گندم سکینڈل کو دو ماہ گزر چکے۔
یکم جون کو وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں نیشنل اکنامک کونسل کا اہم اجلاس ہوا جس میں نئے مالی سال کے بجٹ کو فائنل کیا جانا تھا کہ کتنا پیسہ کہاں جائے گا اور کون کون سے پروجیکٹس شروع ہوں گے۔
اس اہم اجلاس میں دیگر وفاقی وزراء کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی موجود تھے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ایک اہم موضوع اٹھالیا کہ سندھ میں گندم خریداری کا بحران سنگین ہوگیا ہے۔ شہباز شریف نے بھی قائم علی شاہ کا ساتھ دیا کہ بیرون ملک سے سات لاکھ ٹن گندم منگوا کر پنجاب اور سندھ کے اندر کسانوں اور حکومتوں کے لیے شدید مسائل پیدا کر دیے گئے۔
نواز شریف حیران ہوئے کہ کیا ہوا تھا۔ اس پر سائیں نے نواز شریف کو بتایا کہ پرائیویٹ سیکٹر کو سات لاکھ ٹن گندم منگوانے کی زیروڈیوٹی پر اجازت وفاقی حکومت نے دی تھی۔ پہلے ہی اس ملک میں بارہ لاکھ ٹن گندم پڑی تھی۔ یوں نئی فصل کے آنے سے قبل ہی ملک میں انیس لاکھ ٹن گندم موجود تھی تو پھر گندم کون خریدتا۔ نواز شریف مزیدحیران ہوئے‘ بھلا کیسے سات لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوالی گئی تھی جب کہ ملک میں پہلے ہی پاسکو اور صوبائی حکومتوں کے پاس بارہ لاکھ ٹن گندم موجود تھی۔ نواز شریف کی حیرانی جاری تھی کہ ایک اور بم پھوڑا گیا کہ جو سات لاکھ ٹن گندم روس اور یوکرائن سے منگوائی گئی تھی‘ وہ سب گھٹیا کوالٹی کی تھی اور جانور بھی شاید اسے منہ نہ لگاتے۔ نواز شریف پھر حیران ہوئے کیونکہ انہوں نے سوچا ہوگا پاکستان میں کوالٹی کنٹرول کا باقاعدہ ایک محکمہ ہے جو ہر بندرگاہ پر اس طرح کی چیزوں کی کوالٹی چیک کرتا ہے کہ کہیں ان میں بیماری تو نہیں‘ اس کے بعد ہی وہ چیز ملک میں آسکتی ہے۔ ایک بحری جہاز پر چوبیس ہزار ٹن گندم آسکتی ہے۔ تو پھر کراچی کی بندرگاہ پر تیس جہاز یہ گندم لے کر اترے، اور کسی نے چیک کرنے کی زحمت تک نہ کی کہ کس معیار کی گندم پاکستان لائی جارہی تھی۔
ابھی شرکاء کے حیران ہونے کی باری تھی جب یہ انکشاف ہوا کہ دراصل یہ سب گندم مفت میں بیرون ملک سے لائی گئی تھی اور ملک کو اس تجارت سے ایک ٹکے کا فائدہ بھی نہ ہوا۔ چاہیے یہ تھا کہ کسٹمز حکام باقاعدہ طور پر اس گندم کو روک کر وفاقی حکومت کو بتاتے کہ بڑی تعداد میں گندم لائی جارہی ہے اور اس پر ڈیوٹی لگانی ہے یا نہیں۔ کسٹمز کے کسی بڑے نے بڑا ہاتھ مارا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور یوں تیس کے قریب جہازوں پر لدی یہ گندم بغیر ایک ٹکہ ڈیوٹی دیئے پاکستان کے اندر کسمٹز نے کلیئر کر کے بھیج دی۔ اب کسٹمز کے کن افسران نے کتنا مال کمایا اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اگر سات لاکھ ٹن گندم کی امپورٹ پر پندرہ فیصد ڈیوٹی لگائی جاتی تو پاکستان کو تین سو ملین ڈالرز کے قریب ڈیوٹی وصول ہوسکتی تھی۔ جب کہ آئی ایم ایف کے پانچ سو ملین ڈالرز کے لیے ہم قدموں میں بچھے رہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گھٹیا کوالٹی گندم لانے کی اجازت کس نے دی جب ملک میں بارہ لاکھ ٹن موجود تھی۔ اگر دی تو پھر کسٹمز حکام نے کیسے زیرو ڈیوٹی گندم اندر آنے دی۔ وہ کون سے طاقتور لوگ تھے جنہوں نے چپکے سے اس ملک میں تیس جہاز گندم سے بھرے منگوالیے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔
اس پر نواز شریف نے کہا کہ اس پر انکوائری بنتی ہے اور انکوائری کی جائے۔
نواز شریف بھول گئے تھے جب میں نے انہی صفحات میں کالم میں گندم سکینڈل بریک کیا تھا تو وزیراعظم کے انتہائی قریبی افسر فواد حسن فواد نے ایک انکوائری کا حکم دیا تھا۔ اس میںلکھا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے علم میں آیا ہے کہ پاکستان میں گھٹیا کوالٹی گندم امپورٹ کی گئی ہے جس سے ملک کو نقصان ہوا ہے اور مقامی اسٹاک میں پڑی گندم کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہے جس سے بحران پیدا ہوچکا ہے۔ اس پر دانیال عزیز اور بیرسٹر ظفراللہ کو ممبر انکوائری لگایا گیا۔ دو ماہ گزر گئے ہیں اور انکوائری چل رہی ہے۔ نواز شریف بھی بھول گئے کہ انہوں نے کوئی انکوائری کا حکم دیا تھا لہٰذا این ای سی کے اجلاس میں جب قائم علی شاہ اور شہباز شریف نے یہ معاملہ دوبارہ اٹھایا تو انہوں نے نئی انکوائری کا حکم دے دیا ۔
نواز شریف کو شاید علم نہیں ہوگا اور نہ وہ جاننا چاہیں گے کہ گندم سکینڈل صرف گھٹیا کوالٹی گندم روس سے زیرو ڈیوٹی پر منگوانے کا نام نہیں ہے۔ یہ سکینڈل اس سے بھی بڑا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہر سال گندم سیزن شروع ہونے سے قبل ہی پاسکو اور صوبے بینکوں سے اربوں روپے کمرشل قرضہ لے کر کسانوں سے گندم خرید کر اپنے اسٹاک میں رکھتے ہیں۔ گندم سیزن ختم ہونے پر فلور ملز مالکان صوبائی محکمہ خوراک سے وہ گندم خریدتے ہیں۔ ان سے ملنے والے پیسے حکومت بینکوں کا قرضہ واپس کرنے میں استعمال کرتی ہے اور یوں گودام بھی فری ہوتے رہتے ہیں اور باردانہ بھی میسر ہوتا ہے۔ ان قرضوں پر بھاری سود بھی ادا کیا جاتا ہے۔
تاہم پچھلے سال ایک مختلف کام ہوا۔ گندم زیادہ ہونے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ نے زیادہ گندم خرید کر اپنے سرکاری گوداموں میں رکھ لی اور انتظار میں بیٹھ گئے کب فلور ملز ان سے گندم خریدتی ہیں اور وہ بینکوں کو ان کا پیسہ لوٹاتے ہیں اور گودام بھی خالی ہوتے ہیں تاکہ اگلے سال کی فصل کو وہاں محفوظ رکھا جائے۔ چھ ماہ گزر گئے تو صوبائی محکمے حیران اور پھر پریشان ہوئے کہ ان سے فلور ملز والے اس تعداد میں گندم نہیں خرید رہے جس کی انہیں امید تھی۔کچھ کھوج لگایا تو یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ ان فلور ملز والوں نے چپکے سے روس اور یوکرائن سے بہت سستی اور گھٹیا کوالٹی گندم منگوا لی تھی اور اسے آٹا بنا کر مارکیٹ میں بیچ رہے تھے۔
وہ کیسے ڈیوٹی فری منگوا سکتے تھے کیونکہ یہ امپورٹ ڈمپنگ کے زمرے میں آتی ہے اور دنیا کا کوئی ملک اجازت نہیں دیتا کہ وہ مقامی کسانوں کے حق پر ڈاکا مارنے والوں کو مفت میں گندم لانے کی اجازت دے۔ اس لیے ڈیوٹی لگائی جاتی ہے تاکہ بیرون ملک سے آنے والی گندم کو مہنگا کیا جائے تاکہ فلور ملز مالکان اسے خریدنے کے قابل نہ رہیں اور وہ مقامی گندم خریدیں۔ تاہم محکمہ فوڈ کو پتہ چلا کہ یہ تو سب مفت میں بغیر کسٹمز یا ریگولیٹری ڈیوٹی ادا کیے سات لاکھ ٹن گندم لائی گئی تھی۔
یوں اکتوبر 2014ء میں جا کر سیکرٹری زراعت سیرت اصغر کو صوبوں نے خط لکھے تو ان کی آنکھ کھلی لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ سیرت اصغر نے کبھی چیک کرنے کی زحمت نہیں کی کہ کیا ہورہا تھا۔ یہ سب افسران عیاشی کرنے بیٹھے ہیں اور اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ملک میں سات لاکھ ٹن گھٹیا کوالٹی گندم آگئی بلکہ تیس ارب روپے امپورٹ ڈیوٹی بھی ضائع گئی اور سب سے بڑھ کر مقامی گندم نہ بک سکی اور پتہ چلا کہ گندم نہ بکنے کی وجہ سے خوراک کے صوبائی محکمے بینکوں سے اربوں روپے کے قرضہ واپس نہ کر سکے اور اب اس پر ہر ماہ سود علیحدہ ادا کررہے ہیں۔ اب جب اس سال اپریل میں نیا سیزن شروع ہونا تھا تو یہی محکمے پھر بینکوں کے پاس گئے اور انہوں نے ماضی کی طرح اربوں روپے کمرشل قرضہ لیا تاکہ نئی فصل خرید سکیں۔ ابھی پچھلا قرضہ اترا نہیں تھا کہ نیا لینا پڑا۔ تاہم قرضہ تو مل گیا لیکن بار دانہ موجود نہ تھا کیونکہ فصل جو نہیں بکی تھی۔ مزید محکمہ خوراک اور پاسکو کے پاس گوداموں میں جگہ خالی نہ تھی کہ وہ نئی فصل خرید کر کہاں رکھیں گے۔ یوں اب گندم کی قیمتیں کریش کر گئی ہیں۔ کسانوں کو ہر من پر تین سو روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ گندم کی بوریاں کسی کو نہیں مل پا رہیں کیونکہ محکمہ خوراک اور پاسکو کے پاس موجود تک نہیں تھیں۔ اب جو گندم خریدی جارہی ہے وہ کھیتوں اور کھلے آسمان تلی رکھی جارہی ہے۔ بارشیں ہوں گی‘ ان میں کیڑا پڑے گا اور ساری ضائع ہوجائے گی۔ یوں جہاں اربوں روپے کے قرضے کا بوجھ پڑ گیا‘ وہیں بیرون ملک سے گھٹیا گندم منگوا لی گئی، لوکل اسٹاک تباہ ہوگئے، کسانوں کی نئی فصل نہ بک سکی۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟
اس سکینڈل اور ملک کو اربوں روپے کے نقصان کی ذمہ داری وزارت خزانہ اور وزارت تجارت پر عائد ہوتی ہے۔ ایف بی آر، کسٹمز، اسٹیٹ بنک، تجارت کو کیسے پتہ نہیں چلا کہ ملک میں سات لاکھ ٹن گندم آگئی اور ایک روپیہ ڈیوٹی تک عائد نہ کی گئی۔ کسٹمز کہاں تھی؟ سونے پر سہاگہ دیکھیں کہ اسحاق ڈار نے انہی فلور ملز مالکان کو گھٹیا کوالٹی گندم کا آٹا بنا کر بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے پر پچپن ڈالر سبسڈی بھی دے دی۔ جنہوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا تھا وہ الٹا عوام کی جیب سے کروڑوں ڈالرز کی سبسڈی بھی لے گئے۔ جو گندم وہ روس سے لائے‘ اس پر پاکستانی عوام کی جیب سے سبسڈی دی گئی کہ اسے دوبارہ عالمی مارکیٹ میں بیچ دو۔ یوں ان تاجروں نے پہلے گھٹیا کوالٹی گندم سستے داموں منگوائی‘ وہ اس وقت مزید سستی ہوگئی جب کسٹمز اور وزارت خزانہ نے اس پر ڈیوٹی نہیں لگائی اور پھر انہوں نے اسحاق ڈار سے مل کر پچپن ڈالرز فی ٹن سبسڈی بھی عوام کی جیب سے لے لی۔ اسے کہتے ہیں ہاتھ سر، منہ، کان، آنکھیں سب کچھ کڑاہی میں ہونا۔
اندازہ کریں کیسے اس ملک کے اربوں روپے ڈبو دیے گئے، کسان تباہ ہوئے۔ بینکوں سے لیے گئے قرض پر سود ادا ہورہا ہے،گندم کھیتوں میں خراب ہورہی ہے۔ جنہیں جیلوں میں ہونا چاہیے تھا وہ الٹا اسحاق ڈار سے گھٹیا کوالٹی گندم امپورٹ کر کے کروڑوں ڈالرز کی سبسڈی بھی لے گئے۔
ان ٹھگوں کے ناموں کا کسی کو پتہ نہیں جنہوں نے سب کو چونا لگایا اور چلتے بنے۔
کیا آپ سب کو یہ پڑھ کر حیرانی نہیں ہوتی یہ کون لوگ ہیں ،کس سیارے سے آئے ہیں،کیا چاہتے ہیں اور ملک کو کیسے چلا رہے ہیں ؟
حیران ہوتا ہوں یہ اپنا کاروبار ایسے کیوں نہیں چلاتے جیسے ملک چلاتے ہیں؟