تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-06-2015

سرخیاں‘ متن اور اشتہارات

پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے
دن رات کام کر رہے ہیں... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں‘‘ تاہم فی الحال اشرافیہ اور تاجر طبقہ ہی بحرانوں سے نکل رہا ہے‘ امید ہے کہ پاکستانی عوام کی باری بھی جلد آجائے گی جس کے بحرانوں میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے جس میں قصور ہمارا نہیں بلکہ بحرانوں کا ہے جن کی ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہی حالانکہ کھانا کھانے کے بعد دماغ زیادہ کام کرنے لگتا ہے‘ اسی لیے اس میں زیادہ فراخدلی سے کام لیتے ہیں تاکہ دماغ مزید کام کرنے لگے‘ نیز دن رات کام کرنے سے تو آدمی کی ویسے بھی مت ماری جاتی ہے کیونکہ کام کرنے کے لیے دن اور رات آرام کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے بعض اوقات دن کو بھی آرام کرنا پڑتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''ملکی تعمیر و ترقی ہمارا ویژن ہے‘‘ جبکہ غنودگی کے عالم میں یہ ویژن مزید روشن اور تیز ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اقتصادی راہداری سے ملک میں خوشحالی آئے گی‘‘ اگرچہ میڈیا میں کروڑوں کی تشہیری مہم کے مطابق ملک میں کافی خوشحالی آ چکی ہے لیکن اس کے باوجود کسی کو اس کا یقین ہی نہیں آ رہا۔ آپ اگلے روز لاہور ایئرپورٹ پر گفتگو کر رہے تھے۔
اشیائے ضروریہ کے معیار پر کوئی سمجھوتہ
نہیں کیا جائے گا... شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''اشیائے ضروریہ کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘ کیونکہ مختلف معاملات پر پہلے ہی اتنے سمجھوتے کیے جا چکے ہیں کہ اب اس میں کوئی تبدیلی آنی چاہیے جبکہ ویرائٹی ہی زندگی کا اصل مزہ ہے‘ البتہ ان اشیاء کی قیمتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور چونکہ جمہوریت کا زمانہ ہے اس لیے کسی کے باتیں کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ باتیں تو باتیں ہی ہوتی ہیں چاہے وہ آسمان سے کی جائیں یا زمین سے۔ انہوں نے کہا کہ ''راولپنڈی میں پولیس کے ہاتھوں دو بھائیوں کے قتل کا واقعہ ظلم ہے‘‘ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے کہ پولیس کو تو ظلم کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور ہم کسی کی عادت کو کیسے تبدیل کر سکتے ہیں جبکہ ہم تو اپنی عادتیں تبدیل نہیں کر سکے کیونکہ خود پر جبر کرنا صحت کے لیے ویسے ہی نقصان دہ ہے۔ اسی احتیاط کی وجہ سے ہماری صحت روز بروز بہتر ہوتی چلی جا رہی ہے‘ خاص طور پر بھائی جان کی صحت تو اور بھی زیادہ قابلِ رشک ہو گئی ہے جس کی وجہ کم کھانا ہے اور جس پر وہ ہمیشہ سے عمل پیرا ہیں اور اصرار کرنے کے باوجود کھانے کو منہ نہیں لگاتے اور کہتے ہیں کہ میرے لیے قوم کا غم کھانا ہی کافی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں خطاب اور امریکی سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
ایشیئن ٹائیگر
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا عوام و خواص کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ہم ملک کو بہت جلد ایشیئن ٹائیگر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس پر تیزی سے کام جاری ہے اور اس میں خاصی پیش رفت بھی ہو چکی ہے۔ مثلاً یہ منصوبہ ہم نے اپنے پہلے اعلان کے مطابق 1990ء میں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں بتدریج کامیابی حاصل ہو رہی ہے کیونکہ فی الحال اس شیر کی دم ہی تیار ہو سکی ہے اور اللہ نے چاہا تو بہت جلد باقی شیر بھی مکمل ہو جائے گا؛ تاہم اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا کیونکہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا شیر ہوگا۔ البتہ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو عوام نے خاکسار کو ہی شیر کہنا شروع کردیا کہ میاں ساڈا شیر اے‘ باقی ہیر پھیر اے‘ اور روز بروز میری خاطر خدمت پر ہی توجہ دی جانے لگی کہ ایشیئن ٹائیگر یہی ہے لیکن بالآخر انہیں سمجھانے میں کامیابی حاصل ہوئی اور اصل شیر کی تعمیر کی طرف توجہ مرکوز کردی گئی۔ پھر مزید تاخیر اس لیے ہوئی کہ پارٹی کا انتخابی نشان ہی شیر مقرر ہو گیا اور لوگ حسب سابق پھر اسی مغالطے میں پڑ گئے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ خاکسار کی رہائش گاہ کے باہر دھات کا بنا ہوا ایک شیر ایستادہ کردیا گیا؛ تاہم اب پوری تندہی سے ایشیئن ٹائیگر کے سلسلے میں دن رات کام ہو رہا ہے‘ اس لیے عوام کو چند ہی سالوں میں خوشخبری ملے گی۔
المشتہر: نوازشریف عفی عنہ
انتباہ!
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا بھارتی وزیراعظم کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے پاکستان کے خلاف بیانات کی اپنی زہریلی مہم بند نہ کی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے جن میں سے ایک یہ ہوگا کہ ہمارے وزیراعظم اپنے بیانات میں بھارت کا باقاعدہ نام لینا شروع کردیں گے اور اگر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا تو جی کڑا کر کے بھارتی وزیراعظم کا بھی نام لینا شروع کردیں گے کہ بلوچستان وغیرہ میں بھارت کن کارستانیوں میں مصروف ہے جبکہ پہلے اس وجہ سے احتیاط برتی جا رہی تھی کہ بھارت کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو کوئی گزند نہ پہنچے‘ لیکن اس امن پسندانہ رویے کا الٹا اثر ہوا ہے اور مودی صاحب نے پاکستان توڑنے کا الزام بھی تسلیم کر لیا ہے اور اس بارے ہمارے ذہنوں میں جو شک شبہ تھا وہ کافی حد تک دور ہو گیا ہے بلکہ ہمارے وزیراعظم کے مودی صاحب کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے بھی بھارتی رویے میں کوئی نرمی نہیں آئی اور نہ ہی ساڑھیوں کا تحفہ بھیجنے سے کوئی فرق پڑا ہے جبکہ یہ بھی لاعلمی ہی کی وجہ سے ہوا کیونکہ ہمارے وزیراعظم کو معلوم ہی نہیں تھا کہ بھارتی وزیراعظم اپنی بیوی سے پہلے ہی بیزار اور الگ ہو چکے ہیں۔ چنانچہ امید ہے کہ اس اشتہار کے بعد مودی صاحب اپنے بیانات میں قدرے نرمی اختیار کریں گے ورنہ ہمارے وزیراعظم اپنے اگلے بیان میں بھارت کا نام لے کر بھی دکھا دیں گے!
المشتہر: حکومت پاکستان
آج کا مقطع
لرز رہی تھی مری لَو پڑے پڑے ہی، ظفر ؔ
وہ لے چلے ہیں کہاں سامنے ہوا کے مجھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved