تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     12-06-2015

گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی

عوامی مسائل سے لاتعلق حکمرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام سے بری طرح کٹ کر شاہی نیند سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں ۔ اس شاہی نیند کے لئے انہیں ایک ڈیڑھ درجن خوشامدی ‘انا کے مساج کے لئے دستیاب ہوتے ہیں۔ سونے سے پہلے پیشہ ور داستان گوانہیں سب اچھا پر مبنی کہانیاں سناتے ہیں اور وہ دنیا کی سب سے آسودہ اور مطمئن ہستیاں بن کر اس نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں‘ جسے تحفظ دینے کے لئے قریباً 10ہزار کی سکیورٹی فورس ہمہ وقت مستعد اور ان کی حفاظت پر مامور رہتی ہے۔ ان کے دیگر مصاحب ‘ قصیدے پڑھ پڑھ کے انہیں باور کراتے ہیں کہ عوام دن رات ان کے گن گاتے ہیں اور ہر روز ان کے یقین کو پختہ کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے سب سے اہل ‘ مقبول اور مہربان حکمران ہیں۔ یہ مصاحب بھی بڑے کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ ایسے الفاظ میں ایسی کہانیاں ان کے گوش گزار کرتے ہیں کہ ان کے چاروں طرف راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور ان کے برے سے برے مخالفین‘ دل کی گہرائیوں سے بادشاہ سلامت کی عزت کرنے لگے ہیں۔ ایسے قصے چند ماہ قبل ہم نے افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی کے حوالے سے سنے۔ ایسی ایسی کہانیاں بیان کی گئیں کہ کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے دلوں میں پاکستانی حکمرانوں سے گہری محبت پیدا ہو گئی ہے اور اب وہ دن رات ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔جن خبروں یا تجزیوں میں کہیں یہ ذکر آتا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے دبے لفظوں میں پاکستانی حکمرانوں سے کوئی شکایت کی ہے‘ تو وہ تحریر شاہی محلات کی دیواروں کے اندرنہیں آ سکتی۔ ایک زمانہ تھا کہ ایوب خان کے لئے ان کے مصاحبین پورے کا پورا اخبار ''پاکستان ٹائمز‘‘ بطور خاص چھپوا کر شاہی مطالعے کے لئے پیش کر دیتے۔ اس زمانے میں یہی ایک انگریزی کا اخبار تھا‘ جسے پڑھ کر اس دور کا شاہی خاندان بڑے خوشگوار انداز میں صبح کا استقبال کرتا اور باقی دن مزید اچھی اچھی خبریں سننے میں گزار دیا جاتا‘ جس کام کے لئے مصاحبین رکھے جاتے تھے۔ شاہی مصاحبین کا قصہ بھی کوئی نیا نہیں۔ یہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ مصاحبین کے چہرے بدل جاتے ہیں‘ لیکن کام ان کا وہی رہتا ہے کہ شاہی خاندان کے کانوں تک کوئی ایسی بات نہ پہنچے‘ جس سے پتہ چلتا ہو کہ رعایا کو ان سے کسی قسم کی شکایت ہے۔
اگر کوئی ہٹ دھرم یا احسان فراموش شہری‘ بادشاہ کے بارے میں سچ بولنے پر بضد ہو‘ تو یہ مصاحبین حتی الامکان اسے خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ پھر بھی بولتا رہے‘ تو پہلے ہی سے حفاظتی تدابیر اختیار کر کے‘ اسے خبطی‘ نیم پاگل اورضدی مشہور کر کے‘ شاہی آسودگی میں کسی قسم کا خلل نہیں پڑنے دیتے۔ ایسا ہی ایک سرپھرا عمران خان صرف دو سال پہلے شاہی خاندان کے خلاف مکروہ الزام تراشیاں کرنے لگا تھا۔ شروع میں تو مصاحبین بہت سٹپٹائے‘ مگر آہستہ آہستہ سب نے مل کر اسے خبطی اور دیوانہ ثابت کرنا شروع کر دیا۔ وہ عوام کے مسائل کاذکر کرتا‘ تو مصاحبین سنتے ہی بے تحاشہ ہنسنا شروع کر دیتے کہ کیسی احمقانہ باتیں کر رہا ہے؟ وہ کہتا ''عوام بیروزگاری سے تنگ ہیں‘‘ تو مصاحبین ہنستے ہوئے کہتے کہ ''یہ دیوانہ ہو گیا ہے۔ اسے پتہ ہی نہیں کہ عوام ‘ شاہی خاندان کی شان میں کیسی کیسی قصیدہ گوئی کرتے ہیں؟‘‘ اور اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ادھر عمران عوام کے مسئلے اٹھاتا ہے اور مصاحبین ایک دوسرے کو آنکھ مار کے زورزور سے ہنسنا شروع کردیتے ہیں کہ ''اتنی خوشحال رعایا کے سامنے یہ دیوانہ ان سے کیا کیا منسوب کر کے‘ بادشاہ کے نام لگاتا ہے؟‘‘ اسی طرح کا ایک قصہ ہے کہ شہر کی ایک معزز شخصیت کے بارے میں چند مسخروں نے اس کی ہر بات اور حرکت پر ہنسنا شروع کر دیا۔ وہ ہاتھوں سے اپنے سر کے بال درست کرتا‘ تو یہ دیکھ کر ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے کہ ''دیکھو!بالوں کو ہاتھ لگا رہا ہے‘‘ اور جب وہ ہاتھ نہیں لگاتا تھا‘ تو یہ کہہ کر ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے کہ ''یہ اب بالوں کو بھی ہاتھ نہیں لگاتا۔‘‘ وہ چائے پیتا‘ تو یہ ایک ساتھ کہتے کہ ''دیکھو! چائے پی رہا ہے ‘‘اور نہیں پیتا تھا‘ تو کہتے ''چائے بھی نہیں پی رہا۔‘‘
آپ کو شاید یقین نہ آئے‘ لیکن آپ اخبارات پڑھ کے دیکھئے۔ مصاحبین کے بیانات پڑھیے‘ جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مصاحبین کسی معقول سے معقول شخص کو بھی مضحکہ خیز بنا کردرباری فرائض ادا کرتے ہیں۔ جیسے عمران خان نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا‘ تو شاہی خاندان پہلے بہت پریشان ہوا‘ لیکن آہستہ آہستہ انہیں پرانی ترکیب یاد آئی اور انہوں نے عمران کی ہر بات کو دہرا کر ہنسنا شروع کر دیا۔ آج کل ان کا تازہ ترین جملہ یہ ہے ''عمران اسی طرح کی باتیں کر رہا ہے۔‘‘ سب ایک دوسرے کو آنکھ مار تے اور قہقہے لگانا شروع کردیتے۔میڈیا اور مصاحبین مل کر روزانہ ایک ہی بات دہرا دہرا کر بے تحاشا ہنستے اور کہتے جاتے کہ ''خان صاحب ایسے ہی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ مصاحبین کے رِنگ لیڈرایک بات کرتے ہیں اور باقی ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ رِنگ لیڈر بجلی کے ریٹ بڑھاتے ہیں‘ تو سب یہ کہہ کر ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے ہیں کہ ''لوجی! کہہ رہا ہے بجلی مہنگی ہو گئی۔‘‘باقی تمام پارٹیاں اور تمام لیڈرایک طلسماتی دنیا میں بسنے لگے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں گوشت مہنگا ہو گیا‘ تو مصاحبین یہ کہہ کر ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے ہیں ''لوجی! خان صاحب کہتے ہیں گوشت مہنگا ہو گیا۔ ہاہاہا۔‘‘ خان صاحب شفاف الیکشن کی بات کرتے ہیں‘ تو مصاحبین یہ کہہ کر ہنستے لگتے ہیں کہ ''اب شفاف الیکشن کی باتیں کرتا ہے۔‘‘ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اسی طرح کے چند مصاحبین جمع ہو کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ کسی عدالت میں جاتے ہیں‘ تو چار پانچ مصاحبین سڑک پر کھڑے ہو کرقہقہے لگانے لگتے ہیں ''خان صاحب کہتے ہیں‘ دوبارہ گنتی ہو جائے گی‘‘ اور پھر ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر مزید زورزور سے ہنستے ہیں کہ ''لوجی! خان صاحب کو گنتی کی پڑی ہے۔ ہم اگلے الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں اور یہ پرانے ووٹ گنوانے پر مصر ہیں۔ ووٹ تو گل سڑ کے ضائع ہو گئے اور خان صاحب نے ضد لگا رکھی ہے کہ گنتی کرا کے رہیں گے۔‘‘ عمران دوبارہ گنتی کے لئے تھیلے کھلواتے ہیں‘ تو کائونٹر فائل پر جہاں انگوٹھے کا نشان ہونا چاہیے‘ وہاںچوہوں کے پنجوں کے نشانات ملتے ہیں اور جب بڑے بڑے سرکاری افسروں کو بلا کر پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ سنجیدگی سے جواب دیتے ہیں کہ ''یہ انگوٹھے کے نشان تو ہر گز نہیں۔‘‘ اعتراض ہوتا ہے کہ ''جب انگوٹھے کا نشان ہی نہیں‘ تو ووٹ کس طرح سے درست ہو گیا؟‘‘ افسر اعلیٰ اطمینان سے جواب دیتے ہیں کہ ''ووٹ کے لئے انگوٹھے کا نشان تو ضروری نہیں‘‘ اور جب خان صاحب کہتے ہیں کہ ''پھر یہ ووٹ اصلی کیسے ہو گیا؟‘‘ اس پر سارے مصاحبین ہاتھوں پہ ہاتھ مار کے ہنستے ہیں کہ ''لو جی! خان صاحب کہتے ہیں انگوٹھے کا نشان ہونا ضروری ہے۔ ہا ہا ہا۔‘‘
ایوب خان کے زمانے میں جب بھٹو صاحب بحالی جمہوریت کے جلسے کر رہے تھے‘ تو ان کے مصاحبین بھی کچھ اسی طرح کے کھیل رچاتے تھے۔ سارا میڈیا سرکار کا تھا۔ سارے چمچے سرکار کے تھے۔ جمہوریت کا جال گلی گلی پھیلا ہوا تھا۔ ہر طرف عوام کے منتخب بی ڈی ممبر پھر رہے تھے۔ بھٹو صاحب جو بھی کہتے سب اسے دوہرا دوہرا کے یوں ہنستے‘ جیسے یہ کوئی لطیفہ ہو۔وہ ہنستے رہے۔ بھٹو صاحب اکیلے عوام کو جمع کر کے‘ شاہی خاندان کے کارنامے بیان کرتے۔ مصاحبین ہنستے اور پھر جب وقت بدلا‘ تو سب کہنے لگے کہ ''ہم تو پہلے ہی کہتے تھے‘ بھٹو سچا ہے۔‘‘ بھٹو صاحب بہت دن ''سچے‘‘ رہے۔ لیکن جیسے ہی بھٹو صاحب کو اقتدار سے نکال کر جیل میں ڈالا گیا‘ تو وہ کہا کرتے کہ ''ضیا مجھے پھانسی لگائے گا‘‘ اور حکمرانوں کے مصاحب ہنستے کہ'' اس کا خیال ہے اسے پھانسی لگے گی۔‘‘پھانسی تو لگ گئی۔عوام روئے۔ حکمران زور زور سے ہنسے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آدمی ہمیشہ اکیلا ہی ہوتا ہے۔ مظہرالاسلام کے مشہور افسانے کا عنوان ہے ''گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘۔آدمی ہمیشہ اکیلا ہی ہوتا ہے‘ شہر گھوڑوں کا ہو یا گدھوں گا۔آدمی اکیلا ہوتا ہے۔جیسے آج کل عمران اکیلا ہے۔
وقت سے آگے جو نکل جائے
اس کو پاگل قرار دیتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved