تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     11-06-2015

بھارت‘ بنگلہ دیش اور نریندر مودی

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش میں ان کا خاصا سواگت کیا گیا۔ اگرچہ توقع کے برعکس دریائے ٹیسٹا کے پانی کی تقسیم پر سمجھوتے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی؛ تاہم نریندر مودی کے اس دورہ میں دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں تعاون کیلئے جن معاہدات اور ایم او یوز پر دستخط ہوئے، اْن سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں تجارت‘ آمدورفت‘ کاروباری رشتوں اور دفاعی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ سب سے زیادہ نمایاں دونوں ملکوں کے درمیان 4000 کلومیٹر سے زیادہ لمبی سرحد کی مستقل حد بندی کے معاہدے کی دستاویز کا تبادلہ ہے۔ یہ معاہدہ 1974ء میں طے ہوا تھا‘ لیکن بھارت میں اپوزیشن اور خصوصاً بی جے پی کی مخالفت کی وجہ سے کانگرس اپنے طویل دورِ حکومت میں اس کی بھارتی پارلیمنٹ سے توثیق نہ کروا سکی تھی۔ اس معاہدے کی توثیق اور بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان اس کی دستاویز کے تبادلے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے اسے دیوارِ برلن کے انہدام سے تشبیہ دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش کی سرحد طویل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت پورس (Porous) ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ غلطی سے سرحد عبور کر کے بھارت سے بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش سے بھارتی علاقوں میں آ جاتے ہیں‘ جہاں دونوں ملکوں کی بارڈر سکیورٹی فورس اْن کو گرفتار کر لیتی ہے۔ چونکہ سرحدی علاقوں میں دریائوں اور ندی نالوں کا جال بچھا ہوا ہے‘ اس لیے سرحد کی نشاندہی تقریباً ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ کہ متعدد سرحدی علاقے کی ملکیت پر دونوں ملکوں میں جھگڑا چلا آ رہا ہے۔ اس قسم کے متنازع سرحدی علاقوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔ 1974ء کے معاہدے کے تحت ان میں سے سو سے زائد پر بنگلہ دیش کی ملکیت تسلیم کی جائے گی اور باقی پچاس کے قریب بھارت کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان ایک دیرینہ سرحدی تنازع اختتام پذیر ہو جائے گا، بلکہ اس تنازع سے متاثرہ 50,000 لوگوں کی قانونی اور آئینی حیثیت بھی مستقل طور پر متعین ہو جائے گی‘ جو دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی اور جھڑپوں کے باعث کبھی بنگلہ دیش کے علاقوں میں اور کبھی بھارتی سرزمین پر پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
سرحدی تنازع کے حل کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش میں جن 22 معاہدات پر دستخط ہوئے‘ اْن میں سے جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور پاکستان کے طویل المیعاد قومی مفادات کے حوالے سے تین معاہدات بہت اہم ہیں۔ ان میں سے ایک معاہدے کے تحت بنگلہ دیش نے بھارتی بحری جہازوں کو چٹاگانگ اور موننگلہ کی بندرگاہوں میں لنگر انداز ہو کر اپنا سامان اْتارنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے پہلے بھارتی جہازوں کو خلیج بنگال عبور کر کے سنگا پور جانا پڑتا تھا۔ بھارتی بحری جہاز سنگا پور میں اپنا مال اْتارتے تھے اور پھر یہ سامان بنگلہ دیش میں داخل ہوتا تھا۔ اس کی وجہ سے بھارت سے بنگلہ دیش کیلئے مال 30 سے40 دن کی تاخیر سے پہنچتا تھا‘ اب اس سامان کو بنگلہ دیش پہنچانے میں صرف ایک ہفتہ لگے گا۔
لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چٹاگانگ کی بندرگاہ کو چین نے تعمیر کیا تھا اور بھارتی جیوسٹرٹیجک حلقوں کے دعووں کے مطابق چین بحر ہند پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے ''موتیوں کے ہار‘‘ String of Pearls کے نام سے جس حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے، چٹاگانگ کی بندرگاہ کو اْس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح چٹا گانگ بندرگاہ تک رسائی حاصل کرکے بھارت نے چین کی اْس حکمتِ عملی میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
دوسرے معاہدے کا تعلق بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وزیر اعظم مودی کی جانب سے بنگلہ دیش کیلئے دو بلین ڈالر کے قرضے کا اعلان ہے۔ اس قرضے کا مقصد بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش میں سڑکوں اور ریلوے نظام کو بہتر بنانا اور بنگلہ دیش کو بھارت سے مزید بجلی درآمد کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش‘ جو پاکستان کی طرح توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے، بھارت سے500 میگاواٹ بجلی درآمد کر رہا ہے۔ نریندر مودی نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ آئندہ دو برس میں بھارت سے بنگلہ دیش کو جانے والی بجلی کی مقدار میں 1100 میگاواٹ تک اضافہ کر دیا جائے گا۔
تیسرے معاہدے کے تحت بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان دو مزید بس سروسز کا اجرا کر دیا گیا ہے۔ یہ بس سروس ڈھاکہ سے اگرتلہ اور ڈھاکہ سے شیلانگ تک ہو گی۔ بنگلہ دیش کیلئے یہ دونوں بس سروسز اس لیے مفید ہیں کہ ان کے ذریعے نہ صرف بنگلہ دیش کو بھارت کے شمال مشرقی ریاستوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی، بلکہ بنگلہ دیش اپنے روابط کا دائرہ بھوٹان اور نیپال تک بڑھا سکے گا۔ اس طرح بنگلہ دیش‘ بھوٹان اور نیپال کو ساتھ ملا کر بھارت جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کے اندر ایک سب ریجنل گروپ بنانے کی جو کوشش کر رہا ہے، اْسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔
دلچسپ بلکہ کسی حد تک حیران کْن بات یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان یہ قریبی روابط اور تعاون اور خیر سگالی پر مبنی تعلقات ایک ایسے وقت میں قائم کیے جا رہے ہیں جب بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ماضی میں بھارت اور بنگلہ دیش میں دوستی اور تعاون کی سب سے زیادہ مخالفت بی جے پی کی طرف سے کی جاتی رہی ہے‘ بلکہ ایک موقع پر بی جے پی نے بھارتی سالمیت اور قومی یک جہتی کیلئے بنگلہ دیش کو پاکستان سے بھی بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ بنگلہ دیش سے بنگالی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا ہر سال بھارت میں محنت مزدوری، تعلیم، سکونت بلکہ بھارت سے گزر کر پاکستان میں آمد کا سلسلہ تھا۔ اب بھی مغربی بنگال کے سرحدی علاقوں میں کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنے کیلئے ہزاروں بنگلہ دیشی روزانہ آتے ہیں۔ بیشتر کام کر کے واپس چلے جاتے ہیں‘ لیکن ایک اچھی خاصی تعداد وہیں ٹھہر جاتی ہے یا کلکتہ کا رْخ کرتی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ بھارت کے دیگر بڑے شہروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ چونکہ یہ سب کچھ اْس وقت ہو رہا تھا جب مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کی حکومت تھی، اس لیے بی جے پی نے ہر الیکشن میں بنگلہ دیش سے مسلمان بنگالیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی مغربی بنگال اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں آمد اور مقام کو ایک بہت بڑا ایشو بنا کر پیش کیا اور انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔
لیکن اب ایک سوچی سمجھی سیاسی اور علاقائی حکمتِ عملی کے تحت بی جے پی نے یُوٹرن لیا ہے۔ اس کا مقصد بھارت کے اردگرد واقع چھوٹے ممالک یعنی نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کو فروغ دے کر بھارت کے قریب لانا ہے‘ تاکہ یہ ممالک چین کے زیر اثر نہ چلے جائیں۔ دوسرا مقصد خطے میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنا ہے کیونکہ پاکستان نے نہ تو بھارت کے ساتھ کھلی اور عام تجارت قائم کر رکھی ہے اور نہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت نریندر مودی نے گزشتہ سال مئی میں وزیر اعظم کے عہدے کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو شرکت کیلئے بلایا تھا‘ لیکن چونکہ خطے میں امن، تعاون اور خیر سگالی بھارت اپنی شرائط پر حاصل کرنا چاہتا ہے‘ اس لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کی کوشش آگے نہ بڑھ سکی۔
جہاں تک جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے ممالک مثلاً بنگلہ دیش کا تعلق ہے، اْن کی سب سے بڑی کمزوری اْن کا جغرافیائی محلِ وقوع ہے۔ اگر ہم بنگلہ دیش کے نقشے پر نظر ڈالیں تو وہ ایک طرف خلیج بنگال اور تین طرف سے بھارتی علاقوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس لیے بھارت کے ساتھ پْرامن اور نارمل تعلقات اْس کی مجبوری ہے۔ بنگلہ دیش کے ماہرین معاشیات کی رائے ہے کہ بھارت کے ساتھ قریبی تجارتی اور مواصلاتی تعلقات کے بغیر بنگلہ دیش معاشی ترقی کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہو یا کسی اور پارٹی کی، بنگلہ دیش کو بھارت خصوصاً مغربی بنگال کے ساتھ تجارت، آمدورفت اور تعلیم کے شعبوں میں تعلقات قائم رکھنا پڑیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved