تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-06-2015

نیا اسلحہ‘ پرانی سوچ

اگر دنیا نے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے بارے میں بیانات مسلسل ساٹھ سال پڑھے ہوں اور کوئی ریسرچ سکالر ان دونوں ملکوں کے بیانات کے مطالعہ سے تجزیہ کرنا چاہے‘ تو مجھے یقین ہے کہ وہ نارمل نہیں رہ سکے گا۔دنیا میں کوئی بھی ملک‘ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اس کی پالیسی بہرحال طے شدہ ہوتی ہے۔اس میں تسلسل بھی ہوتا ہے اورتواتر بھی۔پاک بھارت تعلقات کے ماہرین ‘ ہرنئے بیان پر سابقہ بیانات کی روشنی میں کوئی تسلسل دیکھنے کی کوشش کریں گے‘تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور پھر ساری عمر سر پکڑے ہی بیٹھے رہیں گے، جب تک پاکستان اور بھارت کو موضوع سے علیحدہ نہیں کر دیا جاتا اور وہ اپنے پختہ خیالات پر قائم رہیں، جیسے وہاں پر آرایس ایس کے لیڈر بال ٹھاکرے اورہمارے ملک میں حافظ سعید ۔ دونوں بے لچک۔' مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو‘۔ ان دونوں کا نام پڑھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ انہوں نے کیا کہا ہو گا ؟اور کئی بار تو اندازہ لفظ بہ لفظ درست نکلتا ہے۔کبھی کبھی یہ حیران بھی کر دیتے ہیں‘جیسے مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ کا نام مفتی سعید ہے جبکہ ہمارے ماہر امور کشمیر کا نام حافظ سعید ہے۔اگر آپ روا روی میں مفتی سعید کا بیان حافظ سعید سمجھ کر پڑھیں تو سر چکرا جاتا ہے۔غوروفکر کرنے کے بعد‘جب سمجھ آتی ہے کہ یہ بیان تو مفتی سعید کا تھا تو بندہ سر کھجا کر رہ جاتا ہے۔کہاں حافظ سعید اور کہاں مفتی سعید؟کچھ عرصہ پہلے میں نے مفتی سعید کا بیان پڑھا ‘جو انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد‘ ممبئی جا کر دیا اور وہاں کے فلم سازوں اور اداکاروں کو دعوت دی کہ وہ کشمیر آئیں، اس بیان پر فوراً ہی بھارتی فلم سازوں نے سمجھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سلامتی کی ضمانت یقیناً حافظ سعید نے دی ہو گی، ورنہ مفتی سعید کے بیان پر کوئی بھارتی‘ مقبوضہ کشمیر کا رخ کیوں کرے گا؟جن فلم سازوں نے مفتی سعید کی دعوت کو حافظ سعید کی دعوت سمجھا‘وہ یہ سمجھ کر کہ انہیں حافظ سعید کی طرف سے تحفظ کی ضمانت مل گئی ہے، فوراً ہی مقبوضہ کشمیر آنے لگے۔ سلمان خان کی نئی فلم''بجرنگی بھائی جان‘‘ کی شوٹنگ فوراً ہی کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں شروع کر دی گئی اور نصف درجن کے قریب مزید فلم ساز مقبوضہ کشمیر کا رخ کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آج تک ایسی کوئی حکومت اقتدار میں نہیں آئی جو بھارتیوں کو سلامتی کی ضمانت دے سکے۔ گزشتہ پچیس سالوں سے نہ صرف سینما گھر بند ہیں بلکہ وہاں فلموں کی شوٹنگ بھی نہیں ہو رہی۔ جتنے لوگ وہاں جاتے ہیں‘انہیں ایک ہی غلط فہمی ہوتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں شوٹنگ کی دعوت‘ انہیں حافظ سعید نے دی ہے۔ اس غلط فہمی میں اور بھی بہت سے فلم سازوں نے مقبوضہ کشمیر کا رخ کر لیا ہے۔ایک فلم ''ویلکم ٹو کراچی‘‘تیار کی گئی لیکن فلم ساز‘ اس کی عکس بندی کراچی میں نہیں کر سکے۔فنکار اسی خیال میں رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی شوٹنگ آگے چل کر ہو گی لیکن فلم مقبوضہ کشمیر میں جائے بغیر ہی مکمل کر لی گئی اور غلط فہمی کا شکار اداکارہ لورین نے کہا : ''کشمیر کے لوگوں کو بالی ووڈ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ یہاں کے لوگ باصلاحیت بھی ہیں ‘ خوبصورت بھی‘‘۔بعض فلم ساز وںنے سری نگر پہنچ کردیکھا کہ سینمائوں پربھارتی فوجیوں کے مورچے لگے ہیں۔ جہاں سینما ہائوسز تھے‘ وہاں ویران عمارتیں ہی عمارتیں کھڑی تھیں۔سری نگر کی نئی نسل کے تو علم میں ہی نہیں کہ اس شہر میں کبھی فلمیں چلا کرتی تھیں، شوٹنگیں
ہوا کرتی تھیں۔عام شہریوں کے لئے اب تفریح کا تصور بھی محال ہے۔ حد یہ کہ شادی بیاہ کے موقعے پر بھی گھروں کے اندر ہی ڈھولک بجا لی جائے تو بہت سمجھا جاتا ہے۔سری نگر کے ایک شہری محمد امین نے کہا''سینما تو تفریح کے لئے ہوتا ہے اورہمارے یہاں تو ماتم ہے۔ ہزاروں لوگ مارے گئے‘ہزاروں لا پتہ ہیں۔ لڑکوں کو پولیس پکڑتی ہے اور کھیتوں میں فوج کا قبضہ ہے۔ ہم کیا فلم دیکھیں گے؟ہم کو سینما کی ضرورت نہیں‘‘۔بعض دوسرے لوگوں نے کہا کہ بھارتی سینما میں کشمیر کے خوبصورت مناظر پر مبنی فلمیں تو دکھائی جاتی ہیں لیکن ان میں تو کشمیریوں کی کردار کشی کی گئی ہے یا ان کی غلط تصویر دکھائی گئی ہے۔ ڈھل گیٹ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے شفاعت فاروق نے کہا: ''ہم فلموں میں اپنی زمین یا پہاڑ نہیں دیکھنا چاہتے ۔ یہ لوگ ہماری کہانی تو دکھاتے نہیں‘‘۔ خاور جمشید‘ لائن پروڈیوسر ہیں۔ یہاں آنے والے فلم یونٹوں کی تکنیکی معاونت کرتے ہیں۔ خاور کا کہنا ہے : ''بالی وڈ کا رشتہ کشمیر کے ساتھ قائم ہو جائے تو یہ روزگار کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو گا لیکن اصل مسئلہ ہماری نمائندگی کا ہے‘‘۔ سینئر اداکارہ دپتی نول نے کہا: ''ہماری فلمیں محبت کے قصوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ہیرو اور ہیروئن کشمیر آئے‘ گانا گایا اور چلے گئے۔ اس میںیا تو کشمیری شکارا والے ہوتے ہیں یاٹیکسی ڈرائیور نظر آتے ہیں۔ کشمیریوں کو آگے چل کر اپنی کہانی خود تحریر کرنا ہو گی۔ یہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرین پلے لکھنے کے لئے ورکشاپیں منعقد کی جاسکتی ہیں ۔یہاں سے ایک جاندار کہانی سامنے آئے گی تو پروڈیوسر فلمیں بھی بنائیں گے۔ پھر آپ کو پردے پر یہاں کے پہاڑ اور جھیلیں ہی نہیں بلکہ یہاں کی زندگی بھی نظر آئے گی‘‘۔کشمیری نوجوان‘ ٹی وی پر بھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ‘ ایران‘ترکی'مشرقی یورپ اور امریکہ کی فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔یہاں ایسی فلمیں زیادہ چلتی ہیں جن میں مقامی زمینی حقائق کی طرف برملا اشارے ہوتے ہیں۔وشال بھردواج کی فلم''حیدر‘‘ اس کی تازہ مثال ہے۔ اس فلم میں شاہد کپور کا وہ منظر نوجوانوں میں بہت مقبول ہے‘ جس میں''ہم کیا چاہتے ؟آزادی‘‘ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔
کشمیریوں کی جنگ آزادی آج بھی جاری ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان‘ کشمیر کے مظلوم عوام کو اب کبھی کبھار ہی یاد کرتے ہیں۔ وہ دن بھلائے جا چکے جب یہاں کے خوبصورت مناظر بھارتی فلموں میں دکھائے جاتے تھے۔اب تو پھر پاک بھارت کشیدگی نئی شدت کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔برما میں شدت پسندوں کے خلاف‘ بھارتی کارروائی کے بعد بیان بازی کا جو سلسلہ شروع ہوا‘ اس میں پہلے بھارتی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات‘ راج وردھن سنگھ راٹھور نے برمی سرحد کے اندر‘ جہاں بھارت مخالف نظریات والے‘ شدت پسند لوگ چھپے ہوئے تھے، بھارتی فوج کی کارروائی کو پاکستان اور دوسرے ممالک کے لئے ایک پیغام قرار دیا ۔بھارتی حکومت کے نمائندوں نے جب یہ کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں پاکستان کے علاقوں میں بھی کی جا سکتی ہیں تو اس پر ''کبھی وزیر داخلہ اور کبھی وزیرخارجہ‘‘ چوہدری نثارعلی خان نے کہا : ''بھارت کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہے،پاکستان میانمار نہیں ہے‘‘۔اس کے بعد برما آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کے وزیردفاع منوہرپریکر نے ایک بار پھر پاکستان پر نشانہ باندھا اور کہا: '' جو لوگ بھارت کے اس نئے انداز سے خوف زدہ ہیں‘انہوں نے اس پر ردعمل کا اظہار شروع کر دیا ہے‘‘۔دونوں جانب سے بیانات میں دھمکیاں اور کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ بھارتی اخبارات میں لکھے جانے والے اداریے ‘اس پر قدرے محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ''ہندوستان ٹائمز ‘‘نے لکھا کہ'' یہ کہنا خطرناک ہو گا کہ یہ پاکستان سمیت تمام ملکوں کے لئے ایک پیغام ہے‘‘۔ لیکن بھارتی وزیر کا کہنا ہے کہ ''ہم جب اور جہاں چاہیں گے‘کارروائی کریں گے‘‘۔
نئی صدی کا آغاز پندرہ سا ل پہلے ہو چکا ہے لیکن پاکستان اور بھارت دونوں آج بھی گزری صدی میں جی رہے ہیں۔ا ن کے حکمرانوں کو شاید یاد نہیں کہ دونوں ملک نہ صرف ایٹمی طاقت بن چکے ہیں بلکہ وہ روایتی ایٹمی ہتھیاروں سے بڑھ کر‘ ایٹمی تباہ کاریوں کی نئی نئی وسعتیں دریافت کر چکے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی کو تباہ کرنے والے ایٹم بم‘ اب فرسودہ چیزیں بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ پورے پورے شہر تباہ کرنے کے قابل تھے۔اب ایٹمی ہتھیار ایک چھوٹے سے دائرے کے اندر بھی نشانہ لگا کر‘اس میں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ دنیا کو ایٹمی تباہ کاری کے اس نئے اور محدود دائرے کو دیکھنا پڑے۔گزشتہ چند روز کے دوران‘دونوں ملکوں کے وزراء کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں ملک ہی‘ ایٹمی اسلحہ رکھنے کی صلاحیت تو حاصل کر چکے ہیں‘ اہلیت نہیں۔ یہ اس نئے اسلحہ کو جو کہیں آزمایا ہی نہیں گیا‘پچھلی صدی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں ملکوں کے عوام کو‘ اپنی اس قیادت سے جلد از جلد محفوظ فرمائے اور یہ بھی پرانی ایٹمی طاقتوں کی طرح‘ تباہ کاری کی اس اہلیت کو ذمہ داری کے ساتھ نبھا سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved