے؟ یہ میانوالی، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان تک کیوں نہیں گئی؟ مجال ہے آپ کو میانوالی، لیہ، بھکر، مظفرگڑھ یا ڈیرہ غازی کے کسی ایم این اے کی طرف سے کوئی آواز سننے کو ملے۔ لیہ کے ایم این ایز کو تو شاید پتہ ہی نہ ہو کہ یہ اکنامک کوریڈور کس بلا کا نام ہے۔
اور سنیں ۔ میٹرو بس کے افتتاح کے موقع پر میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ اگر پنڈی کے لوگوں نے حنیف عباسی کو جتوایا ہوتا تو آج وہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان ہیلی کاپٹر سروس شروع کرتے جو شہریوں کو روزانہ ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچاتی۔ غور فرمائیں یہ بات ملک کے وزیراعظم فرما رہے ہیں ۔ اسی دن خبر چھپی ہے کہ جب سے میاں صاحب وزیراعظم بنے ہیں پندرہ لاکھ نئے تعلیم یافتہ بیروزگاروں کا اضافہ ہوا ہے۔ ملک کا ایک ایک شہری ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ۔ ایک ایسے ملک میں ہیلی کاپٹر سروس کی بڑھک مارنا کیا مناسب ہے جہاں ساٹھ فیصد لوگ روزانہ دو سو روپے کماتے ہیں اور قرضوں کے ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں؟ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے‘ دنیا کے کسی ملک میں کسی حکومت نے دو جڑواں شہروں کے شہریوں کو ہیلی کاپٹر کی سروس مہیا نہیں کی۔
میاں صاحب کے بیان سے دو تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلے تو شکر ہے کہ حنیف عباسی ہار گئے وگرنہ ایک درجن نئے ہیلی کاپٹر خریدے جاتے جو سارا دن شہریوں کو پنڈی اسلام آباد کی فضائوں کی سیر کراتے رہتے۔ میٹرو کا کرایہ بیس روپے ہے تو ہیلی کاپٹر کا کرایہ شاید چالیس روپے ہوتا۔ باقی اربوں روپے کی سبسڈی پورے ملک کے عوام کی جیب سے جاتی۔ میٹرو کی طرح ہیلی کاپٹر سروس چلانے کا ٹھیکہ یقینا ایک ترکی کمپنی کو ملتا جسے ہر سال دس ارب روپے سبسڈی ملتی جو صاف ظاہر ہے ترکی ہی جاتی۔ ترکی سے یہ اربوں کہاں جاتے‘ اس بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ سیف الرحمن نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اس نے بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف عالمی تحقیقات کر کے ہمیں یہ بتادیا تھا کہ بیرون ملک جعلی کمپنیاں کیسے بنتی ہیں اور کیسے پاکستان سے پیسہ باہر جاتا ہے۔ زرداری کی طرح پکڑے جانے کا کوئی خطرہ ہی نہیں رہا۔ خیر اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ کے اعترافات تو نیب بھول گیاہے‘ بلکہ اب نیب کو میاں نواز شریف نے خصوصی طور پر اکتالیس کروڑ روپے کا ''پرفارمنس بونس‘‘ دیا ہے۔ نیب اور پرفارمنس اور اوپر سے بونس ؟ شاید وہ سب افسران مل کر میاں صاحب اور دیگران کو مقدمات سے کلین چٹ دے رہے ہیں۔
ایک طرف ہیلی کاپٹر سروس شروع ہوتے ہوتے رہ گئی تو دوسری طرف ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں کو کس بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سال میاں صاحب نے ایک کروڑ روپے کھانے پینے پر خرچ کیے۔ پچھلے سال بائیس کروڑ روپے کی نئی بلٹ پروف مرسڈیز خریدی گئی تو اس سال ان کے قافلے کے لیے پندرہ کروڑ سے دس لینڈ کروزر خریدی گئی ہیں۔ وزیر ہائوسنگ کے لیے 43 لاکھ روپے کی گاڑی خریدی گئی، وزیرمواصلات اور ان کے ڈپٹی وزیر کے لیے 76 لاکھ روپے کی دو نئی گاڑیاں خریدی گئیں۔ ستر لاکھ روپے کی دو گاڑیاں وزیرمذہبی امور کے لیے خریدی گئی ہیں ۔ بیس ایم این ایز کے لیے بیس نئی گاڑیاں خرید ی گئیں۔ سینیٹرز کے لیے ٹریولنگ الائونس کم پڑگیا تو اس کے لیے مزید پانچ کروڑ روپے سینیٹرز کو ادا کیے گئے اور وہ سارا
سال دنیا بھر کے سیر سپاٹے کرتے رہے۔ شوگر ملز مالکان کو ساڑھے چار ارب روپے کی رقم سبسڈی کے نام پر دی گئی۔ شریف خاندان کی اپنی شوگر ملیں ہیں۔ سب فائدہ گھر میں جارہا ہے۔ پچھلے سال کیپٹن صفدر کو بارہ ارب روپے کا فنڈ دیا گیا کہ وہ ایک کمیٹی بنا کر ایم این ایز میں وہ فنڈز ترقی کے نام پر بانٹیں۔ اس سال کیپٹن صفدر کی کمیٹی کے لیے یہ بجٹ بارہ ارب سے بڑھا کر بیس ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ یوں ایم این ایز کی چاندی ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ اور میڈیا ان ترقیاتی فنڈز کو ایم این ایز کو دینے کے خلاف لڑتا رہا، فیصلہ بھی آیا کہ یہ فنڈز ایم این ایز استعمال نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی بیس ارب روپے نئے سال میں ملیں گے۔ جو حشر ان ترقیاتی فنڈز کا ایم این ایز کرتے ہیں وہ سب جانتے ہیں ۔ یہ وہ رشوت ہے جو ہماری جیبوں سے نکال کر ان ایم این ایز کو دی جاتی ہے۔ اب کل 32 ارب روپے ایم این ایز لیں گے۔ اگر 32 ارب روپے ایم این ایز لے لیتے ہیں تو پھر بلدیاتی ادارے کیا کریں گے؟ انہیں کیا ملے گا؟ وہ کیا کام کریں گے؟ یوں بلدیاتی اداروں کو ناکام بنانے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ایم این ایز گلی محلے میں ہی کام کرائیں گے اور اپنا کمیشن لے کر عیاشی۔
مجھے سمجھائیں یہ ایم این ایز کس طرح صدر ممنون حسین کی سکیورٹی کے نام پر 37 کروڑ روپے کے منگوائے گئے آلات اور ان پر 55 کروڑ روپے کی ڈیوٹی کی عوام کی جیب سے ادائیگی کا دفاع کریں گے۔ کیا صدر ممنون حسین کی سکیورٹی پر ایک سال میں ایک ارب روپے خرچ ہونا چاہیے؟ مگر ہمارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے‘ سب ہورہا ہے۔ جنرل مشرف کے خلاف بغاوت مقدمے میں حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیلوں کو اب تک ڈھائی کروڑ روپے کی ادائیگی ہوچکی ہے۔ وکیلوں سے یاد آیا میاں صاحب نے چپکے سے پاکستان بار کونسل کو عوام کے ٹیکسوں سے دس کروڑ روپے عطیہ کے طور پر دیے ہیں۔ یہ وکیل انہی عوام سے بھاری فیس لیتے ہیں اور پھر عوام کے پیسوں سے ہر سال ہر حکومت سے دس دس کروڑ روپے بھی لے لیتے ہیں۔ جب جنرل مشرف نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی ہمدردیاں خریدنے کے لیے انہیں دس کروڑ روپے عنایت فرمائے تھے تو میاں صاحب سخت ناراض ہوئے تھے کہ کیوں وکیل اپنی قیمت لگوا رہے ہیں۔ اب خود وہی کام کر رہے ہیں۔
دوسری طرف اگلے تین سالوں میں تیس ہزار ٹیوب ویل کو سولر سسٹم پر تبدیل کیا جائے گا اور ایک پر دس سے بارہ لاکھ روپے خرچہ آئے گا۔ اب کسان بارہ لاکھ روپے کا قرضہ بینک سے حاصل کرے ۔ اس کا سود حکومت ادا کرے گی ۔ اچھا فیصلہ ہے لیکن یہ بتائیں تین لاکھ ایسے ٹیوب ویل سولر سسٹم پر حکومت مفت میں کیوں نہیں کر سکتی؟ اگر 32 ارب ایم این ایز کو نہ دیے جائیں تو ان سے ملک بھر میں سولر ٹیوب ویل لگا کر کسانوں کو دیے جا سکتے ہیں۔
مجھے تو حیرت اور دکھ اس بات کا ہے کہ اگلے ہفتے بجٹ پر بحث شروع ہوگی تو دیکھیے گا‘ پس ماندہ علاقوں کے ایم این ایز کیسے اچھل اچھل کر میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کی خوشنودی کے لیے ایسے منصوبوں کا دفاع کریں گے ۔ایسے منصوبے جن کا دور دور تک ان کے اپنے علاقوں اور ووٹرز سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یاد رکھیں ہمارے ہاں اب ضمیر کے نہیں‘ روحوں کے سودے ہورہے ہیں۔
روح کے ذکر سے کرسٹوفر مارلو کا ڈرامہ ڈاکٹر فائوسٹس یاد آتا ہے۔ کیسے ایک دن ڈاکٹر نے اپنی روح کا سودا ایک فرشتے لوسیفر سے کر لیا تھا کہ وہ اس کو زندگی بھر عیاشی کرائے گا اور مرنے کے وقت اپنی روح اس کے حوالے کرے گا۔ پھر لوسیفر جو چاہے اس کی روح کا حشر نشر کرے لیکن جب تک وہ زندہ ہے اسے خوب عیاشی کرائے۔ یہ کہانی پھر کبھی سہی جب لوسیفر معاہدے کے مطابق بستر مرگ پر لیٹے ڈاکٹر فائوسٹس کی روح لینے پہنچا تو پھر کیا ہوا تھا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved