رہ گیا مشتاقؔ دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے‘ قبریں پرانی ہو گئیں
ہوتی ہے شام‘ آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
کیا وہ دن تھے کہ سبھی ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں‘ کوئی کہیں رہتا ہے
چلتے چلتے جو تھکے پائوں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھڑی پہ دھری‘ خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رُخسار کی دھوپ
دھیان ہر لحظہ ترے سایۂ در پر رکھا
وہ پتیوں سے بھری ٹہنیاں‘ تری باہیں
بُلا رہے ہیں شجر تیرے آستانے کے
یہ اور ایسے ہی کئی اور اشعار ہیں‘ احمد مشتاق جن کی وجہ سے ا حمد مشتاق ہے۔ وہ میرا ہم عصر اور محبوب شاعر ہے‘ حریف نہیں۔ میں نے اپنے کلیات کی پانچویں جلد اس کے نام انتساب کر رکھی ہے اور گاہے بگاہے اس کا فون بھی آتا رہتا ہے۔ کسی میرے یا احمد مشتاق جیسے 80/85 کے پیٹے کے شاعر سے یہ توقع رکھنا کہ اس کے کلام میں وہی تازگی‘ تاثیر اور لطفِ سخن ہو جو اس کی پہچان اور شناخت ہے تو یہ بات قانونِ قدرت ہی کے خلاف ہے کیونکہ شاعری کے لیے جس وفور اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ عمر کے ساتھ گھٹتی رہتی ہے اور ایک ٹھہرائو سا آ جاتا ہے جس پر کسی کو بھی حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
''مجموعہ‘‘ اور ''گردِ مہتاب‘‘ کے بعد اس کا یہ تیسرا مجموعۂ کلام ہے جو تیس برس کے بعد آیا ہے۔ اسے ''ریختہ فائونڈیشن‘‘ نئی دہلی نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 250 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا نام غالباً ناصر کاظمی کے اس مصرعے سے لیا گیا ہے ع
اُڑے جاتے ہیں اوراقِ خزانی
اس کتاب کا دیباچہ شاعر اور نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی نے لکھا ہے۔ ان کے مطابق احمد مشتاق اس کی اشاعت پر مشکل ہی سے آمادہ ہوئے۔ اپنے آپ کا سب سے بہتر اندازہ خود شاعر ہی کو ہو سکتا ہے کہ اس کے ہاں کیا صورتِ حال ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ وہ واقعتاً اس پر آمادہ نہ ہوتے کیونکہ احمد مشتاق کا نام اور کام ایسا ہے کہ اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں جنہیں پورا نہ ہوتے دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ بے شک میں اور احمد مشتاق جو اور جیسی شاعری کر چکے ہیں‘ ہم سے اُس کا کریڈٹ چھینا نہیں جا سکتا۔ مجھے مختلف دوستوں کی اپنی حالیہ شاعری کے بارے آرا بھی موصول ہوتی رہتی
ہیں‘ مثلاً ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا کہنا ہے کہ ظفر اقبال کی شاعری زوال آمادہ ہے۔ شمیم حنفی کے مطابق بھی اس میں اب وہ اگلی سی بات نظر نہیں آتی۔ شمس الرحمن فاروقی کے خیال میں ظفر اقبال اچھی شاعری کر چکے ہیں۔ میں ان آراء پر پریشان ہرگز نہیں ہوتا ہوں کیونکہ اگر یہ شاعری زوال آمادہ ہے تو کمال کا درجہ بھی کبھی ضرور رکھتی ہوگی۔ دوسرے یہ کہ میں اپنی اچھی شاعری کے بارے میں بھی کبھی خوش گمانی میں مبتلا نہیں ہوا چہ جائیکہ میں اپنی موجودہ شاعری پر ناز کرنے بیٹھ جائوں۔ چور چونکہ چوری سے جاتا ہے‘ ہیرا پھیری سے نہیں‘ اس لیے میں اسے اپنی ہیرا پھیریاں ہی کہا کرتا ہوں۔
چند سال پیشتر جب کبھی کبھار ''دنیا زاد‘‘ میں اس کی غزلیں دیکھنے کا موقع ملتا تو میری رائے یہ ہوتی تھی کہ ان میں احمد مشتاق کہیں نظر نہیں آتا اور مجھے مدیر آصف فرخی نے بتایا بھی کہ احمد مشتاق اپنی نئی شاعری کے بارے میں کچھ زیادہ سنجیدہ یا پُرجوش نہیں ہیں بلکہ وہ اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ اب وہ تھک چکے ہیں۔ ڈاکٹر شمیم حنفی نے اپنے 14 صفحات پر مشتمل دیباچے میں احمد مشتاق کے 42 شعر نقل کیے ہیں جن میں زیادہ تر معمولی نوعیت کے ہیں بلکہ وہ اس احمد مشتاق کے لگتے ہی نہیں جنہوں نے میرے جیسوں کو بھی اس کا مداح بنا رکھا ہے۔
انتظار حسین نے اپنے کالم میں اس کے جو اشعار نقل کیے ہیں وہ بھی کوئی غیر معمولی اشعار نہیں ہیں‘ نہ ہی فکشن رائٹر انتظار حسین کو شاعری پر کوئی اتھارٹی سمجھنا ضروری ہے کہ انہوں نے باصر سلطان کاظمی کی بے حد معمولی شاعری پر بھی داد و تحسین کے بے شمار ڈونگرے برسا دیئے تھے۔ البتہ وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں اس کے کچھ بہتر شعر نکالے ہیں‘ شاید اس لیے کہ موصوف خاصا شعری ذوق رکھنے کے علاوہ شعر و سخن کی محفلوں میں پائے بھی جاتے ہیں اور اس کا چشم دید گواہ میں خود بھی ہوں۔ بہرحال‘ ڈاکٹر شمیم حنفی کے منتخب اشعار میں سے کچھ یہ ہیں:
اس لیے حالِ دل نہیں کہتا
کہیں جذبات میں نہ بہہ جائوں
یہ جو بھی ہو بہار نہیں ہے جنابِ من
کس وہم میں ہیں دیکھنے والے پڑے ہوئے
یہ ترا طور سمجھ میں نہیں آیا مشتاقؔ
کبھی ہنستے چلے جانا کبھی اتنا رونا
مدتیں ہو گئیں دیکھا ہی نہیں اس کی طرف
اسی ڈر سے کہیں بدلا نہ ہوا لگتا ہو
لوگ پہلے ہی کون سا خوش ہیں
کیوں کسی کو خفا کرے کوئی
اسی چکر میں زمانے گزرے
دن چڑھا‘ شام ہوئی‘ رات آئی
اب مجھ کو داد سارا زمانہ بھی دے تو کیا
جس کے لیے لکھا تھا اسی نے نہیں پڑھا
اپنی بھی دوستی تھی چراغِ ملال سے
طاقِ شب ملال کبھی روشنی تھے ہم
ہم گرے ہیں جو آ کے اتنی دُور
کس نے پھینکا گھما کے اتنی دُور
آج کا مقطع
تارے سے دل میں ٹوٹتے رہتے ہیں‘ اے ظفرؔ
اور ساری ساری رات دھڑکتا ہے آسماں