تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-06-2015

میثاقِ معیشت؟

قرآن کریم سوال کرتا ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو‘ جو کرتے نہیں۔ جی ہاں ملک کو ایک میثاقِ معیشت درکار ہے مگر اس کا طریق وہ ہرگز نہیں جو تجویز کیا گیا۔ 
جناب اسحق ڈار کا فرمان یہ ہے کہ قومی معیشت کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ ''دردمندی‘‘ کے ساتھ اپوزیشن پارٹیوں سے انہوں نے اپیل کی کہ فیصلہ کن دور میں جب کہ ملک استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے‘ معیشت کے ایک قومی منشور پر وہ متفق ہو جائیں۔ 
سچ تو یہ ہے کہ معیشت ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارتی ریشہ دوانیوں کے خلاف بالآخر ایک تحریک سی اٹھی ہے۔ بالآخر یہ ادراک ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازش سے وہ باز نہ آئیں گے۔ کراچی میں‘ بلوچستان‘ گلگت‘ بلتستان اور قبائلی پٹی میں عدم استحکام پیدا کرنے پر وہ تلے ہیں۔ صاف صاف بھارتی وزیر دفاع نے کہہ دیا کہ دہشت گردی کا حربہ وہ استعمال کر سکتے ہیں۔ دشمن ملک کا دفاعی بجٹ چھ گنا ہو چکا۔ آٹھ گنا بڑے ملک میں شرح نمو سات فیصد ہے اور عشروں سے۔ دوسری طرف ہمارا عالم یہ ہے کہ سرمایہ ملک سے پیہم فرار ہو رہا ہے اور مردان کار بھی۔ صورت حال ایسی ہی رہی تو خطرات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے سرمایہ کاری بڑھتی جائے گی‘ جو پہلے ہی کچھ کم نہیں۔ 
پاکستان کے کاروباری طبقات‘ این جی اوز اور ان سے زیادہ فلمی صنعت اور ٹیلی ویژن پر بھارتی اثرات موجود ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہر کہیں ان کے وکیل کار فرما ہیں اور پوری بے باکی کے ساتھ بروئے کار۔ جواب میں ایک معذرت خواہانہ رویہ ہم نے اختیار کیے رکھا۔ میاں محمد نوازشریف نے اقتدار سنبھالا تو من موہن سنگھ کو تقریب حلف وفاداری میں شرکت کی دعوت دی‘ بے اعتنائی کے ساتھ جو مسترد کردی گئی۔ نریندر مودی منتخب ہوئے تو میاں صاحب کو انہوں نے مدعو کیا۔ آنجناب نے ٹیلی فون کیا تو فوراً ہی انہوں نے وعدہ کر لیا۔ قوم کو مگر یہ بتایا کہ مشورہ کرنے کے بعد وہ فیصلہ کریں گے۔ 
دہلی تشریف لے گئے تو ایک آدھ نہیں‘ میڈیا سے متعلق‘ کئی ایسی شخصیات سے انہوں نے ملاقاتیں کیں‘ جو پاکستان دشمن سمجھی جاتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنے صاحبزادے کے ہمراہ ایک بھارتی صنعت کار کے گھر گئے۔ دہلی میں پاکستان کا سفارت خانہ حیران تھا کہ روایت کے بالکل برعکس اسے اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ دریں اثناء پاکستانی سرحدوں پر گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا‘ ہفتوں اور مہینوں تک۔ بھارتی ہدف ہمیشہ سے یہ تھا کہ پاکستان کو سکم اور بھوٹان بنا دیا جائے۔ مودی حکومت نے زیادہ سرگرمی اور زیادہ عزم کے ساتھ اس سمت میں پیش قدمی کا آغاز کیا۔ جنرل راحیل شریف اگر اٹھ کھڑے نہ ہوتے۔ پاکستانی فوج اگر آڑے نہ آتی تو وزیراعظم کی طرف سے دہلی کے لیے دوستی کا ہاتھ شاید اب بھی اسی طرح پھیلا ہوتا... بھیک کا ہاتھ! 
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی‘ اس کی قومی امنگوں کی مظہر ہوتی ہے۔ میاں صاحب کا مزاج مختلف ہے۔ اقتدار اگر ان کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ترجیحات وہ خود طے کرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی ہی نہیں‘ تمام تر داخلی پالیسیاں بھی۔ کسی بھی ملک میں پالیسیوں کی تشکیل سول حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ مسلح افواج‘ مختلف سرکاری شعبوں میں سے ایک شعبہ ہیں۔ قاعدے کی بات یہ ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں کی پابند رہے۔ یہ پارلیمان ہے‘ بحث مباحثے کے بعد‘ جسے یہ فرض انجام دینا ہوتا ہے۔ پارلیمانی طرز حکومت میں فیصلہ سازی کابینہ کی ذمہ داری ہے۔ مگر کون سی کابینہ اور کون سی پارلیمنٹ؟ پیپلز پارٹی کے دور میں‘ اہم مناصب پر تقرری‘ زرداری صاحب کی صوابدید تھی۔ میاں صاحب ہمیشہ ایک بادشاہ کی طرح حکمرانی کے آرزو مند تھے۔ ادھر ایک نفسیاتی مسئلہ بھی انہیں درپیش ہے۔ ملک بدل چکا مگر وہ نہیں بدلے۔ میڈیا آزاد ہے اور عدالتیں بھی۔ سوشل میڈیا اتنا اہم ہو چکا کہ بعض اوقات فیصلہ کن ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ان کے بعض رفیق نشان دہی کرتے ہیں‘ ذہنی طور پر ابھی تک میاں صاحب 1990ء کے عشرے میں زندہ ہیں۔ 
دو سال قبل اقتدار سنبھالا تو کئی ماہ تک قوم سے خطاب نہ کیا۔ چہرے پر مسکراہٹ کبھی نمودار نہ ہوتی۔ بتایا جاتا کہ ایوانِ وزیراعظم میں ان کا جی نہیں لگتا۔ بہت سا وقت وہ غیر ملکی دوروں پہ صرف کرتے۔ اختتام ہفتہ پر‘ وہ لاہور میں جا براجمان ہوتے۔ کبھی کوہ مری تشریف لے جاتے۔ 
رفتہ رفتہ خود کو حالات سے انہوں نے ہم آہنگ کیا مگر کتنا ہم آہنگ؟ ایوانِ وزیراعظم میں اوّل اوّل میاں شہبازشریف کا عمل دخل زیادہ تھا‘ کچھ جگہ اسحق ڈار نے گھیر لی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ ذمہ داریاں اب محترمہ مریم نواز کے سپرد ہیں۔ مرکزی حکومت کے لیے اہم افسروں کے انتخاب میں آخرالذکر دو شخصیتوں کا کافی کردار ہے۔ صوبائی حکومتوں سے متعلق بعض معاملات اسحق ڈار نمٹاتے ہیں۔ چھ ماہ کی بے سود کاوش کے بعد پختون خوا کے وزیراعلیٰ نے شور مچایا کہ ڈار صاحب ایک عدد ملاقات پر بھی آمادہ نہیں۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ آزاد کشمیر کے اطاعت گزار وزیراعظم چودھری عبدالحمید تک چیخ اٹھے کہ پارلیمان کے باہر وہ دھرنا دیں گے۔ وہ تو خیر گزری کہ زرداری صاحب نے وزیراعظم سے بات کی اور بحران ٹل گیا‘ وگرنہ ممکن ہے کہ مظفرآباد کی کابینہ ہی نہیں‘ بعض اپوزیشن لیڈر بھی احتجاج میں شامل ہوتے... دنیا بھر‘ بالخصوص بھارت میں پاکستان کا مذاق اڑایا جا رہا ہوتا۔ 
جناب اسحق ڈار اور ان کے مربی معیشت کو اگر سیاست سے الگ رکھنے کے آرزو مند ہیں تو خود اپنے عمل کی شہادت کیوں فراہم نہیں کرتے۔ پختون خوا میں نئی صنعتوں کے لیے پانچ برس تک ٹیکس معاف کرنے کا جو فیصلہ صادر ہوا ہے‘ کیا وہ ایک غیر سیاسی فیصلہ ہے۔ کیا اس کا نتیجہ یہ نہ ہوگا کہ کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد اور سیالکوٹ کے صنعت کار ایسے کارخانہ داروں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے‘ خیرآباد پل سے آگے جو قسمت آزمائی کا فیصلہ کریں۔ 
اس طرح پختون خوا سے مقامی کرنسیوں میں‘ افغانستان کے لیے سبزی اور پھلوں کی برآمد کا نتیجہ کیا یہ نہ ہوگا کہ مرکزی حکومت کی عنایت کے طفیل‘ صرف ایک صوبے کو فائدہ پہنچے گا؟ کیا عمران خان ان پراسرار اقدامات کا ہدف نہیں؟ 
لاہور‘ ملتان‘ اسلام آباد اور راولپنڈی میں میٹرو کے اجراء کا اقدام؟ ملتان میں تحریک انصاف نے نون لیگ کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ راولپنڈی میں شیخ رشید اور عمران خان جیت گئے۔ اسلام آباد میں اسد عمر۔ لاہور میں تحریک انصاف اگرچہ جیت نہ سکی مگر ایک خطرہ بن کر نمودار ہوئی۔ بے نوائوں کے لیے میٹرو بس حنیف عباسی اور شکیل اعوان کے لیے بنائی گئی‘ جس طرح گوجرانوالہ میں دو ارب روپے کا پل خرم دستگیر کی خاطر۔ 
کیا جناب اسحق ڈار کو وزیر خزانہ مقرر کرنے کا فیصلہ غیر سیاسی ہے؟ وہ اس لیے نوازے گئے کہ خاندان کا حصہ ہیں۔ 
قرآن کریم سوال کرتا ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو‘ جو کرتے نہیں۔ جی ہاں ملک کو ایک میثاقِ معیشت درکار ہے مگر اس کا طریق وہ ہرگز نہیں جو تجویز کیا گیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved