تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-06-2015

سرخیاں‘ متن اور حماد حسن کی شاعری

تعلیم سے ہی دہشت گردی‘ انتہا پسندی
کا خاتمہ ہوگا... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''تعلیم سے ہی دہشت گردی‘ انتہا پسندی کا خاتمہ ہوگا‘‘ لیکن چونکہ حکومت کی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے تعلیم پر جی ڈی پی کا 2 فیصد ہی خرچ کیا جا رہا ہے‘ اس لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ بھی اسی تناسب سے ہو رہا ہے اور چونکہ تعلیم پر سیمنٹ اور سریا خرچ نہیں آتا اس لیے وہ ہماری ترجیحات میں بھی بہت پیچھے جا پڑی ہے‘ اگرچہ سکولوں کو قدرتی ماحول وافر مقدار میں مہیا کیا جا رہا ہے یعنی پنجاب بھر کے 51661 سکولوں میں سے 6514 میں بجلی کی سہولت نہیں ہے اور ان کے اساتذہ اور بچے موسم کی سردی گرمی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں جبکہ پنجاب ہی کے 612 سکول ایسے ہیں جہاں ٹائلٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے جن میں لڑکیوں کے سکول بھی شامل ہیں اور جو رفع حاجات وغیرہ کے لیے کھلی فضائوں کا رُخ کر کے اپنی صحت کو بہتر بنا رہے ہیں‘ نیز لڑکوں اور لڑکیوں کے 2706 سکول ایسے بھی ہیں جن کے گرد کسی قسم کی چاردیواری نہیں ہے اور جہاں کتوں سمیت ہر قسم کے جانور آتے جاتے رہتے ہیں اور طلبہ و اساتذہ کو فطرت کے قریب ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں 795 سکول ماشاء اللہ ایسے ہیں جہاں پینے کے پانی کی سرے سے کوئی سہولت موجود نہیں ہے‘ نیز 4727 سکولوں کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے بلکہ
بہت سے سکولوں کی چھتوں میں دراڑیں پڑنے سے پیدا ہونے والے شگاف صاف دکھائی دیتے ہیں‘ ان کی دیواروں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے جن میں 2500بچوں اور بچیوں کے سکول ایسے بھی ہیں جن کی دیواریں ایک جانب کو جھکی ہوئی صاف اور واضح دکھائی دیتی ہیں جبکہ یہ حوصلہ افزا رپورٹ ہمارے سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پولیٹیکل سائنسز‘ اور الف اعلان کی تیار کردہ ہے اور جب یہ رپورٹ پیش کی جا رہی تھی تو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی بھی موجود تھے جن میں چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''گارڈ آف آنر کے اصل حقدار طلبہ ہیں‘‘ جو مندرجہ بالا صحت افزا سکولوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''68 سال بعد ملک بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں‘‘ بلکہ یہ جنگ بھی دھکو دھکی ہی لڑی جا رہی ہے ورنہ سارا معاملہ مذاکرات ہی کے ذریعے سلجھائو کی طرف جا رہا تھا بلکہ اس کے بہانے ہمارے سارے اختیارات ہی غائب ہو گئے ہیں اور صرف میٹرو بس اور اورنج ریلوے جیسی تعمیرات کا اختیار ہی باقی رہ گیا ہے جو کہ بروئے کار لایا جا رہا ہے ورنہ اگر یہ بھی نہ کریں تو کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں اور سارا سریا اور سیمنٹ بھی گوداموں میں پڑا گلتا سڑتا رہے؟
آپ اگلے روز لاہور میں تقسیم انعامات کی تقریب اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ سے ملاقات کر رہے تھے۔
فارم 15 کا نہ ہونا منظم دھاندلی کی
طرف اشارہ نہیں کرتا... انوشہ رحمن
نواز لیگ کی رہنما انوشہ رحمن نے کہا ہے کہ ''فارم 15 کا نہ ہونا منظم دھاندلی کی طرف اشارہ نہیں کرتا‘‘ بلکہ منظم شفافیت اور غیر جانبداری کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فالتو چیزوں کو تلف کر کے قوم کا قیمتی وقت بھی بچایا گیا ہے اور جس سے جوڈیشل کونسل کے قیمتی وقت کا بچنا بھی صاف ظاہر ہے کیونکہ انہوں نے اپنے طے شدہ وقت میں اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے اور اس کے لیے ایک ایک لمحے کو بچانا بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فارم 15 انتخابات کے نتائج کے حوالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے‘‘ بلکہ یہ ویسے بھی فالتو تھے اور انہیں انتخابات کا حصہ ہی نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ جن کاغذات کی حفاظت ہی نہیں کی جا سکتی‘ انہیں اس سارے عمل میں شامل کرنے کا کوئی مقصد اور فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''این اے ون کے بھی 76 فیصد فارم غائب ہیں جہاں سے عمران خان نے الیکشن لڑا تھا‘‘ اس لیے زیادہ شوروغل مچانے والے عمران خان سے سب سے پہلے پوچھا جائے کہ وہ فارم کہاں ہیں یعنی انہیں اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شامل ہو کر گفتگو کر رہی تھیں۔
حماد حسن کی شاعری
حماد حسن نے پشاور سے اپنی کچھ شاعری بھجوائی ہے جس کی فرمائش ہم نے ان سے اس وقت کی تھی جب وہ چند ماہ پہلے محمد اویس قرنی کے ہمراہ مجھے ملنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ قرنی صاحب نے اپنی ایک کتاب بھی عنایت کی تھی جس میں کرشن چندر کے بارے بے حد قیمتی معلومات اور اس کے افسانوں کا تجزیہ بھی شامل تھا۔ لیکن ہوا یوں کہ یہ کتاب اور طاہرہ اقبال کی پاکستانی افسانے کے بارے میں ایک کتاب جو ایک تحقیقی دستاویز کی حیثیت رکھتی تھی‘ کوئی دوست پڑھنے کے لیے اٹھا کر لے گئے اور ابھی تک واپس نہیں کی‘ نہ ہی مجھے ان کا نام یاد ہے؛ چنانچہ ان دونوں کتابوں کی واپسی کا انتظار کر رہا ہوں۔ حماد حسن کی شاعری کا نمونہ ملاحظہ ہو:
عذاب
مجھے ایسے جنگل سے ہو کر گزرنا تھا اب... جہاں کی زمیں ذائقہ روشنی کی کرن کا کبھی چکھ نہ پائی... ازل سے جہاں راستوں کا تصور نہ تھا... جہاں ہر شجر کے عقب میں بلائوں کے ڈیرے تھے... سانپوں کے مسکن... جہاں موت ہی موت تھی... مجھے اب گزرنا تھا اُن برف زاروں سے ہو کے جہاں... گُر سنہ بھیڑیوں کی قطاروں کے بِن... کوئی زندہ گواہی نہ تھی... جہاں کپکپاتی ہوا کو بھی اپنی بقاء کے لیے موسموں کے بدلتے ہوئے... ذائقوں کو اُگلنا پڑا... مجھے ایسے صحرا کو بھی پاٹنا تھا... جو آتش فشاں سے بھی بڑھ کر حرارت لیے... مستقل ابر و باراں سے عاری رہا... جس کے اگلے کنارے پہ سورج... کے گھر کی کہاوت نہیں... جس کے ٹیلوں پہ بکھری ہوئی تشنگی... جس کے موسم فقط آگ ہی آگ تھے... مجھ کو دیکھو کہ میں ہوں وہی... سخت جاں مثلِ سنگ... جو ایسے عذابوں کو بھی سہہ کے آیا... جسے سوچنے کا تصور بھی ممکن نہیں... مگر میری بستی پہ اُترے... عذابوں کے یہ سلسلے... ان کو میں سہہ تو سکتا نہیں... اپنے خوابوں سے میں کٹ تو سکتا نہیں۔
آج کا مطلع
مسافرت کو بہانہ اگر بنا لیتا
وہ میری آنکھوں میں اِک رہ گزر بنا لیتا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved