تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-06-2015

ایگزیکٹ سے چار قدم آگے والی فاصلاتی تعلیم

ملتان کے ایک اخبار میں فاصلاتی تعلیم کے ڈائریکٹر کے خلاف خبریں لگیں تو موصوف نے اسے اپنے وکیل کے توسط سے ایک نوٹس بھجوا دیا۔ یہ نوٹس ہتک عزت آرڈی ننس کی شق 8کے تحت بھجوایا گیا۔ اس میں موصوف نے اپنی عزت کے پرچم کو بلند کرنے کی غرض سے آغاز میں ہی لکھا کہ وہ اس وقت اکتیس عہدوں پر تعینات ہیں۔ ان عہدوں میں سے پچیس عہدے تو وہ صرف اور صرف بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میں سنبھالے بیٹھے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ جس چیز کو موصوف نے وجہ عزت بیان کیا ہے وہ عزت کو بڑھانے کے بجائے شکوک کو بڑھاتی ہے کہ آخر موصوف میں کیا خوبی ہے اور اس کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وائس چانسلر نے ہر پیدا گیر عہدہ موصوف کے سپرد کر رکھا ہے؟ جتنے منہ ہیں اتنی ہی باتیں۔ تاہم بعض باتیں تو ایسی ہیں کہ میرے جیسا منہ پھٹ اور بد تہذیب آدمی بھی بیان نہیں کر سکتا۔
موصوف پی ایچ ڈی ہیں اور پی ایچ ڈی بھی ایسے کہ شاید ہی مثال ملے۔ 19 فروری2003ء کو ایڈوانس سٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ کی میٹنگ ہوئی جس میں 2/2003کی میٹنگ کے ایجنڈا نمبر4کے مطابق اسحاق فانی کے پی ایچ ڈی کے تھیسس کے بارے میں اطلاع دی گئی کہ اس تھیسس کو تین ماہرین نے دیکھنے کے بعد اپنی رپورٹس بھجوا دی ہیں۔ اس امیدوار کے Viva Voce(تھیسس بارے زبانی امتحان) کے لیے رولز کے مطابق دو ممتحنین کے تقرر کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ نوٹیفکیشن 20 فروری 2003ء کو جاری ہوا اور کاغذات کے مطابق 24 فروری 2003ء تک اس نوٹیفکیشن پر دفتری کارروائی ہوتی رہی۔ تاہم اس دفتری کارروائی کے دوران ہی یعنی زبانی امتحان (Viva Voce)کے انعقاد سے قبل ہی اس نوٹیفکیشن کے اگلے روز 21 فروری 2003ء کو موصوف کو یونیورسٹی کا نووکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کر دی گئی۔ ''وائیوا‘‘ اس ڈگری کا شاید سب سے اہم
مرحلہ ہے جہاں دو ممتحن امیدوار کے لکھے گئے تھیسس سے متعلق سوالات کر کے اندازہ لگاتے ہیں کہ امیدوار نے ساری تحقیق خود کی ہے اور تھیسس لکھا ہے یا کسی سے نقل کر کے خانہ پری کی ہے۔ اس مرحلے کے بعد ممتحن ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی سفارش کرتے ہیں۔ یہ سفارش یونیورسٹی کی مختلف باڈیز سے منظور ہو کر کنٹرولر امتحانات کے پاس آتی ہے اور ڈگری جاری ہوتی ہے۔ یہاں یہ عالم تھا کہ آج تھیسس کی رپورٹ وصول ہوئی ہے اور کل ڈگری جاری ہو گئی۔ وائیوا اور دیگر سارے مراحل بعد میں طے ہوئے (یہ بھی محض گمان ہے کہ یہ سارے مراحل طے ہوئے)۔ ڈگری پر 11 فروری کی تاریخ پڑی ہوئی ہے اورگیارہ کو ہی وہ عطا کر دی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ڈگری چانسلر یعنی گورنر پنجاب کے مہر والے دستخطوں کے لیے اس سے پہلے ہی گورنر ہائوس پہنچا دی گئی تھی۔
پی ایچ ڈی کے تھیسس کی ایک کاپی کنٹرولر امتحانات کے دفتر میں ہونا ضروری ہے۔ مگر موصوف کے تھیسس کی ایسی کوئی کاپی کنٹرولر امتحانات کے دفتر میں سرے سے موجود نہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو موصوف کے تھیسس پر کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں Plagiarismکا شبہ تھا۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اب اس معاملے میں بڑی سختی کر رہا ہے اور اس نقالی پر سخت ایکشن لے رہا ہے۔ موصوف نے اس سے بچنے کے لیے سارا ''مدا‘‘ ہی غائب کر دیا کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ Plagiarismکا مطلب ہے ''چھپے ہوئے مواد کی چوری‘‘ یعنی کہیں سے نقل مارنا اور اپنے نام سے پیش کرنا۔ اس کام میں ملوث ''محققین‘‘ کے خلاف پچھلے کچھ عرصے میں کافی سخت کارروائی کی گئی ہے ۔ موصوف کو ایک خط نمبر 1250/Secrecy مورخہ 4-6-2009 کو لکھا گیا کہ آپ اپنے تھیسس کی ہارڈ کاپی اور سافٹ کاپی(کاغذ پر چھپا ہوا اور سی ڈی وغیرہ پر محفوظ کیا گیا) ہمیں دیں تاکہ اسے ایچ ای سی کی لائبریری بھجوایا جا سکے۔ موصوف نے یہ تھیسس 2003ء میں لکھا اور اس کی کاپی نہ کنٹرولر آفس میں جمع کروائی اور نہ ہی ایچ ای سی کی لائبریری کو بھیجی۔ اسی سلسلے میں ایک اور خط نمبر 225/Secrecy مورخہ 4-3-2015 کو بھی لکھا۔ خدا جانے اس خط کا بھی کوئی نتیجہ نکلا یا نہیں۔ تاہم یہ بات تو طے ہے کہ موصوف نے 2003ء سے لے کر 4 مارچ 2015ء تک ‘ یعنی بارہ سال کے عرصہ میں اپنا تھیسس نہ تو کنٹرولر امتحانات بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کو جمع کروایا اور نہ ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی لائبریری میں جمع کروایا جو شکوک کو ہوا دیتا ہے کہ لوگوں کا شبہ کسی نہ کسی حد تک درست ہے کہ تھیسس کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے۔
موصوف کا پروفیسری کے لیے تجربہ بھی شکوک کے بادل میں گھرا ہوا ہے ۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے دس سالہ تعلیمی تجربہ ضروری ہے۔ موصوف کے پاس یہ تجربہ پورا نہیں تھا۔ دس کے بجائے شاید
ساڑھے آٹھ سال کا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے موصوف نے ایک پوسٹ گریجوایٹ کالج میں پڑھانے کا سرٹیفکیٹ لگا دیا۔ اس سرٹیفکیٹ میں لکھا گیا تھا کہ اسحاق فانی گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں 1990ء سے 1993ء کے دوران پوسٹ گریجوایٹ کلاسوں کو پڑھاتا رہا ہے۔ اس لیٹر کے طفیل فانی کا ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے درکار تجربہ پورا ہو گیا اور موصوف ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئے۔ کسی بدخواہ نے ہوائی اڑائی کہ تجربہ کا یہ سرٹیفکیٹ جعلی ہے۔ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ یونیورسٹی کو بادل نخواستہ ایک انکوائری کروانا پڑی۔ اس انکوائری کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید خان جو شعبہ تاریخ کے سربراہ اور سابق ڈین آف فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز تھے ‘ کوانکوائری افسر مقرر کیا گیا۔ تفتیش پر جواب آیا کہ یہ سرٹیفکیٹ اصغر مال کالج سے جاری ہی نہیں کیا گیا۔ پرنسپل گورنمنٹ کالج اصغر مال نے اپنے لیٹر نمبر1453مورخہ 5 اگست 2007میں لکھا کہ 1990ء اور 1993ء کے دوران کالج ہذا میں پاکستان سٹیڈیز کی ایم اے کی کلاسز شروع ہی نہیں ہوئی تھیں۔ دوسرا یہ کہ موصوف اس دوران شعبہ کے سربراہ بھی نہیں تھے اور شعبہ جغرافیہ کے ریکارڈ کے مطابق اسحاق فانی نے اس شعبہ میں کبھی بھی نہیں پڑھایا۔ انکوائری افسر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید خان نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ فراہم کیے گئے تجربہ کے سرٹیفکیٹ ''Invalid‘‘ یعنی بے بنیاد اور باطل سمجھے جائیں۔ اس انکوائری رپورٹ کو پروفیسر ڈاکٹر خالد جانباز ڈین آف فارمیسی نے لیٹر نمبر 1713/pharm/2009 مورخہ 15-5-2009 کے ذریعے کنفرم کر دیا۔ بد قسمتی سے موصوف اس وقت امریکہ میں تھے اس لیے فوری طور پر کچھ نہ کرسکے تاہم واپس آ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی کہ یہ خطوط دبائو ڈال کر لکھوائے تھے۔
گزشتہ دنوں میں نے برخواست شدہ آڈیٹر جنرل پاکستان رانا بلند اختر اور وائس چانسلر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے بارے میں کالم لکھے۔ ان دونوں کالموں کے بارے میں کئی ای میلز آئیں تاہم رانا بلند اختر والے کیس میں ایک صاحب نے جن کا ای میل ایڈریس بڑا ہی دلچسپ ''ماڈرن رنجیت سنگھ کانا‘‘ تھا۔ لکھا کہ آخر رانا بلند اختر کا کیا قصور ہے؟ صرف یہ کہ وہ دو تنخواہیں یا گاڑی کا ڈبل الائونس لیتا رہا ہے۔ یہاں ڈاکٹر نان پریکٹیسنگ الائونس لیتے ہیں لیکن دھڑلے سے پریکٹس کرتے ہیں۔ یہاں سرکاری افسر جس شہر میں جاتے ہیں سرکاری رہائش گاہ لے لیتے ہیں لیکن اپنی لاہور میں جی او آر والی رہائش گاہ پر بھی قبضہ برقرار رکھتے ہیں۔ میرا موقف تب بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ جو لوگ اس ملک کے ڈوبتے ہوتے اداروں کے احتساب پر متمکن ہیں‘ جنہوں نے اوروں کا حساب لینا ہے‘ ان کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا عام آدمیوں اور اداروں سے موازنہ نہ کیا جائے۔ اسی طرح ایک صاحب نے لکھاکہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ نے اگر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کو برباد کیا ہے تو اس میں حیرانی یا اچنبھے کی کیا بات ہے۔ ہر جگہ یہی ہو رہا ہے۔ صرف ڈاکٹر علقمہ کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جا رہا ہے؟ میرا موقف ہے کہ اگر سرکاری اداروں میں رہی سہی تعلیمی آبرو اور معیار ہی ختم ہو گیا تو ملک کا مستقبل کن ہاتھوں میں ہو گا؟ عدل و انصاف اور احتساب کے اداروںکے معاملات باقی اداروں اور افراد سے مختلف ہونے چاہئیں اور درسگاہوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے معاملات کو عام روٹین کے معاملات سے ہٹ کر دیکھا جانا چاہیے کہ ہمارا سارا مستقبل یہاں سے نکلنے والے افراد کے ہاتھوں میں جانا ہے۔ لہٰذا اسے بربادی سے روکنا از حد ضروری ہے۔
اسی طرح میرا یقین ہے کہ جن لوگوں کی اپنی ڈگریاں مشکوک‘ تجربے کے سرٹیفکیٹ جعلی اور مالی معاملات دگرگوں ہوں ان کے حوالے اکتیس عہدے اور ڈگریوں کی دکان نہیں کی جا سکتی۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved