''ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ قائد اعظم نے کہا تھا مگر قائد اعظم کے لیے ہمیں کہاں فرصت۔ فرقہ واریت کے مارے ملّا ہیں یا الحاد کی تحریکوں سے پھوٹنے والے ترقی پسند۔ خدا کی پناہ، خدا کی پناہ!
پاکستان نہیں، جنگ بھارت کے مفاد میں ہے۔ ممکن ہے، بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت ایک محدود جنگ کی آرزومند ہو کہ دہشت گردوں سے برسرِ پیکار پاکستان کی ناک رگڑ سکے۔ چاہتے وہ یہ ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہ آئے اور معاشی طور پر وہ نمو پذیر نہ ہونے لگے۔
قیامِ پاکستان کے بعد تین عشرے تک ہماری شرحِ ترقی بھارت سے زیادہ تھی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کو عظیم لیڈر کہا جاتا ہے۔ ان کے تین نعرے تھے۔ سیکولرازم، سوشلزم اور جمہوریت۔ سیکولرازم بابری مسجد کے ملبے تلے سسک رہا ہے۔ سوشلزم کی بساط ان کی اولاد نے لپیٹ دی اور جمہوریت کی بھی۔ نہرو خاندان کو شاہی خاندان کا درجہ حاصل ہے۔
ایک ہزار برس کے بعد برہمن کو اقتدار حاصل ہوا۔ ہزار سال بعد معاشی ترقی کے تین عشرے۔ آپے سے وہ باہر ہو گئے۔ اتنا ہی ان کا ظرف ہے۔ رہی جنگ تو وہ دشمن کی نہیں، اپنی مرضی سے لڑی جاتی ہے۔ اپنی پسند کے میدان میں اور اس وقت جب کوئی چارۂ کار باقی نہ رہے۔ جدید جنگیں ہولناک ہیں۔ افواج ہی نہیں، عام آبادی کے لیے بھی پیغامِ مرگ۔ واعظوں کے خطبات اور رومانی ناولوں سے خوابوں کے جہاں آباد کرنے والوں کی بات دوسری ہے۔
نریندر مودی اس کے سوا کیا کہتے، جو انہوں نے کہا۔ ناٹے سے آدمی کی بدن بولی پر غور کیجیے۔ وہ احساسِ کمتری کا مریض ہے، خوئے انتقام کا مارا ہوا۔ برّصغیر کے مزاج میں جذباتیت بہت ہے، دکھاوا اور احساسِ کمتری۔ مودی ہی نہیں، اندرا گاندھی بھی یہی تھیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد انہوں نے کہا تھا: دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر کے ہم نے ہزار سال کا بدلہ لے لیا۔
جو معاشرے مغلوب رہے ہوں، ان میں انتقام کی تمنّا ہوتی ہے۔ دانا لیڈر معاشرے کی تہذیب کرتے ہیں۔ بتاتے اور سکھاتے ہیں کہ انتقام ایک گھٹیا جذبہ ہے۔ افراد اور اقوام اپنی ریاضت اور خوبیوں کے بل پر آگے بڑھتے ہیں۔ امن اور تعلیم کے فروغ سے، ایک آہنگ کے ساتھ۔ ایسے احمق ہمارے ہاں بھی بہت ہیں، دہلی کا لال قلعہ فتح کرنے کے جو آرزومند ہیں۔ بھارت کا حال اور بھی پتلا ہے۔ نریندر مودی کو چھوڑیے، جو دس لاکھ روپے کا سوٹ پہن کر اترایا۔ جواہر لعل نہرو نے کہا تھا: شبنم کے قطرے کی طرح، سورج کی پہلی کرن جسے تحلیل کر دیتی ہے، پاکستان ختم ہو جائے گا۔ پاک افغان سرحد پر کھڑے ہو کر موہن داس کرم چند گاندھی نے یہ کہا تھا: بھارت کی سرحد بامیان تک ہے۔
اقوام پھیلتی اور محدود ہوتی ہیں۔ کبھی ایرانی یہاں برسرِ اقتدار تھے۔ آج تک جس کی یاد انہیں آزردہ کیے رکھتی ہے۔ سات سو برس تک برّصغیر پر مسلمان اقتدار کا علم لہراتا رہا۔ آدھی دنیا کو تاتاریوں نے فتح کر لیا تھا۔ اب ان کی باقیات افغانستان میں ہیں، ایران، پاکستان اور وسطی ایشیا میں۔ دائم اقتدار صرف خالقِ کائنات کا ہے۔ ماضی کی یاد میں جو قوم ٹھنڈی آہ بھرتی رہے، وہ اس مفلس کی مانند ہے، اپنے اجداد کی تونگری جسے ملال میں مبتلا کیے رکھے۔ مشکل زندگی اور بھی مشکل ہو جائے۔
چوہدری نثار علی خان بہت فصیح ہیں‘ مگر پریس کانفرنس داغنے کی انہیں ضرورت کیا تھی؟ خواجہ آصف بھی موزوں الفاظ کا انتخاب نہ کر سکے۔ نریندر مودی کے بیان کا جواب وزیرِ اعظم نواز شریف کو دینا چاہیے تھا اور جذباتی ہوئے بغیر۔ وہ نہیں، تو چیف آف آرمی سٹاف؛ اگرچہ اب وہ زیادہ بات کرنے لگے ہیں۔ طاقت خاموشی اور محدود اظہارِ خیال میں ہوتی ہے وگرنہ آدمی افتخار چوہدری بن جاتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کی چیخ و پکار ناقابلِ فہم ہے۔ ایک چینل نے ایٹمی میزائلوں کی نمائش کی اور بھارتی شہروں کے نام گنوائے، جو ہدف بنائے جا سکتے ہیں۔ خدا کی پناہ، مقبولیت کی دوڑ کس سطح پر لے آتی ہے۔
کیا جنگ کی خواہش پالنی چاہیے؟ پاکستانی ایک بہادر قوم ہیں۔ بھارت کے پڑوسیوں میں اگر کوئی خم ٹھونک کر کھڑا ہو سکتا ہے تو وہ ہم ہیں۔ تیرہ برس سے افواجِ پاکستان برسرِ جنگ ہیں۔ حوصلہ مندی اور تجربے کے اعتبار سے اب وہ دنیا کی بہترین سپاہ ہیں۔ سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں اوسطاً دس دہشت گردوں کو ہلاک کرنے والے ہمارے جوان اور افسر اب جنگی حربوں سے پوری طرح آشنا ہیں۔ اس عہد کے تعصبات تمام ہو چکیں گے تو تاریخ دوسروں سے زیادہ جنرل کیانی کو داد دے گی۔
افغانستان سے واپسی پر امریکیوں نے چار مختلف فارمولے پیش کیے تھے۔ چاروں میں بھارت اہم تھا۔ مثلاً پاکستان، ایران اور بھارت۔ پاکستان، سعودی عرب اور بھارت۔ پاکستان، امریکہ اور بھارت۔ پاکستان، روس اور بھارت۔ چاروں فارمولے جنرل کیانی نے مسترد کر دیے۔ کابل میں حامد کرزئی کو انہوں نے مشورہ دیا کہ چین کو شریک کیا جائے۔ ایک چغل خور کی طرح کرزئی نے امریکہ سے کہا: واشنگٹن کو پاکستان بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ ہمیشہ کے ٹھنڈے لہجے میں جنرل نے کہا: بالکل نہیں، چین کی شمولیت سے پائیدار امن کا حصول زیادہ آسانی کے ساتھ ممکن ہو گا کہ ماضی کا کوئی بوجھ اس کی پیٹھ پر نہیں۔
9 برس میں سینکڑوں طویل ملاقاتوں میں، بھارتیوں کے عزائم سے وہ امریکی قیادت کو آگاہ کرتے رہے۔ آخرکار اپنے مشن میں وہ کامیاب رہے‘ وگرنہ بھارت دوحہ مذاکرات تک میں شمولیت پہ اصرار کرتا رہا۔ دہشت گردی کے خلاف جنرل راحیل شریف کے کردار کی سبھی نے ستائش کی اور کرنی چاہیے۔ مگر کیانی کے باب میں ہم پرلے درجے کی ناشکرگزار قوم ثابت ہوئے۔ اس خطہء ارض میں بھارت کا کردار انہوں نے محدود کیا۔ سوات اور جنوبی وزیرستان کی جنگی کارروائیوں نے ضربِ عضب کی راہ ہموار کر دی تھی۔
بھارت کا کوئی پڑوسی غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جنگ کے لیے ہمیشہ مستعد رہنا چاہیے۔ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ گھوڑے تیار رکھو۔ میدان اور مواقع کا انتخاب البتہ اپنی مرضی سے ہونا چاہیے۔
نعرہ بازی نہیں، جنگ ریاضت، مشقت، عزم اور مستقل مزاجی ہے۔ خوش آئند یہ ہے کہ پاکستانی فوج اور عوام دشمن سے مرعوب نہیں ہوتے مگر جذباتیت خوبی نہیں، کمزوری ہے۔ دشمن جس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام بھارت سے بہتر ہے۔ ٹینک اور لڑاکا جہاز ہم خود بنا رہے ہیں۔ شہادت کو سب سے بڑا اعزاز سمجھنے والے پاکستانی سپاہی کا مقابلہ بھارتی کیا، کوئی بھی آسانی سے نہیں کر سکتا۔ تیس برس سے سیاچن کے برف زار اس پر گواہ ہیں۔
جنگ کہیں اور برپا ہے۔ ایجنٹ انہوں نے پالے ہیں۔ قبائلی پٹی میں، بلوچستان میں، سول سوسائٹی اور میڈیا میں۔ نفسیاتی محاذ پر وہ کامیاب ہیں۔ ہر سکرین پر بھارتی رقاصہ جلوہ گر ہے۔ ہماری زبان تک انہوں نے آلودہ کر دی۔ ''اس موضوع کو لے کر‘‘۔ ''میرا ماننا یہ ہے‘‘ پاکستان کی نہیں، یہ بھارتی فلموں کی زبان ہے۔ سطحی اور پست۔
''سپاہی پیٹ کے بل رینگتا ہے‘‘ نپولین نے کہا تھا۔ کینہ پرور دشمن کا مقابلہ مقصود ہے تو ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہو گا۔ بھارتی یہ بات سمجھتے ہیں۔ اسی لیے اقتصادی راہداری پر وہ تڑپ اٹھے ہیں۔ ہمارے محترم اور معزز سیاسی رہنما دھینگا مشتی اور کیچڑ اچھالنے سے فرصت پائیں تو ازراہِ کرم اس نکتے پر غور کریں کہ فقط افواج نہیں، یہ اقوام ہیں جو ملک کی حفاظت کرتی ہیں۔
''ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ قائد اعظم نے کہا تھا مگر قائد اعظم کے لیے ہمیں کہاں فرصت۔ فرقہ واریت کے مارے ملّا ہیں یا الحاد کی تحریکوں سے پھوٹنے والے ترقی پسند۔ خدا کی پناہ، خدا کی پناہ!