تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     10-06-2015

سوال

بہت سی باتیں جواب طلب ہیں ۔ ایوانِ اقتدا رمیں کوئی تو اظہارِ خیال فرمائے ۔ بڑے میاں صاحب کے مصاحب کس نیند میں گم ہیں ؟
مثلاً یہ کہ جس دن جنرل راحیل شریف نے یہ کہا : پاک افواج چوکنا ہیں ؛چنانچہ دھمکی آمیز بھارتی روّیے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اسی روز وزیرِ اعظم نے یہ انکشاف کیوں فرمایا کہ تمام جنگیں مارشل لا ادوار جب کہ تمام کامیابیاں جمہوریت کی پیداوار ہیں ۔ کیسا بھلا ہوتا کہ زرداری جمہوریت میں قرض لیے گئے آٹھ ہزار ارب روپے پر بھی وہ روشنی ڈالنا پسند فرماتے کہ بجٹ کا ایک تہائی قرضوں اور سود کی واپسی پر مشتمل ہے ۔ اتفاق سے اس دوران کیمرے کا رخ میاں صاحب کے قریب تشریف فرما اعجاز الحق کی طرف ہوگیا ۔ محسوس یہ ہوتا تھا کہ موصوف اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ غالباً انہیں اپنے مرحوم والد ، مارشل لا حاکم جنرل ضیاء الحق کے میاں صاحب پر وہ احسانات یاد آتے ہوں گے ، جن کی بنا پر تین مرتبہ وہ مسندِ اقتدار پر تشریف فرما ہوئے۔ خیر ضروری تو نہیں کہ اعجاز الحق اسی سوچ میں گم ہوں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے کی حیثیت سے وہ یہ سوچتے ہوں کہ بنیادی طور پر یہ حق تو ان کا تھا، میاں صاحب جسے لے اڑے ۔ میاں صاحب کی تراش خراش کرنے والے جب ان سے مایوس ہوئے تو ایک زمانے میں وہ اعجاز الحق کی صورت میں ایک نیا مسیحا اس قوم کے سپرد کرنے پر غور کرتے رہے ۔ واقفانِ حال نے اس پر ہاتھ جوڑ لیے کہ آپ کا عطا کردہ ایک نگینہ ہی اس قوم پہ بھاری ہے ۔ یہ دوسرا تحفہ وہ کیونکر سنبھالے گی ؟
اسلام آباد کے دھرنے کے دوران خبررساں ایجنسی رائٹرز نے لکھا تھا :فوجی قیادت نے افغانستان ، امریکہ اور بھارت سے تعلقات سمیت خارجہ پالیسی میاں صاحب کی کمزور حکومت سے چھین لی ہے۔ ان کے ہاتھ میں اب روزمرّہ کے وہ امور ہیں ، جو ایک ڈپٹی کمشنر سر انجام دیتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہی غم میاں صاحب کے اظہارِ خیال کا سبب ہو ۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر سوال یہ کہ اس نازک وقت میں اس قیمتی انکشاف کی ضرورت کیا تھی ؟ اس وقت جب بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپیں معمول کا حصہ ہیں ۔ ا س وقت جب افغان ایوان ، عوام اور خود انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے این ڈی ایس اور آئی ایس آئی کے معاہدے پر سخت پاکستان مخالف ردّعمل کے بعد صدر اشرف غنی کو خط تحریر کرنا پڑا۔ اس وقت ، جب پاک افغان تعلقات بظاہر خوشگوار ، درحقیقت خرابی کی طرف جاتے نظر آتے ہیں ۔ اس وقت ، جب افغانستان میں بڑی محاذ آرائی اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں دیر پا امن کم از کم ایک عشرے کے فاصلے پر نظر آتا ہے۔
اس وقت ، جب چال چلنے والے معاشی راہداری کے خلاف منصوبہ بندی میں مصروف ہیں ۔ اس وقت ، جب پختون خو امیں ہنگامہ آرائی کا منصوبہ پوری طرح تیار ہے ۔ اس وقت جب ملک کی بقا کی خاطر فوج جنگ لڑ رہی ہے ۔ برسبیلِ تذکرہ ، سوات ، جنوبی اور شمالی وزیرستان کے تین بڑے آپریشنوں میں شہادتوں کی کل تعداد تقریباً 678 جب کہ دہشت گردوں کی ہلاکتیں اور گرفتاریاں 6551 رہیں۔ یہ ایک اور 9.7کا تناسب ہے ۔ سورۃ الانفال کی آیت 65 میں لکھا ہے کہ اگر تم میں 20صابر (جنگ جُو) ہوں گے تو وہ 200پر غالب رہیں گے ۔ یعنی ایک بمقابلہ 10۔ پاک فوج کے ایک جوان کا 10پر غالب آنا ایک اتفاق ہے یا وہ خدائی پیمانے پر پورے اترتے ہیں ؟ ا س سے اگلی آیت کہتی ہے کہ تمہاری کمزوری دیکھتے ہوئے، اللہ ایک بمقابلہ دو کی رعایت دیتا ہے ۔
ایک اور بات بھی وضاحت طلب ہے ۔ ایک بڑے روزنامہ میں لکھا ہے : مرغی ، انڈوں اور زرعی اشیا ، بشمول دودھ پر ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی نہ ہوگی ۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ شریف شہزادے یہ کاروبار فرما رہے ہیں؟ گستاخی معاف،بنیادی طور پر میں ایک بدگمان شخص ہوں ۔
امید کم ہے کہ ایوانِ اقتدار سے جواب موصول ہو، پھر بھی سوال یہ ہے : اقتصادی راہداری کے پسِ منظر میں جس گریٹ گیم کا آغاز ہوا ہے ، کیا وزیرِ اعظم کو اس کی کوئی بھنک ہے ؟میرے خیال میں اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے ۔دماغ کا بایاں حصہ روزمرّہ امور کے لیے مختص ہوتاہے اور دائیں میں تخلیقی صلاحیتیں چھپی ہیں ۔ میاں صاحب میں یہ دونوں بالترتیب کاروبار اور طعام پر مرکوز ہیں ۔
سری لنکا اور افغانستان سمیت ،خطے میں اثر و رسو خ کی چینی اوروہ بھارتی محاذ آرائی جاری ہے ، جسے امریکی پشت پناہی حاصل ہے ۔ شاہراہِ ریشم صرف پاکستان سے گزرکر گوادر کو چھونے والی ایک سڑک کا نام نہیں ۔ یہ ہزاروں برس پرانی وہ رہ گزر ہے ، مشرق اور مغرب کے درمیان جس کے ذریعے تجارت ہوا کرتی ۔ یہ وہ راستہ ہے ، چین جس کے ذریعے گوادر سے ذرا پہلے ایران داخل ہوتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ سے یورپ تک رسائی چاہتا ہے ۔یہ پوری دنیا میں ٹانگیں پھیلانے اور امریکی بالادستی ختم کرنے کی وہ چال ہے ، چینی قیادت نے عشروں کی خاموشی کے بعد جس پر کام کا آغاز کیا ہے ۔ دوسری طرف بھارت گوادر سے چند قدم کے فاصلے پر ایرانی بندرگاہ چاہِ بہار کی تعمیر سے مشرقِ وسطیٰ ، بالخصوص وسطیٰ ایشیا تک رسائی چاہتا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وسط ایشائی ریاستوں تک رسائی کے لیے بھارت کے لیے مختصر ترین رستہ یہ ہے کہ پاکستان سے مراسم خوشگوار بناتے ہوئے ، پہلا قدم وہ گلگت اور دوسرا تاجکستان میں رکھے۔ اس کے راستے میں دیو قامت بھارتی انا حائل ہے ۔ دہلی میں ہندو انتہا پسندی کا بھوت ناچ رہا ہے ۔ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے گلے میں مہاتمانریندرا مودی نے انگوٹھا دے رکھا ہے ۔
افغانستان کو ایک طرف رکھ دیجیے تو معاشی راہداری کے تحت خطے میں پاکستان چینی جب کہ بھارت امریکی اتحادی ہے ۔ خطے میں امریکی اتحادیوں کے ساتھ متنازعہ سمندری حدود پر چینی روّیہ اب جارحانہ ہے ۔ ان مقامات پر وہ مصنوعی جزائر اور تنصیبات قائم کر رہا ہے ۔ دو ہفتے قبل ایسی ہی ایک تنصیب کے اوپر سے گزرنے والے امریکی طیارے کو ، جس میں عالمی میڈیا کے اراکین سوار تھے، چینی بحریہ نے آٹھ مرتبہ وارننگ جاری کی تھی ۔
میرا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم ان سب باتوں سے لا علم ہیں ۔ وزیرِ اعظم کے مشیر عرفان صدیقی صاحب براہِ کرم یہ سب ان کے گوشِ گزار کر دیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved