تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-06-2015

میراث

ہاں مگر دانش اور سلیقہ مندی ۔ فرمایا: حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔ ہم نے واقعی اسے کھو دیا ۔ درد بھی ، علم بھی ، حکمت بھی۔
ڈاکٹر امجد ثاقب سے بات کی تو اکبر ؔ الٰہ آبادی یاد آئے۔ سرسیّد کے ناقد تھے مگر ان کی وفاتِ حسرت آیات پر یہ کہا:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، سیّد کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والوں میں
ذہانت سبھی کوبخشی گئی ۔ ہر آدمی 1300سی سی کی کھوپڑی رکھتاہے مگر غور و فکر کا سلیقہ کمیاب ہے بلکہ نایاب ۔ بے بسی اور بے چارگی میں کچھ نہ سوجھا توڈاکٹر صاحب سے عرض کیا: روہنگیا مسلمانوں کے لیے آپ ایک فنڈ کیوں قائم نہیں کرتے؟ کہا: نجی اہتمام سے مسائل جنم لیں گے ۔ بہتر ہے کہ یہ کام خود حکومتِ پاکستان کرے ۔امدادبرما حکومت کے ذریعے صرف کی جائے ۔ مراد یہ تھی کہ ہمارا مقصد مجروح مسلمانوں کی اعانت ہے ،برما سرکار سے تصادم نہیں ۔
بحث ہوئی تو تدبیر کے خطوط ابھرنے لگے ۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اگر سعودی عرب ، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے تعاون سے ایک گروپ تشکیل دیں ۔ اگر مسلم ممالک کی تنظیم اسلامی کانفرنس کو شریک کر لیا جائے تو برما پہ کچھ دبائو بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے پانچ ملین ڈالر کا اعلان کیا ۔ ترکی ، سعودی عرب او رخلیجی ممالک کہیں زیادہ کر سکتے ہیں ۔ حکومت اگر عبدالستار ایدھی ایسی غیر متنازعہ شخصیات کو مہم کا حصہ بنالے تو آسانی سے دس ملین ڈالر جمع کیے جا سکتے ہیں ۔ مسلسل کاوش سے ممکن ہے کہ یہ رقم ایک ارب ڈالر تک جا پہنچے ۔ ایک بلین نہ سہی ، دو تین سو ملین ہی سہی ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بیس لاکھ روپے وہ فراہم کر سکتے ہیں ۔ برما ایسا غریب ملک سرمایہ کاری کا کیوں خیر مقدم نہ کرے گا؟
ترقی پسند نام کی ایک مخلوق پائی جاتی ہے ۔ سب کے سب نہیں، ان میں سے بعض بہت ہی بے درد ہیں ۔ امّت کے تصور کو وہ تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ مت کیجیے لیکن دوسروں کو آپ کیسے روک سکتے ہیں ۔ زکوٰۃ کا جو تھوڑا سا روپیہ ہمارے پاس پڑا ہو ، اس کا کچھ حصہ کسی روہنگیا خاندان پہ صرف ہونا چاہیے ۔
سورہ فاتحہ کے بعد قرآنِ کریم کی پہلی سورۃ کی اوّلین آیت یہ ہے : یہ ہے وہ کتاب ، جس میں کوئی شک نہیں ۔ اہلِ تقویٰ کو ہدایت کی راہ دکھاتی ہے ، غیب پر جو ایمان لاتے ہیں ، نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔توہدایت پانے کی تین لازمی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ ضرورت مند پہ خرچ کیا جائے ۔ غریب رشتہ دار کے حقوق سب سے زیادہ ہیں ۔ پھرپڑوسی کے ، پھر تمام اہلِ احتیاج کے ۔ فرمایا: اس بستی کی حفاظت کا میں ذمہ دار نہیں ، جہاں کوئی بھوکا سو رہے۔
اقبالؔ نے کہا تھا: جہاں کہیں روشنی ہے ، وہ مصطفیؐ کے طفیل ہے یا مصطفی ؐ کی تلاش میں ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس راز کو پا لیا تھا۔ ساڑھے آٹھ لاکھ ضرورت مندوں کو غیر سودی قرض وہ دے چکے ۔ ان میں غیرمسلم بھی شامل ہیں ۔وہ سب لوگ اپنے پائوں پر کھڑے ہیں ۔ یہ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سے مختلف اور بہتر ہے ۔ اس کے تحت ہر سال ایک سو ارب روپے بانٹے جاتے ہیں مگر وہ محتاج کے محتاج ہی رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کی ''اخوت‘‘ جن کی مدد کرتی ہے ، وہ خود کفیل ہو جاتے ہیں کہ یہ کام پوری منصوبہ بندی سے ہوتاہے ۔ ایک وقت آتا ہے کہ ان میں سے بعض دوسروں کی مدد کرنے لگتے ہیں ۔
کعبہ کے جوار میں اپنے عصر کے عارف نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے : یا رب عازمینِ حج کی عبادت قبول فرما۔ خواب میں انہیں بتایا گیا کہ سبھی کا حج مقبول ہوا‘ اس ایک شخص کے طفیل جو حجازِ مقدس پہنچ ہی نہ سکا۔ پڑوس میں اس نے بچّوں کے رونے کی آواز سنی ۔ بھوک کی بے بسی میں گریہ کناں کمسن ۔ سینت سینت کر جمع کیا ہوا روپیہ اس نے ان کے حوالے کر دیا۔ حافظہ اگر یاوری کرتاہے تو اس عارف کا نام عبد القادر تھا۔ غو ث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ۔
ابھی کچھ دیر پہلے ایک ممتاز سیاستدان نے صوفی سے کہا: کوئی اچھی سی دعا بتائیے ، کوئی بہت طاقتور دعا۔ کہا: شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے کسی نے اسمِ اعظم کے بارے میں سوال کیا تھا۔ فرمایا: دل سے اللہ کا جو نام بھی لو گے ، وہ اسمِ اعظم ہوگا۔
ایسے لوگوں سے میں واقف ہوں، اسمِ اعظم سے جو آشنا ہیں۔ ان کی تاریک زندگیوں میں مگر اجالا نہ ہو سکا۔ منصب و جاہ اور دولت و ثروت کی محبت آدمی کو آدمی کب رہنے دیتی ہے ؛چہ جائیکہ کہ سچّا اور کھرا مسلمان بنا دے ۔ آدمی یا تواللہ سے محبت کر سکتاہے یا دولت اوردنیا سے ۔
نجابت کی سب سے بڑی پہچان بخل سے نجات ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، آدمی اگر اپنے خون پسینے کی کمائی میں سے ایثار نہیں کر سکتا تو وہ کچھ بھی ہو سکتاہے ، حقیقی معنوں میں معزز اور معتبر کبھی نہیں۔ ارب پتی اور کھرب پتی ،وزیرِ اعلیٰ اور گورنر، وزیرِ اعظم اور صدر وہ بن سکتاہے ۔خدا کی بادشاہت میں مگر اس کاکوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس آدمی سے زیادہ غریب کون ہے ، جس کے پاس دولت کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔
این جی اوز پر پلنے والے ترقی پسندوں کو ہم نے کہتے سنا‘ روہنگیا مسلمانوں کی بجائے اپنی فکر کرو۔ ''بھائی، کسی نے کبھی بھکاری سے مدد مانگی ہے ۔ آپ سے کون مانگتا ہے؟‘‘ ہم ''رجعت پسند‘‘ اللہ کے آخری رسولؐ کی ہر بات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس مبارک کتاب کے ایک ایک لفظ پر، جو عالی مرتبتؐ پر اتاری گئی ۔ کتاب اور رحمتہ اللعالمینؐ کے مطابق مسلمان جسدِ واحد ہیں ۔ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارے جسم کو پہنچتی ہے ۔ ناقص، ناکردہ ، بلکہ بے علم اور برے سہی مگر کیا امّت ہی سے خارج ہو جائیں ؟ آخری امید بھی کھو دیں ؟ آخری کرن بھی بجھا دیں ؟
مگر جیسا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا : بروئے کار حکمت وتدبیر کے ساتھ آنا چاہیے۔ بے حسی مایوسی ہے ۔مایوسی موت ہے اور کفرہے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں کوئی مظلوم ہے، ابتلا اور آزمائش سے دوچار ، اس کی مدد کی جانی چاہیے، جتنی کہ کوئی کر سکے۔ بے دریغ خرچ کرنے والوں کو ، اللہ کی آخری کتاب ان الفاظ سے بشارت دیتی ہے ، جو اولیا کے لیے مخصوص ہیں۔ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون۔ خوف اور غم سے وہ آزاد کر دیے جاتے ہیں ۔ بعض اعتبار سے غیر مسلم بھی مستثنیٰ نہیں۔ ان میں سے محتاجوں کے جو دستگیر ہیں ، وہ پھلتے پھولتے ہیں اور بے حد و حساب ۔ مال و دولت سے بے نیازی شاید سب سے بڑا انسانی وصف ہے ۔ بعض پیدائشی طور پر ایثار کیش ہوتے ہیں ۔ پھر بھی کامل بے نیازی اپنے خلاف جنگ آزما ہونے سے جنم لیتی ہے ۔ بخل کم ہو سکتاہے اور بتدریج ختم بھی ۔اگر آدمی اپنے آپ سے لڑتا رہے ۔ مشاہدہ یہ کہتاہے کہ ایسے لوگوں کا رزق بڑھتا چلا جاتاہے ۔
ایک عشرہ ہوتاہے ، خوش بختی سے ایک درویش میرے ہاں تشریف لائے ۔ حسنِ اتفاق سے ایک مقبول اخبار نویس بھی ۔ قلمکار سے فقیر نے کہا: اپنی مٹھی کھول دو۔ واقعی اس نے کھول دی۔ بڑھتے بڑھتے اس کی تنخواہ چالیس گنا بڑھی۔ شہرت ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگی۔
ہاں مگر دانش اور سلیقہ مندی ۔ فرمایا: حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔ ہم نے واقعی اسے کھو دیا ۔ درد بھی ، علم بھی ، حکمت بھی۔
پسِ تحریر: میرا فیس بک اکائونٹ facebook.com/haroon.natamam اور پیج facebook.com/Natamam.Officialہے۔ اس کے علاوہ بعض حضرات جعلی اکائونٹ اور پیج بھی چلا رہے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved