خیبر پختونخوا کے مقامی انتخابات بہر حال منعقد ہوگئے اور پایۂ تکمیل تک پہنچے، ان انتخابات کا یہ پہلو افسوسناک ہے کہ یہ مردم کُش ثابت ہوئے۔ مابعد انتخابات (Post Elections)کی تلخیاں اور مباحثے کچھ عرصہ جاری رہیں گے، کیونکہ تازہ موضوعات تلاش کرنا اور اسٹوڈیوز میں رونقیں لگانا میڈیا کی ضرورت ہے۔ یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ امیدواروں کی تعداد کے اعتبار سے یہ بڑے انتخابات تھے، ہماری انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کو اس کاتجربہ نہیں تھا، لہٰذا وہ بہتر استعداد اور انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ معمول سے زیادہ تصادم اور محاذ آرائی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب بہت نچلی سطح پر آمنے سامنے کا مقابلہ ہو تومقامی سطح کی عصبیتیں اور نفرتیں جاگ اٹھتی ہیں اور اختلافات جماعتی سے زیادہ شخصی سطح پر آجاتے ہیں ۔ عدمِ برداشت ویسے بھی ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتی جارہی ہے اور اب تمام طبقات اسی نفسیاتی بیماری کی لپیٹ میں ہیں ، اسی طرح ذاتی اورگروہی مفادات کے لیے بھی عصبیتوں کو ابھارنا ہمارا کلچر بنتا جارہا ہے، جو کہ ایک منفی اور غیر تعمیری سماجی رویہ ہے۔
عربی کا مقولہ ہے :''امتحان کے مرحلے سے گزر کر ہی انسان عزت وتکریم کا حق دار قرار پاتا ہے یا ذلت ورسوائی سے دوچار ہوتاہے‘‘، سو یہی سبب ہے کہ صوبۂ خیبر پختونخواکی حکومت اور پی ٹی آئی کو بحیثیتِ جماعت دفاعی پوزیشن میں آنا پڑا، کیونکہ غلطی کسی کی بھی ہو، ذمے دار حکومتِ وقت ہی قرار پاتی ہے۔
ہمارے الیکشن کمیشن کے بعض فیصلے بھی دانش وحکمت سے عاری نظر آئے، مثلاً وزراء اور ایم این اے وغیرہ کا اپنی جماعت کے امیدوار وںکی انتخابی مہم نہ چلا سکنا، جب انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہورہے ہیں تو سیاسی قائدین، خواہ حکومت میں شامل ہوں یا حزبِ اختلاف کا حصہ ہوں، کو اپنی جماعت کی انتخابی مہم چلانے کا آزادانہ موقع ملنا چاہیے ، ساری جمہوری دنیا میں ایسا ہی ہوتاہے۔ البتہ یہ پابندی ضرور عائد ہونی چاہیے کہ کوئی وزیر یا حکمراں جماعت کا عہدیدار انتخابی مہم میں سرکاری مشینری، ذرائع اور اثر ورسوخ کا استعمال نہ کرے اور نہ ہی انتخاب کا اعلان ہونے کے بعد کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان کرے، ورنہ کسی ایک فریق کو کھلا میدان حوالے کردینا قرینِ انصاف نہیں ہوگا۔
اگرچہ میڈیا پر مطالبات اور بحثیں جاری ہیں ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپنی اپنی جگہ پرسب کسی حدتک مطمئن ہیں ۔ پی ٹی آئی کو حکمراں جماعت کی حیثیت سے مجموعی طور پر اکثریت مل گئی ہے، ۔ اے این پی گزشتہ قومی انتخابات کی عبرت ناک ناکامی سے نکل کر اپنے سیاسی اِحیاء کے دور میں داخل ہوئی ہے، تو یہ پہلو ان کے لیے یقینا اطمینان کا باعث ہوگا، جمعیت علمائِ اسلام اور جماعتِ اسلامی کوبھی ان کا حصہ مل گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اولین ترجیح چونکہ اپنی وفاقی اور صوبۂ پنجاب کی حکومت کو بچائے رکھنا ہے، اس لیے انہوں نے زیادہ زور لگایا ہی نہیں، وہ اسی پر صابر وشاکر اور قانع ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ پی ٹی آئی پر دیگر سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے جو اخلاقی دباؤ پڑا ہے، یہ اُن کے لیے اضافی تسکین کا باعث بنا کہ جیسے جناب عمران خان کے مسلم لیگ (ن) کی طرف پھینکے ہوئے پتھر خوداُن کی طرف واپس پلٹ آئے ہوں، اسی کو'' بیک فائر‘‘ کہتے ہیں ۔ اس طرح کے منتشر نتائج میں سب سے زیادہ فائدہ آزادامیدواروں کو ہوتاہے کہ وہ آسانی سے اقتدار کی طرف لڑھک جاتے ہیں اور لوٹابننے کے طَعن سے بھی بچے رہتے ہیں۔ اتفاق سے صوبۂ خیبر پختونخوا میں آزاد امیدوار کثیر تعداد میں منتخب ہوئے ہیں ،سو ان کا بھلا ہوجائے گا۔
جناب عمران خان مثالیت پسند (Idealist)ہیں، زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرکے محض تصوراتی سیاست ڈرائنگ روم یا اسٹوڈیوز میں سیاسی بحث مباحثے کی حدتک تو چل سکتی ہے، عملی زندگی میں اس کا برگ وبار لانا کافی دشوار ہے۔ لہٰذا ہمارے زمینی حقائق اور معروضی حالات کے تحت مناسب یہ ہے کہ سیاست مثالیت اور عملیت کا حسین امتزاج ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور مولانا فضل الرحمن پرجنابِ عمران خان کے عائد کیے ہوئے الزامات تقریباً سب کو اَزبر ہوچکے ہیں ،اگر اب تک ان کی اپنی تسکین نہیں ہوپائی تو روزانہ آموختہ دہراتے رہیں۔ لیکن اگر عاجزانہ مشوروں کو درخورِ اعتنا سمجھیںتوکچھ ذخیرۂ الفاظ اور سرمایۂ الزامات آئندہ انتخابات کے لیے بھی بچا کر رکھیں، کیونکہ دانا لوگوں کی کہاوت ہے:''داشتہ آید بکار‘‘۔ خدا جانے ان کے کس مشیر نے اُن کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ لوگوں کو میٹروبس، موٹروے اور سٹرکیں نہیں چاہئیں۔ حضوروالا! لوگ انہی آسائشوں، سہولتوں اور ضرورتوں کے لیے سیاست دانوں کو ووٹ دیتے ہیں اور سیاست دان یہی سبز باغ دکھا کر تو لوگوں سے ووٹ لیتے ہیں، کیاآپ لوگوں کو انگلی پکڑ کر جنت میں چھوڑ کر آئیں گے، جودوسری سیاسی جماعتیں نہیں کرپائیں گی۔
خان صاحب نے کافی وقت برطانیہ میں گزارا ہے، ان کا یہ کہنا درست ہے کہ جمہوری ممالک میں ڈیلیوری مقامی سطح پر ہوتی ہے، بنیادی تعلیم، امن وامان اور شہری خدمات کے تمام شعبے مقامی حکومتوں یعنی Countiesاور Councilsکے ماتحت ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہوناچاہیے کہ وہ مالی معاملات میں خود مختار ہوتی ہیں، اُن کی آمدنی کے اپنے ذرائع اور مقامی ٹیکس بھی ہوتے ہیں ،جن میں پراپرٹی ٹیکس سرِفہرست ہے، بلڈنگ کنٹرول کا سارا شعبہ مقامی حکومتوں کے پاس ہوتاہے۔ ایک بار امریکہ کے دورے کے دوران ہم امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے متصل ریاست ورجینیا گئے، تو وہاں کی سڑکوں کا معیار واشنگٹن ڈی سی کے مقابلے میں انتہائی اعلیٰ پایا۔ میں نے حیران ہوکر اپنے میزبان سے اس کا سبب پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن ڈی سی کے مقابلے میں ورجینیا مالدار ریاست ہے، کیونکہ واشنگٹن کی سڑکوں پر جابجا کریکس تھے۔ ہمارے ذہن میں تو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا نقشہ رہتاہے۔ ہمارے ہاں شاہی محلات تعمیر ہورہے ہیں اور ان کا قصرِ ابیض بہت پرانا ہے اور وہیں بیٹھ کروہ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں،نئے صدر کے انتخاب پر وائٹ ہاؤس کی تزئینِ نو کے لیے کچھ رقم منظور ہوتی ہے،تووہ بھی تنقید کی زد میں آتی ہے، یہی صورتِ حال 10ڈاؤننگ اسٹریٹ لندن کی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ِاس کے پیچھے اُن کے طویل تجربات ، اَقدار و روایات ہیں۔ برطانیہ کا تودستور بھی تحریری میثاق کی صورت میں نہیں ہے، ان کا تو جمہوری پارلیمانی نظام بھی روایات واقدار پر قائم ہے، وہاں تو بعض اوقات حکومت سے باہر رہ کرعددی اعتبار سے اقلیتی حکومت کو بھی سہارا دیا جاتاہے اور اسے گرنے نہیں دیا جاتا۔ کیا ہمارے قومی اور سیاسی مزاج میں اتنا تحمل، اتنا نظم اوراتنا صبر وضبط ہے۔ہماری تو تصوراتی معراج ہی حکومتِ وقت کو گرانا ہوتاہے۔
ہمارا نظام اور قومی وسیاسی مزاج ارتکازِ اقتدار اور ارتکازِ اختیارات ہے، مالی وسائل کا ارتکاز بھی اسی مزاج کا حصہ ہے۔ پھر اگر ماتحت مقامی حکومت اپنی جماعت کی ہے، تو اقتدار کی چھَلنی سے مالی وسائل کے چند قطرے اس کے لیے ٹپکا دئیے جائیں گے اور اگر وہ مخالف جماعت کی ہے تو اسے وسائل کے لیے ترسایا جاتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ پہلے ضلع اور تحصیل کی سطح تک منتخب مقامی حکومتیں قائم کرکے ان کا تجربہ کیا جاتا، صوبے سے مقامی سطح تک وسائل واختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم کا ایک قابلِ عمل نظام وضع کیا جاتا اور پھر بتدریج اسے نچلی سطح تک لے جاتے۔ ابتدائی طور پر ضلع اور تحصیل سطح کی مقامی حکومتوں کی مدت دو یا تین سال بھی رکھی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کرپشن پرکنٹرول اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی ناگزیر ہے۔ نچلی سطح پر باہمی رنجشوں، عداوتوں اور نفرتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہوتاہے،لہٰذا اختیارات کو انتقام کے لیے استعمال کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں مقامی سطح پر پھیلاؤ کافی زیادہ کردیاگیا ہے، اس کے لیے سول سروس کا ڈھانچہ (یعنی سکریٹریز وغیرہ) بھی ایک مالی بوجھ (Liability) بن سکتا ہے، ایسا نہ ہو کہ محدود مالی وسائل کا اکثر حصہ خدمات کی فراہمی کی بجائے بیوروکریسی اور نظم کے قیام پر صرف ہوجائے۔شروع میں ایسے شعبوں کے لیے ملازمین کنٹریکٹ پررکھے جاتے ہیں ، لیکن پھر ان کی یونین بن جاتی ہے، احتجاج کاسلسلہ شروع ہوتاہے، میڈیا لائیو کوریج کرتاہے، پولیس کے لیے کنٹرول کرنا مشکل ہوتاہے،''نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن ‘‘ والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، اگر وہ سختی کریں تو سیاسی دباؤ کے نتیجے میں معطلی کاخطرہ مول لیں، ورنہ ''ٹُک ٹُک دیدم،دم نہ کشیدم‘‘کا منظر پیش کریں اور اپنی نوکری بچائیں، کیونکہ پولیس سے نفرت ہماری قوم کی گھٹی میں پڑی ہے اور اس کے اثرات زائل ہونے اور پولیس کے سدھرنے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا، کون جیتاہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔