سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس ملک کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 58فیصد غذائی عدم تحفظ یا باقاعدہ بھوک کا شکار ہے۔ معیشت پر قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کا مطلب ہے کہ آنے والی نسلیں اس سے بھی تلخ اور اذیت ناک حالات میںزندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔ دوسری طرف حکمران اور بالائی درمیانہ طبقہ عوام کی وسیع اکثریت کا خون دن رات نچوڑ کر دولت کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔پیسے اور طاقت کے نشے میں دھت بے حس لوگوں کا یہ گروہ کسی اور ہی دنیا میں رہتا ہے۔ یہ طبقہ سماج سے کس حد تک کٹ چکا ہے اس کا اظہار حالیہ بجٹ سے بھی ہوتا ہے۔ امیر طبقے کا ایک نمائندہ، امیروں کے لئے امیروں کا بجٹ پیش کر رہا تھا اور اسمبلی میں ڈیسک بجائے جارہے تھے۔ لیکن ریاست اور حکمران طبقے کے سنجیدہ پالیسی ساز، جن میں عقل کی کچھ باقیات بچی ہیں، بڑھتی ہوئی معاشی تنزلی اور انتہائوں کو چھوتی طبقاتی خلیج سے خاصے پریشان ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ حالات جس سماجی دھماکے کے لئے پک کے تیار ہو رہے ہیں، وہ پورے استحصالی ڈھانچے کو ہی ڈھیر کر سکتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام میں اصلاحات کی گنجائش بہت پہلے ختم ہو چکی ہے۔
حکمران جماعت سرمایہ داروں کی روایتی پارٹی ہے جو برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کے خلاف جارحانہ معاشی اقدامات کرتی چلی جا رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار حکمرانوں کے مفادات کے تحت ہی ترتیب دئیے جاتے ہیں جن میں تلخ زمینی حقائق کی جگہ کم ہی ہوتی ہے۔ریاست کی زوال پزیری کا یہ عالم ہے کہ ملکی آبادی کا تخمینہ لگانے کے لئے مردم شماری کرانے سے بھی قاصر ہے۔لیکن تمام تر جعل سازی کے باوجود محنت کشوں کے خلاف اقتصادی جارحیت کی جھلک ریاستی اعداد و شمار میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت کا کھلا عوام دشمن کردار اس کی ٹیکس پالیسی سے ہی واضح ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں امیر طبقہ ٹیکس ادا کرنے سے بالکل انکاری ہے ۔ مجموعی ٹیکس ریونیو کا 85سے 90فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی یہ بوچھاڑ اب تیز کی جارہی ہے جبکہ سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کو بڑے پیمانے پر ٹیکسوں سے مستثنیٰ کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف گیس، بجلی اور پٹرول سمیت تقریباً تمام بنیادی ضروریات زندگی پر ٹیکس بڑھایا جا رہا ہے، سبسڈی ختم کی جارہی ہے اور دوسری طرف 2014-15ء میں مختلف پُرفریب اصطلاحات کی آڑ میں سرمایہ داروں کو 665ارب روپے کی چھوٹ، ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی میں دی گئی ہے۔ 2013-14ء کی نسبت امیروں کے لئے اس ٹیکس چھوٹ میں 187ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر ٹیکس معافی کا ازالہ عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگا کر بھی نہیں کیا جاسکتا۔حکمرانوں کے پالیسی ساز جانتے ہیں پہلے سے تباہ حال عوام پر ٹیکس لگانے کی بھی حد ہوتی ہے اور پتھر سے خون نہیں نچوڑا جا سکتا۔ لہٰذا ریاستی خساروں کو پورا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر قرضہ لیا جارہا ہے جس کا سود پھر عوام نے ہی بھرنا ہے۔ حکومتی اکنامک سروے کے مطابق حالیہ مالی سال کے پہلے 9ماہ میں 940ارب روپے اضافے کے ساتھ ریاستی قرضہ 17ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ مارچ 2015ء میں حکومت کے ذمے واجب الادا مجموعی رقم 19299ارب روپے ہے۔ یوں ہر پاکستانی 101338روپے کا مقروض ہے۔ 2013ء میں فی شہری قرضہ 90772روپے، 2012ء میں 80894روپے اور 2008ء میں صرف 37170روپے تھا۔اس وقت مجموعی ریاستی قرضہ ملکی جی ڈی پی کا 66.4فیصد بنتا ہے۔جی ڈی پی کے 60فیصد سے زائد قرض کو عام طور پر سرخ بتی تصور کیا جاتا ہے۔ اس قرضے میں بیرونی قرضہ 6.4ہزار ارب روپے ہے اور اس پر سود کی مد میں 2014ء میں 7ارب ڈالر ادا کئے گئے جو کہ سٹیٹ بینک کے موجودہ اثاثوں کا نصف بنتا ہے۔ اندرونی قرضے پر سود کی ادائیگی اس کے علاوہ ہے۔ حکومت کے کل ریونیو کا 47فیصد ان قرضوں کی نذر ہو رہا ہے، پچھلے سال یہ شرح 44فیصد تھی۔
قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کا مطلب ہے کہ حکومتی آمدن کا بڑا حصہ یہ قرضے کھا رہے ہیں اور سماجی انفراسٹرکچر، ترقیاتی منصوبوں اور انتظامی اخراجات کے لئے درکار رقم مزید سکڑتی جارہی ہے۔ صحت اور تعلیم پر حکومتی اخراجات کے حوالے سے پاکستان پہلے ہی فہرست میں آخری نمبر پر ہے۔ ان بنیادی شعبوں کے لئے جی ڈی پی کا تقریباً 4فیصد مختص کیا جاتا ہے اور اس مختص رقم کا بھی قلیل سا حصہ ہی درحقیقت خرچ ہوتا ہے۔حکومتی سروے کے مطابق بیروزگاری گزشتہ 13سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ موجودہ حکومت کے دونوں سالوں میں بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
ادارہ شماریات اور قومی معاشی کونسل کے مطابق بیروزگاری میں اضافے کی بنیادی وجہ مطلوبہ معاشی شرح نمو حاصل نہ کر پانا ہے۔اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ حسب روایت ہوائی تیرچلانے میں مصروف ہے جس پر خود حکومتی اراکین برہم نظر آتے ہیں۔وزارت خزانہ نے بیروزگاری کی شرح میں کمی کا دعویٰ کیا ہے جس سے احسن اقبال نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''معاشی شرح نمو 7فیصد تک پہنچائے بغیر بیروزگاری میں کمی نہیں ہو سکتی۔‘‘گزشتہ دنوں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''جب آبادی میں اضافے کی شرح دو فیصد سالانہ اور معیشت کی شرح نمو 3فیصد ہو تو آپ بیروزگاری میں کمی نہیں کر سکتے۔‘‘غیر سرکاری اداروں کے مطابق ہر سال دس سے بیس لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔سرمایہ داری اپنے تاریخی زوال کے اس عہد میں ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی روزگار پیدا کرنے کے بجائے چھین رہی ہے۔ عالمی معیشت کی شرح نمو کا تخمینہ اقوام متحدہ نے مزید کمی کے ساتھ 2.8فیصد رکھا ہے جو کہ اعلانیہ بحران (Recession)کی حد سے ذرا سا ہی زیادہ ہے۔ ان حالات میں پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کی مفلوج معیشتوں میں بلند شرح نمو کی باتیں، اور پھر اس شرح نمو کے 'ٹریکل ڈائون‘ اثرات کے تحت بڑے پیمانے پر روزگار کے اجرا کے خواب، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
سیاست پر حاوی تمام پارٹیوں کے پاس معیشت کو چلانے کے لئے ''بیرونی سرمایہ کاری‘‘ (FDI) کا نیو لبرل نسخہ ہی ہے۔ آج کے عہد میں بیرونی سرمایہ کاری کا کردار یکسر بدل چکا ہے اور اس سے نیا روزگار پیدا ہونے کی بجائے پہلے سے موجود روزگار ختم بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ملٹی نیشنل کمپنیاں کسی انسانی جذبے کے تحت سرمایہ کاری نہیں کرتی ہیں بلکہ تیسری دنیامیں انویسٹ ہونے والا ہر ڈالر اپنے ساتھ 20ڈالر واپس لے کر جاتا ہے اور معیشت کی رہی سہی جان بھی نکل جاتی ہے۔لیکن 2008ء کے بعد سے ایسی سرمایہ کاری کی شرح بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور چین جیسی معیشتوں کے غبارے سے بھی ہوا نکل رہی ہے۔ سرمایہ داری زائد پیداواری صلاحیت کا شکار ہے اور نئی سرمایہ کاری کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہاں کے کمیشن خور حکمران ریاستی اثاثوں کو کوڑیوں کے بھائو نیلام کرنے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔ پچھلے مالی سال میں 170ارب روپے کی نجکاری کی گئی ہے جبکہ 198ارب روپے کا ٹارگٹ تھا۔اس نجکاری میں سرمایہ داروں کے لئے منافع، حکمرانوں کے لئے کمیشن اور کِک بیکس جبکہ عوام کے لئے مہنگائی، لوٹ مار اور وسیع بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں رکھا۔
یہ نظام معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر استحصال، محکومی اور ذلت کے سوا محنت کش طبقے کو کچھ نہیں دے سکتا۔ سماج کا تانا بانا بکھر رہا ہے اور تہذیب مٹ رہی ہے۔پاکستان کی دیوالیہ سرمایہ داری وہ اندھیری سرنگ ہے جس کا کوئی سرا نہیں ۔تاریخی طور پر متروک سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر ہی اس اندھیر نگری سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔