تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-06-2015

دامن کو ذرا دیکھ ؟

اسفند یار ولی خان نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹ کو ہر گز تسلیم نہیں کریں گے ایسے ہی الفاظ ولی خان گروپ‘ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف کہتا رہا ۔ کالا باغ کو بموں سے اڑانے کی بار بار دھمکیاں دینے والے اسفند یار ولی خان‘ اپنی ہی حکومت کے دوران چارسدہ میں ایک دھماکہ سے خوفزدہ ہو کر اسلام آباد اور پھر وہاں سے امریکہ اور برطانیہ جا چھپے تھے۔ دھماکہ کے بعد ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ تو ہمیشہ کالا باغ ڈیم کو بم سے تباہ کرنے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے لیکن ایک بم چلنے سے آپ اب چارسدہ کا رخ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں؟۔ تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے ۔ٹی وی ٹاک شو ز اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ولی خان گروپ کی آئین سے محبت اور احترام کی باتیں سن کر لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ جو آئین اور عدلیہ کی باتیں کر تے ہوئے دوسروں کو آئین شکنی کے الزامات دے رہے ہیں‘ کیا بھول گئے ہیں کہ وہ تو خود گزشتہ تیس سالوں سے اس قوم اور ملک کو کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں کہ پانی اور بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اگر کالا باغ ڈیم بنا نے کی کوشش کی گئی تو اسے بموں سے تباہ کر دیا جائے گا۔ ان کی ذہنی کیفیت اور سوچ دیکھئے کہ جب روس افغانستان پر قابض تھاتو یہی لوگ تھے جو پاکستان کو سرخ طوفان کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ نوائے وقت کراچی کی 20 فروری1986ء کی اشاعت میں ان کی ایک تقریر چھپی تھی جس میں موصوف نے کہا تھا'' ہمیں کالا باغ ڈیم کے ذکر سے تنگ نہ کرو۔ یاد رکھو روس اس وقت درہ خیبر کے پاس کھڑا ہے۔ ہم نے اسے ایک آواز دینی ہے اور وہ اٹک تک پہنچ جائے گا‘‘۔مجھے اس ملک کے وکلاء حضرات بتائیں کیا یہ کسی محب وطن کا بیان ہو سکتا ہے ؟۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سینیٹر زاہد خان، بلور برادران اور شاہی سید فرماتے ہیں کہ ہم آئین کے پابند لوگ ہیں اور ہماری پارٹی نے کبھی بھی کسی فوجی ڈکٹیٹر اور اس کے مارشل لاء کی حمایت نہیں کی ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنے کی آڑ میں اسے فوجی جرنیلوں کا ایجنٹ ہونے کی قومی اسمبلی میں تحریک پیش کرنے والوں کو آئینہ دیکھنے کی ہمت ہو تو سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر)خالد محمود عارف کی کتاب ''Working With Zia'' کے صفحہ 160 کی آخری دو سطریں اور صفحہ161کی پہلی سطرپڑھ لیں جن میں جنرل عارف لکھتے ہیں کہ '' میری موجودگی میں ولی خان نے جنرل ضیا الحق کو ۔'In a mischievously jocular manner he(Wali Khan) once said to General Zia:' There are two corpses and a solitary grave. If the Bhutto,s body not buried first, you may be one to lead the way." ابھی ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان قتل کیس میں گرفتار بھی نہیں کیا گیا تھا کہ نیشنل عوامی پارٹی جنرل ضیا الحق کو سبق پڑھا رہی تھی کہ بھٹو کو پھانسی پر چڑھادو کیونکہ قبر ایک ہے اور تم دونوں میں سے کسی ایک کو اس میں جانا ہو گا۔۔۔۔ ‘‘ آئین و جمہوریت سے محبت رکھنے والے خود ہی فیصلہ کریں کہ اس سے زیا دہ فوجی جرنیلوں اور ان کے مارشل لاء کی مدد اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور بھٹو کے جیالوں کیلئے بھی یہ بات لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کہ جنرل ضیا کو بھٹو کی پھانسی کی ترغیب دینے والے یہی لوگ آج بھٹو کی پیپلز پارٹی کے سر پر تاج بنے بیٹھے ہیں؟۔
اسلام آباد میں دھرنے کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس
میںولی خان گروپ نے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف سمیت ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف آئین سے غداری کی جو تحریک پیش کی تھی اس پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا صرف ایک لطیفہ اور سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ سنا نا چاہتا ہوں۔ لطیفہ کچھ اس طرح ہے کہ سردار محمد خان نامی ایک شخص اغوا اور قتل کے الزام میں گرفتار ہوا۔ عدالت نے دستیاب شہادتوں اور ٹھوس ثبوتوں کی بنا پر سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ کمرہ عدالت کے باہر پولیس اسے ہتھکڑیاں لگانے لگی تو مجرم اور اس کے ساتھیوں نے مزاحمت کی۔ ملزم کے وکیل نے پولیس سے پوچھا تمہارے پاس جج صاحب کا فیصلہ ہے تو پولیس افسر نے عدالت کے فیصلے کی کاپی سامنے رکھ دی۔ وکیل نے جج کاحکم نامہ پڑھنے کے بعد ہنستے ہوئے کہا یہ فیصلہ توسردار محمد خان کے خلاف ہوا ہے اور جس شخص کو آپ گرفتار کرنا چاہتے ہیں اس کانام خان محمد سردار ہے‘ یہ دیکھو مجسٹریٹ کا تصدیق شدہ اس کے نام کی تبدیلی کا حلف نامہ اور شناختی کارڈ آپ سردار محمد خان کو گرفتار کر کے جیل لے جا سکتے ہو خان محمد سردار کو نہیں؟ اس لطیفہ کے بعد اب عدالت عظمیٰ کا ایک فیصلہ ملاحظہ فرمائیں‘ جسے چیف جسٹس جناب حمو دالرحمن، جسٹس یعقوب علی خان، جسٹس گل محمد خان، جسٹس صلاح الدین احمد، جسٹس انوار الحق اور جسٹس محمد افضل چیمہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے
3اکتوبر1975 ء کو سنایاتھا۔ سپریم کورٹ کے چھ رکنی معزز بنچ نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف اپنا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا'' ہم اپنے سامنے پیش کردہ مواد کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیںکرتے کہ نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے لیڈر پاکستان کے وجود اس کی سالمیت اور خود مختاری کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ نظریہ پاکستان کے بارے میں عوام کے یقین و اعتماد کو مجروح کرنے کے لئے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں‘ تاکہ اس بنیادی فکر کو ہی تباہ کر دیا جائے جو قیام پاکستان کی اساس ہے ہم اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نیشنل عوامی پارٹی پاکستان کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے ا سلئے قانون کے تحت ہم اسے توڑ دیئے جانے کا فیصلہ سنا تے ہیں (PLDسپریم کورٹ1976ء صفحہ165-166)۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد NAP ‘ ANP بن گئی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاسردار محمد خان سے ‘ خان سردار محمد نام بدل لینے سے فرد جرم ساقط ہو جاتی ہے؟۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے منا فی سرگرمیاں اے این پی کے تین الفاظ نے کی تھی یا اس میں شامل افراد نے؟۔۔ خان ولی خان کی کتاب''Facts Are Sacred''ملاحظہ کریں جس میں لکھا ہے'' پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے ہم نے کوئی گناہ کبیرہ نہیں کیا ،پاکستان کوئی قرانی حکم نہیں، تقسیم ہند کو ہم نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ہم اسے ہمیشہ تقسیمِ مسلمان سمجھتے ہیں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved