خلافت عثمانیہ اگرچہ برائے نام ہی خلافت تھی مگر نو آبادیاتی نظاموں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کے لیے اپنے شاندار ماضی کی ایک نشانی تو تھی جس کو 1924ء میں ختم کر دیا گیا تو یہ ایک طرح مسلم اُمّہ کے زوال کا کلائمیکس تھا۔ قدرت کا قانون ہے کہ جب کوئی عمل اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کی حرکت کا رخ بدل جاتا ہے۔ لہٰذا 1924ء میں خلافت عثمانیہ ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کے مزید زوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ سو لامحالہ مسلمانوں کا سفر زوال سے عروج کی جانب شروع ہونا تھا۔اگر آپ 1924ء میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی صورتحال کو یاد کریں اور اس کا موازنہ آج مسلمان ممالک جس کیفیت میں ہیں اس سے کریں تو معلوم ہو گا کہ واقعتاً بہت بہتری آ چکی ہے اور آپ کو زوال سے عروج کی جانب سے سفر محسوس ہو گا۔ واضح رہے کہ یہ سفر طویل ہوتا ہے۔ اس میں سال نہیں صدیاں لگ جاتی ہیں۔
اب آپ دیکھیں کہ 1924ء کے بعد جب پہلی نصف صدی ختم ہو رہی تھی تو 1974ء کو فروری کے مہینے میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اندازہ کریں کیا 1924ء یا اس سے کچھ پہلے جب ہم مسلمان زوال کی انتہا کو چھو رہے تھے ایسا ممکن تھا کہ تمام مسلمان ملک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے۔ اس وقت تو اکثر مسلمان غلامی کی زندگی گزار رہے تھے‘ پھر کیسے اکٹھے ہو سکتے تھے؟مگر تاریخ شاہد ہے کہ 1974ء میں ایسا ہوا۔ اور پھر اس اسلامی کانفرنس کا ردعمل بھی ہوا۔ مغربی دنیا نے محسوس کر کے کہ مسلمان تو پھر باہمی اتحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ سازشیں شروع کر دیں اور بظاہر اسلامی ملکوں کو پھر سے الگ الگ کر دیا اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو ایک بے بس ادارہ بنا کے رکھ دیا۔ یہ سب کرنے کے باوجود مسلمانوں کا زوال سے عروج کی طرف سفر جاری رہا اور وہ اس طرح کہ مغربی دنیا کو اسلامی کانفرنس کے محض پانچ برس بعد یعنی 1979ء میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کی ضرورت پڑ گئی۔افغانستان میں جہاد کی آڑ میں جدید ترین جنگی سازو سامان اور ٹیکنالوجی تک مسلمانوں کو رسائی مل گئی۔ جدید ٹیکنالوجی چونکہ جدید دور میں ایک فتنے کی حیثیت رکھتی ہے جس سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور نقصان بھی تو مسلمان ملک اس‘ ٹیکنالوجی سے فوائد بھی حاصل کر رہے ہیں اور دہشت گردی کی شکل میں اس فتنے کے نقصانات بھی اٹھا رہے ہیں۔ مگر غور کریں تو یہ ایک تاریخی عمل ہے جس میںمسلمان آہستہ آہستہ آگے ہی کو بڑھ رہے ہیں۔
مغربی دنیا اگرچہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے سے نبرد آزما رکھنا چاہتی ہے ۔ مسلمان ملکوں کے اندر بھی انتشار کے لیے کوشاں رہتی ہے اور مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کرنے اور مغربی تہذیب کے قریب لانے کے لیے تمام مسلمان ملکوں پر ایک ثقافتی یلغار کیے ہوئے ہے مگر نتائج مغرب کی مرضی کے نہیں نکل رہے۔آپ اکثر سنتے ہوں گے کہ فلاں انتہا پسند اسلامی تنظیم امریکہ یا کسی دوسرے مغربی ملک کی خفیہ ایجنسی نے بنوائی تھی اور پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسی انتہا پسند تنظیم کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک بمباری بھی کرتے ہیں۔ گویا جس مقصد کے لیے کوئی تنظیم بنائی جاتی ہے وہ پھر بعدازاں قابو سے باہر نکل جاتی ہے۔ آج کل لوگ آئی ایس آئی ایس جس کو داعش کہا جاتا ہے‘ کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ یہ ایک عمل ہوتا ہے جس Frankenstein Monsterکہا جاتا ہے ۔ ایک فرضی کہانی ہے جس میں ایک سائنسدان ایک Monsterتخلیق تو کر لیتا ہے مگر بعد میں وہ Monster اس سائنسدان کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے۔اس وقت اگر آپ مسلمان ملکوں پر نظر ڈالیں تو ہر طرف آگ لگی دکھائی دے گی۔ کچھ عرصے پہلے کم ازکم اتنا تو معلوم ہوتا تھا کہ کون کس کس سے لڑ رہا ہے مگر آج کل تو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ کون‘ کہاں کس کے خلاف صف آراء ہے۔ مغربی ممالک کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔ القاعدہ جس کو امریکہ اپنا نمبرون دشمن کہتا تھا‘ لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے
کے لیے اسی القاعدہ کے گلے میں بانہیں ڈالی ہوئی تھیں۔ پھر القاعدہ اور داعش اکٹھے تھے مگر اب الگ الگ کیا‘ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ہمارے پاکستانی طالبان پہلے افغان طالبان کے امیر ملا عمر کو اپنا قائد مانتے تھے مگر اب دھڑا دھڑ داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔اسرائیل جو اپنے وجود کے وقت سے مسلمانوں کے لیے نفرت کا نشان رہا ہے آج اپنی ایران دشمنی کی وجہ سے سعودی عرب کے قریب دکھائی دیتا ہے۔ ادھر لبنان میں عجیب و غریب صورتحال پائی جاتی ہے۔ وہاں حسن نصراللہ اور حزب اللہ کا کیا کردار ہے؟ اس پر ایک نہیں کئی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔پھر فلسطین جس کی آزادی کے تمام مسلمان ملکوں نے گن گائے ہیں‘ اب ایک معمہ بن چکا ہے۔ وہاں حماس کی مدد ایران کر رہا ہے جبکہ فلسطین کا ہمسایہ اور عرب دنیا کا ایک اہم ترین ملک مصر‘ فلسطین کا ناطقہ بند کئے ہوئے ہے۔عراق کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اور تازہ ترین قضیہ یمن کا ہے جہاں سعودی عرب کی بمباری سے کافی جانی نقصان ہو چکا ہے مگر کہتے ہیں کہ حوثی باغیوں کی ایران کی طرف سے حمایت بھی جاری ہے اور سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان نے فی الحال تو اس معاملے سے اپنے آپ کو کچھ دوررکھا ہوا ہے لیکن اگر خدانخواستہ بات بڑھ گئی تو یہ دوری ختم کرنا
ہو گی۔ اس ساری صورتحال پر اگر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے کہ مسلمان ملک زوال سے عروج کی جانب بڑھ رہے ہیں تو دل یہ بات نہیں مانتا مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تبدیلیاں اسی طرح آتی رہی ہیں۔جس طرح لوہا آگ جلنے سے پہلے سرخ ہوتا ہے‘ پھر پگھلتا ہے اور اس کے بعد کسی شکل میں ڈھلتا ہے‘ اسی طرح قوموں کا عروج و زوال ہوتا ہے۔ اگر صدیوں کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو 1924ء کے بعد جبکہ خلافت ختم ہوئی اور مسلمانوں کے زوال کی انتہا ہو گئی تو نصف صدی بعد 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں بین المسلمین اتحاد کی ایک شکل دکھائی دی۔ اس اتحاد کو دشمنوں نے پارہ پارہ کر دیا مگر اب پھر ممکنہ طور پر اگر نصف صدی بعد ہی کوئی تبدیلی آنی ہے تو ہمیں 2024ء میں امید رکھنی چاہیے کہ مسلمان ملکوں میں جو باہمی جنگ و جدال جاری ہے اور سازشوں کے تحت مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے‘ اس ساری صورتحال سے کوئی خیر برآمد ہو گی اور ظاہر ہے وہ خیر پھر ہمارے دشمنوں کے لیے ایک چیلنج بن جائے گی۔ مگر بات تو آگے بڑھے گی اور زوال سے عروج کی طرف تھوڑی بہت پیش قدمی تو ہو گی۔ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا تو ایک کارعبث ہوتا ہے لیکن آرزو کی جا سکتی ہے کہ جس طرح 1924ء کے بعد 1974ء میں مسلمان ایک پلیٹ فارم پر تھوڑی دیر کے لیے سہی مگر جمع تو ہوئے تھے تو اسی طرح مزید نصف صدی بعد ایسی ہی کوئی اور صورت پیدا ہو جائے گی۔ انشاء اللہ حالات پر نظر ڈالیں تو ایک بات تو سب مانیں گے کہ یہ حالات ہمیشہ اسی طرح رہنے والے نہیں ہیں۔ ان میں تبدیلی آکے رہے گی۔