تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     09-06-2015

شکریہ ! نریندر مودی

نریندر مودی کا شکریہ۔ بھارتی وزیر اعظم نے بنگلہ دیش بننے کی اصل کہانی بیان کر دی ورنہ پاکستانی عوام کے کان بعض دانشوروں کا یہ بھاشن سن سن کر پک گئے تھے کہ صرف ہماری فوج‘ سیاسی اشرافیہ‘ بیورو کریسی کی غلطیوں اور 1971ء میں بنگالی عوام پرفوجی مظالم نے تقسیم پاکستان کی راہ ہموار کی ورنہ ان کے خیال میں بھارت کی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی''را‘‘ کی تربیت یافتہ مکتی باہنی اور مجیب باہنی تو 16دسمبر1971ء تک پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہی تھیں۔
نریندر مودی نے دورہ بنگلہ دیش میں ''لبریشن وار آنر‘‘ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا کہ ''بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی‘ ہماری افواج بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر لڑیں اور بنگلہ دیش بنانے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا‘‘نریندر مودی نے فخریہ بتایا کہ ''وہ 1971ء میں مکتی باہنی کی حمایت میں ستیہ گرہ تحریک میں بطور نوجوان شرکت کے لیے دہلی آئے تھے۔ ‘‘
بلا شبہ 1971ء میں پاکستانی اشرافیہ سے غلطیاں ہوئیں‘ فوج اقتدار میں تھی اور سپہ سالار یحییٰ خان تھے۔ اقتدار کی خواہش سے مغلوب اس سپہ سالار کو جاہ پسند سیاستدانوں اورکوتاہ اندیش فوجی جرنیلوں نے مجیب الرحمن سے تصفیے پر مجبور کیا نہ چین کا مشورہ ماننے پر آمادہ۔ تاہم سقوط ڈھاکہ کا سانحہ محض ان غلطیوں کی بنا پر رونما ہوا نہ شیخ مجیب الرحمن‘ تاج الدین اور نذر الاسلام کی زیر قیادت عوامی لیگ کی سیاسی جدوجہد اور کرنل عثمانی و ضیاء الرحمن کی قیادت میں مکتی باہنی کی فوجی بغاوت کا شاخسانہ تھا۔ پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ مسلح بھارتی جارحیت نے ہموار کی۔ اسی بنا پر ''بنگلہ دیش لبریشن وارآنر‘‘ ایوارڈ اندرا گاندھی اور واجپائی کو ملا ۔ حق بہ حق دار رسید۔
بجا کہ مکتی باہنی کرنل اے جی عثمانی نے تشکیل دی اس میں کثیر تعداد پاک فوج‘ ایسٹ پاکستان رائفلز‘ مجاہد کور‘ انصار اور دیگر نیم فوجی دستوں کے بھگوڑوں کی تھی ۔ انہیں بھی بھارت نے تربیت‘ اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی مگر مشرقی پاکستان میں تخریبی کارروائیاں‘ پاک فوج پر حملے اور دہشت گردی کا بازار مکتی باہنی سے زیادہ بنگلہ دیش لبریشن فرنٹ (جسے مجیب باہنی کہا جاتا تھا) نے گرم کیا جو ''را‘‘ کے سربراہ اوبان سنگھ‘ رام ناتھ رائو‘ ڈی پی دھر کی اختراع تھی اور اندرا گاندھی کے طویل المدتی منصوبے کا حصہ۔
مجیب باہنی کے معاملات سے بنگلہ دیش کے ''مجاہدین آزادی‘‘ مکتی باہنی کے سربراہ کرنل عثمانی‘ جلا وطن وزیر اعظم تاج الدین اور دیگر عسکری و سیاسی قائدین کو الگ تھلگ اور بے خبر رکھا گیا اور ایک حد تک بھارتی فوج کے کمانڈر ایسٹر ن کمانڈسرجگجیت سنگھ اروڑا بھی لاعلم تھے جس کا اظہا ر انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتی صحافی چکراورتی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ یہ انٹرویو ''بنگلہ دیش کی جنگ آزادی1971‘‘نامی کتاب میں بھی شامل ہے۔ جنرل اروڑا نے کہا : ''مجیب باہنی مکتی باہنی سے مکمل طور پر مختلف فوج تھی‘ میں اس فوج کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ نوجوان طلبہ کے گروپ نے جو شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ کام کر چکا تھا ''را‘‘ کو مکتی باہنی سے زیادہ وفادار اور مخلص فوج تشکیل دینے پر آمادہ کیا مجھے اس ساری بات کا علم بعد میں ہوا جب اس فوج کا آزادی کے مجاہدین سے تصادم شروع ہو گیا۔ ایک دن جلا وطن حکومت کے سربراہ تاج الدین میرے پاس آئے اور اس فوج کے بارے میں استفسار کیا۔ میں نے کمانڈر انچیف جنرل مانک شا سے رابطہ کیا اور اس بارے میں جاننے کی کوشش کی‘‘
''جنرل مانک شا نے بتایا کہ یہ فوج ہماری انٹیلی جنس ایجنسی ''را‘‘ نے قائم کی ہے۔ مجھے اندرا گاندھی کے مشیر درگا پر شاد دھر نے بتایا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ معاملہ خفیہ رکھا گیا لیکن مناسب وقت پر عبوری حکومت کو اس سے آگاہ کر دیا جائیگا‘‘۔ ''را‘‘ کے کردار کے حوالے سے مزید تفصیل میجر ضیاء الرحمن اور کرنل عثمانی کے قابل اعتماد ساتھی اور بنگلہ دیش کے مجاہد آزادی لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالیم (بیراتم) کی کتاب ''پاکستان سے بنگلہ دیش۔ ان کہی جدوجہد‘‘ میں موجود ہے جس میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے عام معافی کے اعلان کے بعد کس طرح عوامی لیگ کے حلقوں میں مایوسی پھیلی۔ کلکتہ میں قائم جلا وطن حکومت پریشانی کا شکار ہوئی۔ کرنل عثمانی تک بے چین نظر آنے لگے مگر مجیب باہنی اور بھارتی فوج نے حالات کو خراب کیا اور براہ راست فوجی جارحیت سے بنگلہ دیش کے قیام کا دیرینہ خواب پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
مکتی باہنی اور مجیب باہنی نے مشرقی پاکستان میں وہی کچھ کیا جو پشاور‘ کراچی‘ ژوب‘ کوئٹہ اور دیگر پاکستانی علاقوں میں مسلک‘ زبان‘ نسل اور علاقے کی بنیاد پر دہشت گردی‘ تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ میں مصروف گروہ کر رہے ہیں غیر بنگالی مرد و زن‘ بچوں‘ بوڑھوں کا قتل عام‘ فوج پر حملے سرکاری املاک کی تباہی اور پاک فوج‘ ایف سی‘ رینجرز‘ آئی ایس آئی کے خلاف منفی پروپیگنڈا وغیرہ وغیرہ۔ بھارتی حکومت‘ فوج ''را‘‘ اور پاکستان دشمن میڈیا کا کمال یہ ہے کہ قصور وار اس نے ہمیشہ پاکستان کو ٹھہرایا اور پروپیگنڈے کے زور پر پوری دنیاکو باور کرا دیا کہ بنگلہ دیش کا قیام بھارت کی براہ راست فوجی مداخلت نہیں بلکہ پاکستان کی غلطیوں اور پاک فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کا نتیجہ تھا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان میں ایک مخصوص سیاسی مکتبہ فکر اور شکست خوردہ ذہنیت کے حامل اہل دانش نے بھی بھارت کی ہاں میں ہا ں ملائی۔ بھارت سے مالی امداد‘ اسلحہ ‘تخریب کاری ‘دہشت گردی کی تربیت لینے والے حریت پسند اور محب وطن ٹھہرے اور بھارتی گماشتوں ‘ وطن فروشوں اور علیحدگی پسندوں کے مدمقابل تن‘ من ‘ دھن کی بازی لگانے والوں کو ظالم‘ قاتل ‘ قصاب اور عوام دشمن گردانا گیا۔ یہ سلسلہ رکا نہیں‘ زورشور سے جاری ہے۔
یہ بھارت اور اس کے نمک خواروں کا کمال ہے کہ مشرقی پاکستان میں بغاوت کے بیج بونے‘ محب وطن بنگالی و غیر بنگالی عوام کا قتل عام کرنے اور غیر ملکی فوج کے ساتھ مل کر ایک آزاد‘ خود مختار اور اقوام متحدہ کی رکن ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے دنیا کے سامنے سینہ تان کر اپنے جرائم کو کارناموں کے طور پر پیش کر رہے ہیں مگر پاکستان میں کسی کو یہ توفیق اور جرات نہیں کہ وہ 1971ء میں اپنے وطن کی حفاظت کرنے والوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کر سکے۔ حد یہ ہے کہ افغانستان میں اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کی ننگی فوجی جارحیت کے خلاف افغان عوام سینہ سپر ہوئے اور پاکستان نے انسانی و اسلامی بنیادوں پر ان کی جدوجہد کی حمایت کی تو پوری دنیا نے اس فیصلے کی تحسین کی مگرآج پاکستان کے عوام‘ فوج اورآئی ایس آئی کی کامیاب جدوجہد ایک طعنہ بن چکی ہے‘ جبکہ نریندر مودی اور اس کے ہمنوا ایک آزاد و خود مختار اسلامی ریاست کے خلاف اپنی فوجی جارحیت پر فخر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کے ہمنوائوں کی خوشی چھپائے نہیںچھپتی۔
بھارت کی ''را‘‘نریندر مودی حکومت اور پاکستان دشمن میڈیا‘ 1971ء کی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں‘ کراچی اور بلوچستان میں مسلک‘ نسل‘ علاقے اور زبان کی بنیاد پر قائم مکتی باہنیوں‘ مجیب باہنیوں اورلبریشن فرنٹس کی درمے ‘ درمے ‘ سخنے مدد کر رہے ہیں ہر ایک کا انداز کار مختلف ہے مگر ایجنڈا مشترک۔ 1971ء سے اب تک پاکستان کی آزادی اور سلامتی ہدف ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی علیحدگی پسندوں اور وطن دشمنوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے پاک فوج‘ خفیہ ایجنسیوں اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار‘ گروہوں کو ولن کے طور پر پیش کرنے کا فیشن عام ہے۔ پاک فوج کی قیادت نے ''را‘‘ کی کار گزاری کا سارا کچا چٹھاسیاسی قیادت کے سامنے رکھ دیا ہے مگر اسے ایک زور دار سفارتی مہم کا حصہ بنانے اور عالمی برادری کو بھارتی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
نریندر مودی‘ منوہر پاریکر‘ اور دیگر بھارتی رہنما اپنی سازشوں اور ''را‘‘ کی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کر رہے ہیں جس نے اپنے سے چار پانچ گنا طاقتورنیو کلیئر ریاست کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘ کا محاورہ ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے۔مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کبھی کشمیر‘ خالصتان‘ جھاڑ کھنڈ اور دیگر مقامات پر'' Tit for tat‘‘کی حکمت عملی اختیار نہ کرے۔ ہمیشہ معذرت خواہی کا شکار رہے اور بنگلہ دیش کی طرح قبائلی علاقوں بلوچستان اور کراچی میں بھارت کے پردردہ دہشت گرد دندناتے پھریں۔ نریندر مودی نے ہر بات کھل کر کہہ دی‘ مگر ہماری قیادت بھی کچھ سمجھ پائی یا نہیں؟وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved