تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-06-2015

ایگزیکٹ سے چار قدم آگے والی فاصلاتی تعلیم

کوئی وقت تھا جب عزت دار کے لیے''عزت‘‘ دنیا کی ہر چیز سے قیمتی اور بڑھ کر تھی مگر پھر دیگر بے شمار چیزوں کی طرح عزت کا مفہوم بھی تبدیل ہو گیا اور اس کی قدرو قیمت بھی۔ ہیرا منڈی کی ایک طوائف نے کسی فلم میں کام کیا۔ کافی وقت بھی ضائع ہوا اور معاوضہ بھی کوئی خاص وصول نہ ہوا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس طوائف کے لیے فلم میں کام کرنے کا تجربہ کوئی خاص فائدہ مند یا خوشگوار ثابت نہ ہوا۔ سو اس نے دوبارہ اپنے کاروبار کا وہیں سے آغاز کیا جہاں ختم کیا تھا۔ اب اس پر ہیروئن کا ٹھپہ لگ چکا تھا اور Goodwillمیں خاصا اضافہ ہو چکا تھا۔ تاہم اب وہ دوبارہ فلم میں کام کرنے پر قطعاً تیار نہ تھی۔ اس کام کے جتنے دوررس فوائد تھے وہ اب اسے حاصل ہو چکے تھے۔ فلم نگری میں مزید خوار ہونے کے لیے وہ کسی صورت راضی نہ تھی۔ چار چھ ماہ کے بعد ایک اور پروڈیوسر اس کے پاس گیا اور اسے فلم میں کام کرنے کی آفر کی۔ اس کی سرپرست یعنی نائکہ نے پروڈیوسر کی بات سن کر منہ بنایا اور کہنے لگی: بے بی اب کسی فلم ولم میں کام نہیں کرے گی۔ ہمیں اللہ یہیں عزت سے روٹی دے رہا ہے‘ ہم فلم سٹوڈیو وغیرہ میں جا کر بے عزت ہونے پر قطعاً تیار نہیں ہیں۔
اب عزت وغیرہ کی اہمیت دولت‘ شہرت (خواہ منفی ہی کیوں نہ)‘ دنیاوی فوائد اور موج میلے کے مقابلے میں کافی کم ہو گئی ہے اور عزت سے زیادہ چیزوں نے معاشرے میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ لوگ بدنام ہوتے ہیں‘ بے عزت ہوتے ہیں‘ بے توقیر کیے جاتے ہیں مگر وہ اس بے توقیری ‘ بے عزتی اور بدنامی کے باوجود وجہ بدنامی سے چمٹے رہتے ہیں کہ ان کے نزدیک عزت بے عزتی اللہ کے اختیار میں ہے اور اگر انسان کے مقدر میں ذلت لکھی ہوئی ہے تو اب بھلا اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ صبر کیا جائے اور حاسدوں کے شوروغوغا پر جذباتی ہو کر مستعفی وغیرہ ہونے کی حماقت کے بجائے بے عزتی پر صبر کیا جائے اورسر نیچا کر کے اپنے کام سے کام رکھا جائے‘ کہ ملک عزیز میں عزت وغیرہ مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہیں اور اگر جیب میں پیسے ہوں تو یہ کام مزید سہولت سے کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت ملتان شہر کے پڑھے لکھے حلقوں میں‘ اخبارات میں‘ سرکاری دفاتر میں‘ حتیٰ کہ مختلف ایجنسیوں کے کمروں میں جامعہ زکریا کے وائس چانسلر اور یونیورسٹی میں چلنے والے فاصلاتی تعلیم کے پروگرام یعنی Distance Educationمیں ہونے والی بے ضابطگیوں اور ان بے ضابطگیوں کے مدارالمہام فاصلاتی تعلیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسحاق فانی کے بارے میں وہ وہ باتیں ہو رہی ہیں کہ الامان‘ لیکن مجال ہے جو کسی کان پر جوں رینگے ۔ یونیورسٹی کے چانسلر‘ صوبائی حکومت‘ اس کے متعلقہ محکمے اور ذمہ داران کے بارے میں پہلے میرا خیال تھا کہ انہوں نے دھنیا پی رکھا ہے مگر گزشتہ دو چارتجربات کے بعد میرا یہ خیال تبدیل ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اب یہ سب لوگ دھنیے کے بجائے بھنگ کا استعمال کر رہے ہیں۔ کم از کم اس حوالے سے پنجاب اور سندھ ایک پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آتے ہیں۔
جامعہ زکریا کے فاصلاتی تعلیم کے پروگرام یعنی ڈسٹنس ایجوکیشن کے تحت دی جانے والی تعلیم اور بانٹی جانے والی ڈگریوں نے تعلیم اور ڈگریوں کو جس طرح اور جتنا بے توقیر کیا ہے اس کے سامنے ایگزیکٹ کا سکینڈل کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر کیونکہ رئیس جامعہ زکریا نے کوئی ٹیلی ویژن چینل کھولنے کا اعلان نہیں کیا اور اوپر سے وہ خواجہ خیر الدین (گزشتہ کالم میں کمپوزر بھائی جان نے خواجہ منیر الدین لکھ دیا تھا) جیسے مخلص مسلم لیگ رہنما کے فرزند ہیں اور اس حوالے سے میاں صاحبان کے منظور نظر ہیں لہٰذا سرکار کی اس سارے معاملے پر نظر ہی نہیں پڑ رہی اور رئیس جامعہ اپنے منظور نظر ڈاکٹر اسحاق فانی کے ذریعے چیتھڑے نما ڈگریاں تقسیم کیے جا رہے ہیں اور جامعہ کے اساتذہ‘ اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں اور ان کے منتخب نمائندوں کے احتجاج‘ تحریری عرضداشتوں اور زبانی شکایتوں کے باوجود ہر دو اشخاص چمڑے کے سکے چلائے جا رہے ہیں اور تعلیم کو ٹکے ٹوکری کر کے رکھ دیا ہے۔
اس سلسلے میں اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری نے پانچ صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی خط گورنر‘ جو بلحاظ عہدہ جامعہ کے چانسلر ہیں‘ کو دو جنوری 2015کو‘ لکھا۔ جامعہ کے ایک درجن کے قریب اساتذہ نے رئیس جامعہ یعنی وائس چانسلر کو خط لکھا۔ آٹھ عدد کاغذ ایسے لگائے جن میں ڈاکٹر فانی کے بینک اکائونٹ‘ پلاٹوں کی ٹرانسفر اور قواعد کے خلاف داخلوں کے ثبوت فراہم کئے مگر سب کچھ بیکار گیا۔ ملتان کے اخبارات نے اس پر خبریں دیں مگر ملتان کے اخبارات ساہیوال سے آگے نہیں جاتے اور تخت لاہور پر براجمان حکمران شاید لاہور کے علاوہ اور کسی شہر کا اخبار نہیں پڑھتے‘ لہٰذا ساری خبریں‘ شور شرابا ‘ درخواستیں‘ شکایتیں اور عرضداشتیں کھوہ کھاتے گئیں۔ سرکار کا سارا نزلہ ایگزیکٹ پر گر رہا ہے۔ اور ملتان میں ''جعلی ڈگریوں‘‘ کا بازار گرم ہے۔
جعلی ڈگری کیا ہے؟۔ جعلی ڈگری صرف یہ نہیں کہ خود کسی پریس سے چھپوا کر دی جائے تو ڈگری جعلی ہے یا ادارہ جاری نہ کرے اور الماری سے چوری کر کے اس پر کسی کا نام لکھ دیا جائے تو ڈگری جعلی ہوتی ہے‘ ہر وہ ڈگری جعلی ہے جو طالب علم بغیر پڑھے حاصل کرے یا تعلیمی ادارہ قواعد و ضوابط پورے کیے بغیر جاری کرے۔ کوئی تعلیمی ادارہ خواہ اصلی ڈگری ہی کیوں نہ جاری کرے‘ اگر وہ تعلیم دیے بغیر جاری کی جاتی ہے تو اس ڈگری کی اخلاقی حیثیت جعلی ڈگری کے برابر ہے۔ ایسی ڈگری میں‘ چوری کی گئی اصلی ڈگری میں ‘ خود ساختہ چھپوائی گئی ڈگری میں اور ایگزیکٹ کی جاری کردہ ڈگری میں رتی برابر فرق نہیں ہے۔
جامعہ زکریا میں فی الوقت ساٹھ سے زائد ریگولر شعبہ جات کام کر رہے ہیں مگر فاصلاتی تعلیم کے زیر اہتمام اس وقت 80کے قریب مختلف پروگرام چل رہے ہیں جو ڈپلومہ‘ ماسٹرز‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی پر مشتمل ہیں مگر ان میں سے نہ صرف یہ کہ سات کے علاوہ دیگر تمام پروگرام اپنی متعلقہ انتظامی باڈی سے کبھی منظور نہیں کروائے گئے بلکہ ان کے کورس کی بھی منظوری نہیں لی گئی۔اس سلسلے میں جامعہ میں متعلقہ انتظامیہ باڈیز مثلاً بورڈ آف سٹڈیز‘ بورڈ آف فیکلٹیز ‘ بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیز ‘ اکیڈمک کونسل ‘ ڈینز کمیٹی‘ سینٹ اور سنڈیکیٹ موجود ہیں مگر ڈسٹنس ایجوکیشن کے ستر کے لگ بھگ پروگرام ایسی کسی بھی باڈی سے منظوری لیے بغیر چلائے جا رہے ہیں۔ وائس چانسلر کے پاس اس سلسلے میں منظوری دینے کے لیے یونیورسٹی ایکٹ کا سیکشن (C) ،16موجود ہے کہ وائس چانسلر اپنے اس صوابدیدی اختیار کو‘ جس کی حقیقی روح یہ تھی کہ بعض مالی معاملات میں ایمرجنسی کی صورت‘ کبھی کبھار استعمال کر لیں مگر وائس چانسلر نے اپنے اس اختیار کو اندھے کی لاٹھی کی طرح گھمایا اور میرٹ ‘ قواعد و ضوابط ‘ قانون‘ اخلاقیات اور شفافیت کا فالودہ بنا کر رکھ دیا اور پھر اس فالودے کی ریڑھی لگا لی ۔ اس ریڑھی پر اس فالودے کے علاوہ بھی ہر قسم کا مال‘ بشمول نوکریاں‘ ٹھیکے‘ کینٹین اور ڈگریاں وغیرہ برائے فروخت ہیں۔
فاصلاتی نظام تعلیم کی بنیادی روح یہ تھی کہ جو لوگ روایتی تعلیم حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں نہیں آ سکتے‘ انہیں اس ذریعہ تعلیم سے مستفید کرتے ہوئے علم فراہم کیا جائے‘ مگر جامعہ زکریا کے فاصلاتی پروگرام میں ''فاصلہ'' نامی کوئی چیز نہیں۔ آپ ہفتہ اور اتوار کے روز یونیورسٹی آئیں۔یونیورسٹی کے نام پر ادھر ادھر سے پکڑے گئے لوگوں سے تعلیم حاصل کریں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اس سلسلے میں جتنے کریڈٹ آورز کی پابندی لگاتا ہے وہ ان دو دنوں میں اول تو پورے ہی نہیں ہو سکتے اور اگر کرنے کی کوشش کی جائے تو آدھے طالب علم کلاس کی طوالت کے باعث وفات پا جائیں۔ ہفتے کے دو دن کلاس میں اصل مذاق یہ ہے کہ اگر آپ کی حاضریاں کم ہوں تو آپ عین امتحان والے دن غیر حاضر ہونے کا جرمانہ ادا کر کے کمرہ امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں۔ جرمانہ دینے سے آپ کو غیر حاضری والے دنوں کے دوران دی گئی تعلیم کا غائبانہ حصول ممکن ہو جائے گا۔ یعنی ہفتے میں دو دن تعلیم دی جائے اور آپ اس دوران جتنی مرضی غیر حاضریاں کر لیں۔ جرمانہ دیں اور کمرہ امتحان میں بیٹھ جائیں۔ اسے آپ ڈسٹنس ایجوکیشن کے بجائے اگر Distance From Educationکا نام دیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ یہ فاصلاتی تعلیم نہیں بلکہ تعلیم سے فاصلہ ہے۔
(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved