تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-06-2015

پروفیسر احمد رفیق اختر

اصولاًکالم مضمون نگار کی ذات کے گرد نہیں گھومنا چاہیے لیکن ہوتا برعکس ہے۔ یہ لکھنے والے کی فکر، خواہشات اور تجربات کی عکاسی کرتا اور یوں ذاتی زندگی کا پرتو بن کے رہ جاتاہے ۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو میرے ایک محترم بہی خواہ نے سمجھایا: پروفیسر صاحب کا ذکر کم کیا کرو وگرنہ تم چھوٹے ''ناتمام‘‘ بن کے رہ جائو گے۔ اپنی الگ شناخت حاصل نہ کر پائو گے۔ ہوا اس کے برعکس اور یہ ایک دلچسپ کہانی ہے ۔
کالم نگاری کیا ہے ؟ یہ ایک خاص انداز میں ، بڑی کاٹ اور زورِ بیاں کے ساتھ سیاست پر رائے زنی کا نام ہے لیکن یہاں مزاح نگاروں کی ایک کھیپ بھی موجود ہے ۔بعض عمدہ لکھتے ، بعض بات سے بات نکالتے اور یوں اپنے قیمتی خیالات سے قوم کو محظوظ فرماتے ہیں۔ کوئی صاحب سوشلسٹ انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ وہ ملالہ یوسف زئی کے معاملے میں بھی کارل مارکس کو ڈھونڈ لاتے ہیں ۔ بعض ایک خاص شعبے مثلاً معیشت تک محدود رہتے ہیں ۔بڑے دانشور مایوس ہیں اور اپنی یہ مایوسی پوری قوم کے دماغوں میں ٹھونس دینے کے آرزومند ہیں ۔
میرے نزدیک سب سے اہم پہلو زندگی ہے ۔وہی سوال، ہر سوچنے والا ذہن سب سے پہلے جس پہ ـغور کر تاہے : کون ہیں ہم اور یہاں اس زمین پر کیا کر رہے ہیں ؟ہزاروں جانوروں میں صرف ہم کیوں ذہین ہیں ؟انسانی دماغ کی منفرد خصوصیات کیا ہیں؟ سورج کس طرف محوِ سفر ہے اور کیوں ؟ کائنات ایسی کیوں ہے ،
جیسا کہ ہم اسے دیکھتے ہیں اور کب تک یہ قائم رہے گی ؟ انسانی اور حیوانی جسم ، ان کی حسّیات کس طرح کام کر تی ہیں۔ زمین پر زندگی کو قائم و دائم رکھنے والے ان گنت حفاظتی حصاروں ، اوزون، مقناطیسی میدان ، پانی کی گردش اور آکسیجن کا ماخذ کیا ہے ؟ زندگی کب شروع ہوئی ؟ انسان نے کب سوچنا شروع کیا؟
اٹھارہ برس کی عمر میں ، پروفیسر احمد رفیق اختر سے جب میری پہلی ملاقا ت ہوئی تو ذہن وجودِ خدا کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھا۔ سوالات کے انبارتھے ۔ میں ٹین ایج (Teen age) کے مسائل کا شکار تھا۔ سر نے خدا کے ناموں پر مشتمل کچھ تسبیہات دیں۔ یا رحمن یا رحیم یا کریم۔ لاحول ولا قوۃ الا با اللہ۔ یا سلام یامومن یا اللہ۔یا ولی یا نصیر ۔ یا ذَالجلال والاکرام۔ انہیں تین تین سو دفعہ پڑھنا تھا۔اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے، وضو میں یا اس کے بغیر۔ توجہ سے یا ٹی وی دیکھتے ہوئے ۔
بچپن سے میری آنکھوں سے پانی بہتا تھا۔ میں دھوپ میں آنکھ کھولنے کے قابل نہ تھا۔ میں کرکٹ کھیلتے دوستوں سے دور رہتا۔ میٹرک میں نے ایک ملٹری اکیڈمی سے کیا تھا ۔ پریڈ گرائونڈ میں اپنی جماعت کے سامنے بطور پلٹون کمانڈر سب سے زیادہ یہی مسئلہ مجھے پریشان کرتا۔ پنجاب کالج سے چھٹی ہونے کے بعد میں دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے سے باز رہتا۔ بہتی آنکھوں نے میری خود اعتمادی ختم کر دی تھی ۔
تو میں خدا کے نام کی تسبیح کرنے لگا۔ بمشکل پندرہ بیس روز گزرے تھے ۔ گھر کے قریب مارکیٹ سے واپسی پر سورج سر پہ تھا۔ تسبیح پڑھتے پڑھتے یکایک مجھ پر انکشاف ہوا کہ اب میں آنکھیں پوری طرح کھول سکتا تھا۔ گو کہ اب بھی شاید وہ دوسروں کی نسبت کمزور تھیں لیکن مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ پانی بہنا رک گیا تھا۔ یہ تھا پروفیسر صاحب کا پہلا احسان ۔ جب یہ بات میں نے انہیں بتائی تو انہوں نے کہا: اس کا تعلق سوچنے کے انداز، پریشانی اور نفسیاتی دبائو سے تھا۔ خدا کے نام کی برکت سے پریشانی کم ہو گئی ۔ آنکھ اگربہتی رہتی تو عمر کے ساتھ ساتھ یہ بینائی لے جاتی ۔
میرے اندر بے پناہ توانائی تھی ۔ بیس برس کی عمر میں پنجاب کالج سے بی کام کرتے ہوئے میں نے قرآن حفظ کرنا شروع کیا اور دس ماہ میں اٹھارہ سیپارے یاد کر لیے ۔ یہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار دور تھا۔ اس نے میرے ذہن کو استحکام اور سکون بخشا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خدا کے کلام کی برکت تھی لیکن یہ سب حافظے کا کھیل تھا۔ ذہانت کا تعلق اس سے نہ تھا اور خدا کے پیغام سے میں نا آشنا تھا۔ وہی آیات، جو میں روز پڑھا کرتا، جب پروفیسر صاحب نے ان پر روشنی ڈالی تو زندگی کا معانی و مفہوم بدل کے رہ گیا۔ سورۃ الانسان کی پہلی آیت ''زمانے میں انسان پر بہت سا وقت وہ بھی گزرا ، جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا‘‘۔ سورۃ الانبیا30: کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ آسمان او ر زمینیں یکجا تھیں۔ پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جد اکر دیا اور پانی سے ہر زندہ شے پیدا کی ۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہ لائیں گے ؟ پروفیسر صاحب نے کہا : بے وقوفو ،یہ بگ بینگ کا ذکر ہے ۔ ہم قرآن پڑھتے ، اس کو چومتے لیکن لاشعوری طور پر اس خوف کا شکار رہا کرتے کہ سائنسی ترقی کے اس زمانے میں کہیں کچھ غلط ثابت نہ ہو جائے۔ پروفیسر صاحب نے کہا: شروع سے آخر تک پڑھو ۔ فلکیات پہ آیات دیکھو۔ کوئی ایک غلطی ڈھونڈو او رخدا کا انکار کر دو۔ اس لیے کہ خدا کے کلام میں ایک بھی غلطی ممکن نہ تھی ؛ اگرچہ وہ پندرہ صدیاں قبل نازل ہوا تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ محبت سے پکارو ۔ خداکہتاہے کہ مجھے ایسے یاد کرو ، جیسے اپنے باپ دادا کی خوبیاں گنواتے ہو۔ ہمارے ذہنوں سے خوف نکلا ۔ ہم محبت سے اسے یاد کرنے لگے ۔ پروفیسر صاحب نے سورہ طلاق کی 12ویں آیت سنائی : اللہ وہ ہے ، جس نے سات آسمان بنائے اور اتنی ہی زمینیں ... انہوں نے سمجھایا کہ ہر آسمان ایک کائنات ہے ۔ ہر کائنات میں زندگی سے بھرپو رایک سیّارہ ہے ۔ یہ سب خدااور اس کے رسولؐ کا کلام تھا لیکن استاد نے ہی تو ہمیں سکھایا پڑھایا۔
پروفیسر صاحب نے علم میں اضافے کی دعائیں بتائیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر کثرت سے انہیں پڑھتے ہوئے میرے جیسا احمق اور ہونق کائنات پہ غور کرنے لگا۔ میں جانوروں کے بڑے بڑے سروں کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ یا خدایا، یہ سوچتے کیوں نہیں؟ ایک چھوٹا سا بچّہ کیونکر انہیں ہانک لے جاتا ہے۔
قارئینِ کرام، والدِ محترم ہارون الرشید نے مجھے اردو سکھانے کی کوشش کی۔ میں عبور حاصل نہ کر سکا؛ البتہ دو چار لفظ لکھنے لگا۔ ذہن میں وسعت تو پروفیسر احمد رفیق اختر ایسے استاد ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ گو کہ یہاں بھی میں ایک نالائق شاگرد ثابت ہوا۔ میں صوفی نہیں بن سکتا۔ رہنمائی کا فریضہ انجام دینا میرے لیے ممکن ہے اور نہ اس کی خواہش لیکن یہ زبان تو پروفیسر صاحب کا ذکر کرتی ہی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved